پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
یہ تر ک ڈرامے
مجھ سے بہت سے لوگ خصوصاً طلبا یہ سوال کر چکے کہ کچھ عرصہ سے بہت ہی مقبول ہوئے ترک ڈراموں کے بارے میرا ذاتی خیال کیا ہے اور کیا یہ سب فقط انٹرٹینمنٹ اور شغل میلہ ہے یا یہ لوگوں کو واقعی موبلائز، موٹی ویٹ یا انسپائر بھی کریں گے؟ نتیجہ خیز بھی ثابت ہوں گے یا کھوتی ’’بوڑھ‘‘ کے نیچے ہی دولتیاں جھاڑتی رہے گی؟ ممکن ہے پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ’’جنگ‘‘ کے قارئین کی اکثریت یا معقول تعداد کے ذہنوں میں بھی یہی سوال سرسراتا ہو لیکن فیڈ بیک نہ ہونے کے سبب میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ محض ایک مفروضہ کی بنیاد پر اس موضوع کو چھیڑنا ضروری سمجھتا ہوں۔ خصوصاً اس ماحول میں جب حکومت بھی ’’صلاح الدین ایوبی‘‘ پر ڈرامائی سلسلہ شروع کر رہی ہے۔
خاکسار کے خیال میں اگر اس طرح کے سیریلز یا سیریز سے ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ جیسا ہدف حاصل ہو سکتا تو یہ دنیا کا آسان ترین کام ہوتا کہ چند ڈرامے بنائو اور ڈرامائی انداز میں صف اول کی قوموں میں شامل ہو جائو۔ ہم بنیادی طور پر ’’پدرم سلطان بود‘‘ قسم کے لوگ ہیں حالانکہ ہمارا یہ کلیم بھی سراسر ہوائی اور واجبی ہے۔ ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے‘‘ اور ’’دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے‘‘ جیسی ’’لوریاں‘‘ اپنی جگہ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ 2022 میں بھی یہاں ’’چوہدری‘‘ اور ’’کمی‘‘ ایک چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتے اور ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کے اس دور میں بھی ذات برادری بڑی فیصلہ کن ہے، جہالت زدہ غیرت ہر روز لہورنگ گل کھلاتی ہے جبکہ دوسری طر ف ہم عرب محمد بن قاسم، بربر طارق بن زیاد، کرد صلاح الدین ایوبی، ترک تیمور، بابر، محمود غزنوی وغیرہ کے ساتھ رشتہ داریاں کلیم کرنے سے باز نہیں آتے جبکہ تازہ ترین سچائی یہ کہ اگر یکجائی کیلئے مذہب کا رشتہ ہی کافی ہوتا تو بنگلہ دیش بننے کی نوبت نہ آتی۔ عربوں، ایرانیوں، ترکوں کے درمیان مثالی بھائی چارہ ہوتا یا کم از کم اسرائیل کے حوالہ سے ہی ’’ایک ہوتے سب حرم کی پاسبانی کیلئے‘‘ جبکہ تاریخ میں آپس اندر کی دہشت گرد تنظیمیں گنی نہیں جاتیں۔ سلاطین دہلی سے لے کر مغلوں اور سلطنت عثمانیہ سے لیکر صفویوں، بنوامیہ سے لے کر عباسیوں تک پیار بھرے نہیں تلوار اور اقتدار بھرے ایک ہی خون کے دریائوں میں ڈوبتے، ابھرتے رشتے ایسی بھیانک حقیقتیں ہیں جنہیں جھٹلانے کیلئے آنکھوں ہی نہیں عقل کا اندھا ہونا بھی بنیادی شرط ہے اور یہ مسئلہ ہمارا ہی نہیں، مسیحی دنیا نے بھی آپس میں خون ریز جنگیں لڑیں اور فیشن سٹیٹس کے تصور نے تو دنیا کی روح تک تبدیل کر دی ہے۔
قوموں کے عروج و زوال کے حوالہ سے ہمارا تصور جینیاتی طور پر ہی مضحکہ خیز ہے۔ ’’دنیا کی امامت‘‘ کا تعلق صرف ’’علم‘‘ اور ’’اخلاقیات‘‘ کے ساتھ ہی رہ گیا ہے جس کا درس ہم مکمل طور پر بھلا کر ’’خرافات میں کھو گئے‘‘۔ علم کا مطلب ہے ’’سائنس اور ٹیکنالوجی‘‘ جس کے ذکر سے ہی ہم بدکتے ہیں۔ یہ تعداد نہیں استعداد ’’یہودی‘‘ کا زمانہ ہے، یہ مسل نہیں عقل کا عہد ہے اور جہاں تک تعلق ہے ’’اخلاقیات‘‘ کا تو ہم نے اسے ’’ملبوسات‘‘ اور ’’مشروبات‘‘ کا مکسچر سمجھ رکھا ہے جنہیں ہم ’’بے راہروی، فحاشی، بے حیائی‘‘ کے سمبلز سمجھتے ہیں، اعلیٰ تعلیم اور روشن مستقبل کیلئے بھاگتے بھی انہی کی طرف ہیں جبکہ وہ خود چاند اور مریخ کی طرف محو پرواز ہیں۔ میں اس ’’معمولی‘‘ سی بات پر غیر معمولی قسم کی حیرت کا شکار ہوں کہ یہاں جھوٹ، ملاوٹ، رشوت، حسد، غیبت، کام چوری، اسراف، نمود و نمائش، منافقت وغیرہ وغیرہ کو کبھی کسی نے بے راہروی، فحاشی، بے حیائی، بے غیرتی نہ کہا نہ لکھا۔ ’’بے شک تم غالب آئو گے اگر تم مومن ہو‘‘ اور مومن کے اپنے عہد کے ساتھ ہم آہنگ والی بات اتنی بھی مشکل نہیں کہ ہماری سمجھ میں نہ آ سکے اور اگر یہ کوئی ’’سازش‘‘ ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ’’سازشی‘‘ کون ہیں۔
آپ کو حیرت ہو گی یہ جان کر کہ آج سے چند سال پہلے ایک ریسرچ میری نظروں سے گزری جس کا موضوع یہ تھا کہ عہد حاضر میں قوموں کے عروج و زوال کی وجوہات، اسباب اور ضروریات کیا ہیں۔ کالم تو اس تحقیق کی سمری کی سمری کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا، صرف ایک معمولی سی جھلک آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔
قوموں کے عروج کیلئے نو (9) باتوں پر فوکس کرنا لازمی ترین قرار دیا گیا تھا جن میں سرفہرست تھی ’’پابندی اوقات‘‘۔ میرے لئے یہ کسی شاک (SHOCK) سے کم نہ تھا۔ باقی 8نکات کو چھوڑیں صرف ’’پابندی اوقات‘‘ پر ہی غور کر لیں تو ہوش ٹھکانے آ جائیں جس کی اس معاشرہ میں رتی برابر اہمیت نہیں جو ’’اسلامی‘‘ ہے اور اسلام کی جوہری عبادات میں ’’نماز‘‘ کی کلیدی حیثیت ہے جو ’’پابندی اوقات‘‘ کو ہماری جسمانی، روحانی، ذہنی، نفسیاتی، معاشرتی ذات کا حصہ بناتی ہے اس سے آگے مجھے کچھ نہیں کہنا۔
مختصر یہ کہ ڈراموں سے کسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع ہی احمقانہ ہے۔ میں ذاتی طور پر ترکوں کا مداح اور ان کی تاریخ کا متجسس طالب علم ہوں۔ اپنے بچوں سے بھی کہا کہ ’’ارطغرل‘‘ اور ’’عثمان غازی‘‘ وغیرہ صرف اس لئے دیکھا کرو تاکہ تمہیں ان کے رہن سہن، آپس کے رشتوں، رسوم و رواج، کھانے پینے پکانے، خواتین کے کردار کا اندازہ ہو سکے کہ ایک طرف وہ مردوں کے شانہ بشانہ شمشیر زنی کرتی تھیں تو دوسری طرف قالینوں کی بنائی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اپنے قبائل کی معیشت میں بھی فیصلہ کن کنٹری بیوشن کرتی تھیں تو اگر کوئی اس طرح یہ ڈرامے دیکھے تو یہ انٹرٹینمنٹ +ایجوکیشن کا بہت عمدہ امتزاج ہو گا کیونکہ بہت سی باتیں کتابوں میں نہیں ملتیں مثلاً ’’اوطاق‘‘ کا کلچر، کھانے کا انداز اور مینرازم ، ان کے محاورے، ہتھیاروں ، قالین ، کھانے بنانے کے طریقے، ان کی زندگیوں میں مویشیوں کی اہمیت و کردار، ملبوسات و دیگر ترجیحات وغیرہ۔
کامیاب معاشرہ کی تخلیق در اصل ایک خاص قسم کے ماحول کی تخلیق کا نام ہے۔ انسانی معاشرہ در اصل اپنے ماحول کی اولاد ہوتا ہے۔ یہ ماحول ہی ہے جو کسی معاشرہ کو بتدریج ’’پر و خیر‘‘ یا ’’پروشر‘‘ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کچھ معاشروں میں نیکی ممکن نہیں رہتی، ہوتو اس کے پیچھے بھی بدی کار فرما ہوتی ہے جبکہ کچھ معاشروں میں ’’بدی‘‘ تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے مثلاً معمولی سی مثال، کسی بھی ترقی یافتہ مہذب معاشرہ میں ٹریفک رولز کی خلاف ورزی یا ’’بد قطاری‘‘ کر کے تو دیکھو جبکہ فری سٹائل معاشروں میں ’’بد قطاری‘‘ کو ’’بد کرداری‘‘ سمجھنے کا تصور ہی موجود نہیں ہوتا۔