معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
جنہیں نیچر سے دلچسپی ہے …(1)
گزشتہ ماہ ”سبزہ، درخت اور جنگل‘‘ کے عنوان سے چار اقساط پر مشتمل کالموں کا ایک سلسلہ تحریر کیا۔ اس پر کراچی سے ایک قاری کاظمی صاحب نے ملک میں پرندوں کے ناپید ہونے کے نتیجے میں کوئل جیسی خوبصورت آواز سے محروم ہو جانے کا ذکر کیا اور اس موضوع پر قلم اٹھانے کی فرمائش کی۔ اسی تبصرے کے جواب میں اس عاجز کے مستقل قاری سید رضی احمد نے کئی ایسی جگہوں کی نشاندہی کی جہاں پرندوں کی چہچہاہٹ اب بھی سنائی دیتی ہے اور ایسے علاقوں کا بتایا جہاں آہستہ آہستہ گم ہوتی ہوئی یہ آوازیں ابھی کسی حد تک کانوں میں اپنا رس گھول رہی ہیں۔ دونوں قاری اپنی اپنی حد تک درست کہہ رہے ہیں۔ جن جگہوں پر کبھی کاظمی صاحب کو پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں اور اب وہاں ٹریفک کے شور کے علاوہ اور کچھ نہیں تو پاکستان میں ایسی جگہیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ جن چند پوش علاقوں میںانگریزوں کے زمانے کے لگائے ہوئے درخت ابھی موجود ہیں‘ وہاں کے بارے میں رضی احمد کی نشاندہی بھی درست ہے مگر کیا یہ بات درست نہیں کہ کوئل کی آواز جو کبھی ہر جگہ نہ سہی‘ جگہ جگہ سنائی دیتی تھی اب کسی کسی جگہ سنائی دے جائے تو غنیمت لگتی ہے؟حلال جانوروں اور پرندوں کی تو بھلی پوچھیں۔ اس سلسلے میں جملے کی کاٹ کو اس کی معراج پر پہنچانے والے شگفتہ نثر کے بے تاج بادشاہ مشتاق احمد یوسفی فرماتے ہیں کہ ”ہم نے عالم اسلام میں کسی حلال جانور کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ مرشدی مشتاق احمد یوسفی کا یہ قول جتنی صحت کے ساتھ پاکستان میں پورا ہوتے دیکھا ہے اس جملے کی سچائی پر یقین پختہ تر ہو گیا ہے۔ تلیر‘ تیتر‘ مرغابی‘ مگھ‘ بھٹ تیتر‘ چکور‘ مرغ زریں‘ فاختہ اور ہریل وغیرہ کتنے ہی پرندے تھے جو درختوں کی کٹائی‘ شہروں کے پھیلاؤ اور بندوق ماروں کی زد میں آ کر نیم ناپید تو ضرور ہو چکے ہیں۔ لے دے کر شہروں میں صرف ایک جنگلی کبوتر کسی حد تک بچا ہوا ہے اور اس میں اس کی ”بزرگی‘‘ کے بارے میں پھیلی ہوئی کہانیوں کا بڑا کردار ہے اور دوسرا اس کے بارے میں یہ شہرت کہ اس کا گوشت بہت گرم ہے‘ اس کے بچاؤ کا ذریعہ بن گیا؛ تاہم بعض لوگ اسے بھی نہیں چھوڑتے اور اگر کوئی منع کرے تو اس کیلئے یہ بہانہ کافی ہے کہ اس کا گوشت لقوے کے علاج کیلئے تیربہدف ہے‘ اس لیے اس کا شکار کر رہے ہیں۔ کبھی وقت تھا کہ صبح شام ہر درخت سے میدانی طوطے کی ٹیں ٹیں سنائی دیتی تھی‘ اب کہیں سنائی دے تو حیران کن خوشی ہوتی ہے۔ یار لوگوں نے پکڑ پکڑ کر اتنا ایکسپورٹ کیا کہ اب یہاں دکھائی دینا مشکل ہو گیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ سرخ کندھوں والا اور گانی والا (گردن پر سرخ رنگ کا کالر نما دائرہ) طوطا پچاس سے ساٹھ ہزار روپے کا جوڑا ملتا ہے۔
میرا بچپن چوک شہیداں (ملتان) سے ملحقہ محلے میں گزرا ہے۔ ساتھ والا دوسرا محلہ ”باغ بیگی‘‘ کہلاتا تھا۔ کبھی یہاں پر وہ شہرہ آفاق باغ تھا جو انگریزوں نے میرے پیارے شہر دار شاہ محمود قریشی کے جد امجد شیخ مخدوم شاہ محمود کو سرکار کی وفاداری کے طفیل عطا کیا تھا۔ میرے بچپن میں اس باغ کا تو خیر سے نام و نشان تک مٹ چکا تھا؛ تاہم وہاں پر تب نواب صادق حسین قریشی‘ جو سابق گورنر و وزیراعلیٰ پنجاب رہے ہیں‘ کی متروکہ رہائش گاہ ”وائٹ ہاؤس‘‘ زندگی کے آخری ایام پورے کر رہی تھی۔ نواب صادق قریشی کے والد نواب عاشق حسین قریشی کے والد کا نام بھی خان بہادر شیخ ریاض حسین تھا اور ان کے والد شیخ پیر محمد ہمارے والے مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑ دادا مخدوم شاہ محمود کے سگے بھائی تھے۔ انگریزوں نے پیر محمد کی اولاد کو نواب کا اور شاہ محمود کی اولاد کو مخدوم کا لقب عطا کیا۔
میرے محلے میں تب ایک طرف کھیت تھے‘ رہٹ تھا اور کھوپے آنکھوں پر باندھے بیل گول چکر میں گھومتا تھا اور کنویں سے پانی نکال کر کھیت سیراب کرتا تھا۔ ان کھیتوں کے ساتھ ایک کونے پر پرانی دوچار قبریں تھیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ شہیدوں کی قبریں ہیں۔ یہ جگہ ”شہیداں‘‘ کہلاتی تھی۔ یہاں گوندی‘ بیری اور جال کے درخت اور پیلو کی جھاڑیاں تھیں۔ جن پر درجنوں قسم کے پرندے چہچہاتے تھے۔ کوئل‘ کال کلیچی‘ لالی‘ نیل کنٹھ‘ بلبل‘ تلیر اور ہد ہد وغیرہ۔ محلے کے دوسری طرف ایک وسیع و عریض باغ تھا۔ یہ حاجی بٹے کا باغ تھا۔ اس کے بیٹے عبدالکریم اور اللہ دتہ سارا دن پرندوں کو پھل کھانے سے روکنے کی غرض سے ہاہاکار مچائے رکھتے اور گوپھن سے مٹی کی گول گول بنائی گئی گولیاں ان پر برساتے رہتے۔ اتنے طوطے ہوتے تھے کہ گنتی ممکن نہیں تھی۔ کوئلیں‘ ہد ہد‘ تلیر اور شارکیں۔ رنگ برنگی چڑیاں‘ پھولوں کے زردانے چنتے ہوئے ہیمنگ برڈ۔ جگہ جگہ لٹکتے ہوئے شہد کے چھتے۔ درختوں سے لٹکے ہوئے قدرت کا شاہکار بئے کے گھونسلے۔ اس باغ میں کیا نہیں تھا؟ ایک جادو نگری تھی جہاں ہر شے سانس لیتی تھی۔
میں اب بھی اپنے پرانے محلے میں تائی جی سے ملنے جاتا رہتا ہوں؛ تاہم ایک عرصہ تک باغ والی طرف جانے کا اتفاق نہ ہوا۔ عشروں بعد باغ والی گلی سے ہو کر باغ والی جگہ پر پہنچا تو ایک جھٹکا سا لگا۔ پورے قطعہ اراضی پر ایک درخت نہ تھا اور سبزے کا ایک انچ نہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے پختہ مکانوں کا ایک جنگل تھا جس نے باغ کی جگہ لے لی تھی۔ باغ ختم ہوا‘ درخت کٹ گئے اور پرندے اللہ جانے کہاں ہجرت کر گئے۔ یادوں کا ایک باب بند ہوا اور ملال کا ایک ایسا دفتر کھلا جو شاید کبھی بند نہیں ہوگا۔
پچیس تیس برس پرانی بات ہے‘ میں ابا جی مرحوم کے کزن جو پنجاب سیکرٹریٹ لاہور میں ایڈیشنل سیکرٹری ہوم تھے‘ کے پاس اپنا اسلحہ لائسنس آل پاکستان کروانے آیا تو سیکرٹریٹ کے قدیمی درختوں پر ہر قسم کے پرندوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ ہریل‘ ہد ہد‘ نیل کنٹھ‘ طوطے‘ شارکیں اور لالیاں۔ پرندے اتنے بے تحاشا کہ درختوں کے نیچے کھڑا ہونا مشکل تھا اور ہر جگہ اوپر سے پرندے بیٹیں کر رہے تھے۔ اب سوچتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے لاہور کے ناصر باغ میں دھینس (Hornbill) دیکھا تھا۔ دہری چونچ والا یہ پرندہ مجھے پھرکبھی آزاد فضا میں دکھائی نہیں دیا۔ لارنس گارڈن (باغِ جناح) میں ایسے ایسے درخت تھے جو پاکستان بھر میں صرف اسی باغ میں تھے اور یہی حال پرندوں کا تھا۔ ایسے ایسے پرندے کہ بمشکل ہی کہیں اور دکھائی دیں۔ لمبی دموں والے فیزنٹ اور کلغیوں والے طوطے۔ رنگ برنگی چڑیوں کی اتنی اقسام کہ یا تو اس باغ میں دکھائی دیں یا پھر چڑیا گھر میں دیکھنے کو ملیں۔
جی ٹی روڈ پر راولپنڈی سے لاہور آتے ہوئے تراکی کی پہاڑیوں میں سڑک پر پھرتے ہوئے بھورے تیتر۔ ملتان سے میانوالی جاتے ہوئے علی الصباح ایم ایم روڈ پر سڑک کے درمیان سینہ پھلا کر ”سبحان تیری قدرت‘‘ کا راگ الاپتے ہوئے سیاہ تیتر۔ لیہ اور جوبارہ کے اردگرد کسی زمانے میں بے شمار تلور ملتے تھے۔ اب صرف بلوچستان اور ہندوستان کے بارڈر سے متصل بہاولپور‘ بہاولنگر‘ رحیم یار خان اور سندھ کے صحرائی علاقے میں تلور باقی ہیں اور یہ بھی اس قتل عام کیلئے محفوظ کیے جاتے ہیں جو خلیجی ریاستوں سے آنے والے شہزادوں کیلئے مخصوص ہے۔ چولستان میں کبھی کبھار ”بکھڑ‘‘ یعنی Great Indian bustard دکھائی دیتا تھا‘ اب عشروں سے کسی کو دکھائی نہیں دیا۔ کونجیں‘ بگلے‘ سارس‘ سرخاب‘ نیل سر‘ سپون بل‘ لم ڈھینگ‘ ہنس‘ پن ٹیل‘ گڈوال‘ کُوٹ اور مرغابیاں حتیٰ کہ ککوئے اور چہے۔ سب کے سب یا تو ختم ہو گئے ہیں اور ہجرت کر کے آنے سے باز آ گئے ہیں یا پھر چند محفوظ جھیلوں پر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ حلال پرندوں کا ذکر ہی کیا؟ حرام پرندے بھی ماحول کے خاتمے‘ شوقیہ مارنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے طفیل نئے نئے رہائشی منصوبوں کے سبب باغات اور درختوں کے خاتمے کے باعث غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ (جاری)