جنہیں نیچر سے دلچسپی ہے … (3)

ہم تقریباً اجتماعی طور پر شجر دشمن قوم ہیں۔ اگرخوش قسمتی سے نئے خرید کردہ پلاٹ میں کوئی درخت مفت میں مل جائے تو پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اس درخت کو کٹوا دیتے ہیں۔ گھر کا نقشہ بنواتے وقت کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ کوئی ایسا طریقہ نکالا جائے کہ یہ درخت بچ جائے۔ اگر بفرضِ محال یہ درخت کسی طرح کٹنے سے بچ جائے تو گھر بننے کے بعد اس میں آنے والا ہر دوسرا مہمان آپ کو مشورہ دے گا کہ آپ یہ درخت کٹوا کیوں نہیں دیتے؟ وجہ پوچھیں تو کوئی کہے گا دھوپ اچھی طرح آئے گی۔ بندہ پوچھے کہ میاں! اس ملک میں دھوپ نہیں چھاؤں درکار ہے۔ دھوپ تو بہت ہے‘ سایہ نہیں ہے۔ کوئی کہے گا کہ پتے بہت گرتے ہیں۔ کوئی عقلمند بتائے گا کہ پرندے بہت تنگ کریں گے۔ زمین کو صرف پیمائش کے پیمانے پر ناپنے والا کوئی ذہین پراپرٹی ڈیلر کہے گا کہ صحن کھلا ہو جائے گا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی ہوگا جو آپ کو گھر کے صحن میں لگے درخت کے بارے میں کٹوانے کا مشورہ نہیں دے گا۔
میرے گھر کے صحن میں گلاب کی بیل ہے۔ میری مرحومہ اہلیہ نے اپنے ہاتھ سے لگائی تھی اب پورچ کی دیوار کے ساتھ چھت تک چلی گئی ہے۔ صبح اور شام کو اس گھنی بیل میں چھپی ہوئی چڑیاں جب چہچہاتی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تعداد بھلا درجنوں سے کم کیا ہو گی؟ میں کبھی کبھار ان چڑیوں کی چہچہاہٹ ریکارڈ کرتا ہوں اور بچوں کے ساتھ بنائے گئے واٹس ایپ گروپ پر اَپ لوڈ کر دیتا ہوں۔ خاص طور پر شام کو اس بیل پر ایسا ہنگامہ مچا ہوتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے کہ یہ چڑیاں دن میں کیوں دکھائی نہیں پڑتیں۔ ان میں کوئی غیر معمولی یا بدیسی چڑیا نہیں ہوتی۔ وہی عام گھروں کے صحن میں دانہ دنکا چگنے والی معمولی چڑیاں۔ کبھی بارش برسنے والی ہوتی تو فضا میں اڑتے ہوئے ابابیل اس کا اعلان کرتے۔ کبھی حاجی بٹے کے باغ میں پانی لگتا تو بھولی بھٹکی ٹٹیری رات گئے شور مچاتی۔ شام ڈھلے آسمان پر چمگادڑیں اڑتی دکھائی دیتیں۔ ایک عرصہ ہو گیا نہ کوئی چمگادڑ دکھائی دی اور نہ ابابیل ہی نظر آیا۔ اللہ جانے یہ بے ضرر پرندے کہاں چلے گئے اور ان کے ساتھ کیا گزری۔
پاکستان میں پرندوں کی کم از کم بھی سو کے لگ بھگ اقسام ہوں گی مگر شرمندگی کا مقام ہے کہ ان پر تحقیقی حوالے سے اگر سب سے معتبر کام کسی نے کیا ہے تو وہ کوئی پاکستانی نہیں بلکہ گورا تھا۔ خانیوال میں رہائش پذیر ڈاکٹر تھامس جیمز رابرٹس (T.J.Roberts) نے اس سلسلے میں تین انتہائی شاندار جامع کتابیں تحریر کرکے ہماری حیاتِ جنگلی کو کم از کم کاغذوں کی حد تک محفوظ کر دیا۔ ٹی جے رابرٹس کا والد سرولیم رابرٹس 1906ء میں ہندوستان آیا اور انڈین ایگری کلچر سروس میں تھا۔ تھامس جے رابرٹس بائیس سال کی عمر میں 1946ء میں برصغیر میں آیا اوراس نے 1966ء میں اپنے باپ کی قائم کردہ رابرٹس کاٹن ایسوسی ایٹس جوائن کر لی۔ بعد ازاں وہ اس کمپنی کا منیجنگ ڈائریکٹر بن گیا۔ حیاتِ جنگلی سے دلچسپی کے باعث اس نے دو جلدوں پر مشتمل ”پاکستان کے پرندے‘‘ (Birds of Pakistan)‘ ایک کتاب ”پاکستان کی تتلیاں‘‘ اور اسی طرح ایک کتاب ”پاکستان کے ممالیہ‘‘ (Mammals of Pakistan) کے بارے میں لکھی جو آج بھی اس خطے کے پرندوں‘ ممالیہ اور تتلیوں پر سب سے معتبر کتابیں ہیں۔ تحقیق تو سمجھیں ہمارے ملک سے رخصت ہو چکی ہے‘ بلکہہمارے ملک سے کیا‘ سارے عالم اسلام نے اس کام سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ یہ کام ہم نے کافروں کے حوالے کر رکھا ہے اور ہم خود صرف اسی بات سے اپنا دل بہلانے میں لگے ہوئے ہیں کہ سائنس‘ طب‘ فلکیات اور ریاضی کے علوم کافروں نے ہم ہی سے حاصل کیے ہیں۔
سرولیم رابرٹس سے یاد آیا کہ اس نے خانیوال میں ایک نہایت ہی شاندار اور بین الاقوامی معیار کا ان ڈور بیڈ منٹن کورٹ اور ہال بنوایا۔ اس ہال کے طفیل ایک عرصہ تک خانیوال کے بیڈ منٹن کے کھلاڑی پاکستان لیول پر خود کو منواتے رہے۔ ٹی جے رابرٹس کو اس کے تحقیقی کام کے سلسلے میں ستارۂ امتیاز کے علاوہ عالمی سطح پر سٹمفورڈ ریفل ایوارڈ اور تین بار ڈبلیو ڈبلیو ایف کا ایوارڈ برائے کنزرویشن میرٹ ملا۔ ڈاکٹر رابرٹس کی لکھی ہوئی یہ تین کتابیں آج بھی اس موضوع پر سب سے مستند اور مکمل سمجھی جاتی ہیں۔ اسی کالم کی گزشتہ قسط پڑھ کر امریکی ریاست ٹینیسی میں رہائش پذیر ڈاکٹر شہرام ملک نے مجھے لگ بھگ پچاس پاکستانی پرندوں کی وہ تصویریں بھیجی ہیں جو اس نے پاکستان میں خودکھینچی ہیں۔ ان میں بیشتر پرندے میں نے اپنے بچپن میں باغوں‘ درختوں اور جنگلوں میں خود دیکھے ہیں مگر اب ان میں سے اکثر پرندے ڈھونڈنے سے بھی مل جائیں تو غنیمت ہے۔
میں نے ریسٹورنٹ کی پارکنگ کے ساتھ والے لان میں کھڑے ان پندرہ بیس مگھوں کی تصویر اتار کر پاکستان میں اپنے پرانے شکاری دوستوں کو بھیجی اور ساتھ لکھا کہ ”آپ کے منہ میں پانی اور ہاتھوں میں کھجلی تو ہو رہی ہوگی؟‘‘۔ جواباً مختلف دلچسپ جواب آئے۔ ایک دن صبح گھر کے پچھلے صحن میں گیا تو وہاں دو عدد موٹے تازے جنگلی خرگوش کھیل گود میں مصروف تھے۔ مجھے دیکھ کر تھوڑا ٹھٹھکے اور میری طرف سے اپنے بارے میں لاتعلقی دیکھ کر دوبارہ کھیل کود میں مصروف ہو گئے۔ بیس پچیس روز پہلے ضوریز بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا: بڑے بابا! ہنری کے گھرمیں درخت پر چڑیا کے بچے ہیں۔ وہاں ان کا گھونسلا ہے۔ چار بچے ہیں۔ خوشی اور حیرانی سے اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر وہ ہنری کے گھر کے باہر چھوٹے سے جھاڑی نما پودے کے پاس لے گیا۔ پھر دور سے اشارہ کر کے بتانے لگا کہ وہاں گھونسلے میں چڑیا کے بچے ہیں۔ پھر مجھ سے کہنے لگا کہ آپ انہیں دور سے دیکھیں ورنہ چڑیا اڑ جائے گی اور بچے بھوکے مر جائیں گے۔ اگلے ہی روز وہ دوبارہ بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا: ہمارے درخت پر بھی چڑیا کے گھونسلے ہیں چار بچے ہیں۔ میں نے قریب جانے کے بجائے اوپر والی کھڑکی سے جھانکا‘ ایک بڑے سائز کی چڑیا جس کے گلے پر اورنج رنگ کا دائرہ سا تھا اپنے بچوں کو چوگا کھلا رہی تھی۔ سات آٹھ دن بعد دیکھا تو گھونسلا خالی تھا۔ بچے کہیں اڑ گئے تھے اور چڑیوں کا جوڑا اب گھونسلے میں زیادہ وقت گزارنے کے بجائے صحن میں پھدک رہا تھا۔ کچھ روز پہلے گھر کے خارجی دروازے کے باہر لگے ہوئے پودوں کو پائپ سے پانی لگا رہا تھا کہ دروازے سے صرف آٹھ دس فٹ کے فاصلے پر ایک جھاڑی سے اچانک ایک مرغابی نکل کر اُڑی اور سامنے سڑک پر بیٹھ گئی۔ میں نے جھاڑی ہٹا کر اندر جھانکا تو زمین پر تنکوں کا گھونسلا تھا جس میں نو انڈے پڑے تھے۔ اگلے روز کیاریوں میں پتھر ڈالنے والے آئے تو میں نے انہیں منع کر دیا کہ ابھی اس کیاری کو بالکل بھی نہ چھیڑا جائے کہیں مرغابی انڈے چھوڑ کر ہی نہ چلی جائے۔ چند دن بعد ان انڈوں سے بچے نکل آئے۔ مرغابی ان کو ہنکاتی ہوئی تھوڑی دور واقع ایک چھوٹے سے تالاب کی جانب لے گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔ کیا پاکستان میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک آباد گھر جس میں بھاگنے دوڑنے والے دو بچے بھی ہوں‘ کے مرکزی دروازے سے آٹھ دس فٹ پر کوئی جنگلی مرغابی گھونسلا بنا کر انڈے دے؟
میں نے یہ تینوں قصے کومل کو سنائے تو وہ میری بات سن کر ہنسی اور کہنے لگی: یہ تو کچھ بھی نہیں۔ سیفان کے دوست کریم کے گھر کے داخلی دروازے پر لٹکے ہوئے تنکوں اور شاخوں سے بنے ہوئے ”ویل کم‘‘ پر چڑیا نے انڈے دیے ہیں۔ انہوں نے اپنے ڈرائیووے پر بورڈ لگا دیا ہے کہ براہ کرم گھر میں آنے کیلئے سائیڈ والا دروازہ استعمال کریں۔ (ختم)