معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سبق لینے کا وقت
جو کچھ ہورہا ہے وہ مکافاتِ عمل کے سوا کچھ نہیں۔2010 سے میں اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کو سمجھاتا رہا کہ وہ عمران خان کو مصنوعی طور پر لیڈر نہ بنائیں یا پھر نون لیگ ، پیپلز پارٹی اور دیگر کو ٹھکانے لگانے سے باز رہیں۔ اس موضوع پر درجنوں جرنیلوں سے بات ہوئی لیکن افسوس کہ ان کے پاس اپنی چارج شیٹ ہوا کرتی تھی اور وہ ایسا تاثر دیتے تھے کہ جیسے عمران خان کولیڈر بنا کر وہ پاکستان کی بڑی خدمت کررہے ہیں۔سیاستدانوں کو الگ سے سمجھاتے رہے کہ وہ پنگے نہ لیں لیکن ان پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ ارشاد بھٹی اور حامد میر صاحب گواہ ہیں کہ 2018کے الیکشن سے چند روز قبل ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان کی منتیں کیں کہ ان کا ادارہ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے سے باز رہے ۔ظاہر ہے کہ ہم جیسے غریبوں کی بات کون سنتا ہے لیکن یہ دونوں گواہ ہیں کہ رُخصت کے وقت میں نے ان سے عرض کیا کہ سر! جب فیصلہ ہوچکا ہے تو صرف سلیم صافی کیا اگر پورا میڈیا بھی مزاحم ہو تو عمران خان کو وزیراعظم بننے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ آپ لوگ اس بندے کے بارے میں حد سے زیادہ حسنِ ظن کا شکار ہیں یا پھر نواز شریف کی نفرت غالب آگئی ہے لیکن ریکارڈ کے لیے میری یہ بات لکھ کر رکھ لیجئے کہ یہ شخص (عمران خان) آپ سے نواز شریف اور زرداری کو بخشوا دے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری تو کیا منظور پشتین وغیرہ نے بھی کبھی فوج کے بارے میں وہ لہجہ استعمال نہیں کیا، جو یہ شخص استعمال کررہا ہے۔ معیشت، سفارت اور معاشرت تباہ کرنے کے بعد اب یہ فوج کے ادارے کے پیچھے پڑ گیا ہے اور اسے اس لئے تنقید کا نشانہ نہیں بنارہا کہ وہ نیوٹرل بن کر اپنے آئینی کردار تک محدود ہوجائے بلکہ بلیک میلنگ کے ذریعے انہیں دوبارہ سیاسی کردار ادا کرنے اور اپنی سرپرستی کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
کاش اس وقت اسٹیبلشمنٹ نواز شریف اور بھٹو کی مثالوں سے سبق لیتی اور لیڈر یا وزیراعظم بنوانے کا کام نہ کرتی لیکن افسوس کہ ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے عمران خان کی صورت میں اس نے نیا تجربہ کرنا ضروری سمجھا،جس کا خمیازہ آج ملک کے ساتھ ساتھ وہ بھی بھگت رہی ہے۔ اللہ کرے اب اسٹیبلشمنٹ اس تجربے سے سبق سیکھے اور سیاست سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ کو خالص آئینی اور دفاعی کردار تک محدود کرلے۔
دوسری طرف عمران خان کے سامنے میاں نواز شریف کی تازہ ترین مثال موجود تھی ۔ انہیں ان کے انجام سے سبق لے کر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ نہیں بننا چاہئے تھا لیکن اقتدارتک رسائی کا جنون ان کے سر پر اس قدر سوار تھا کہ انہوں نے ایجنسیوں کے ہر حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کیا اور ان کے حکم پر ہر جائز اور ناجائز کام کرتے رہے ۔ ایجنسیوں نے انہیں کہا کہ شاہ محمود، اسد عمر اور فلاں فلاں کو فلاں فلاں عہدے دو تو انہوں نے دیے ۔ ایجنسیوں نے انہیں دھرنے کا کہا تو وہ اس کے لیے تیار ہوئے۔ پھر ایجنسیوں نے انہیں خاتمے کا حکم دیا تو وہ اس کے لیے تیار ہوئے ۔ ایجنسیوں نے ان کے لیے آرٹی ایس فیل کرایا۔ پھر ان کے لیے پولنگ ایجنٹس نکال کر ٹھپے لگوائے گئے اور وہ خوشیاں مناتے رہے۔ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد بھی انہوں نے اپنی حکومت آئوٹ سورس کردی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پی ٹی ایم کی تحریک زوروں پر تھی تو ایک کرنل صاحب چار پختون وفاقی وزرا (جو ان دنوں بڑے تیس مار خان بنے بیٹھےہیں) کو ہر صبح ہدایات دیتے کہ فلاں نے فلاں کام کرنا اور فلاں فلاں کے خلاف یہ یہ کچھ بولنا ہے اور عمران خان یہ تماشہ دیکھ کر وزارت عظمیٰ انجوائے کرتے رہے ۔ جب یوسف رضا گیلانی سینیٹر بنے اور عملاً عمران خان پر عدم اعتماد ہوگیا تو انہوں نے نیوٹرلز کی منتیں شروع کر دیں اورنتیجتاً ان کے لیے رات کو ان کی پارٹی کے ناراض ایم این ایز کنٹینروں اور کمروں میں بند کردیے گئے اور صبح ان کے حق میں ان سے جبرا ًووٹ ڈلوائے گئے۔ لیکن آج عمران خان فریادیں کررہے ہیں ۔ یہ سبق ہے ان کے لیے اور دوسرے سیاستدانوں کے لیے کہ وہ اقتدار تک رسائی کے لیے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے نہ بنیں ۔
یہی معاملہ میڈیا کا رہا ۔ اسٹیبلشمنٹ سے ربط ضبط رکھنے اور ریاست کے مفاد میں تعاون کرنے میں کوئی برائی نہیں لیکن افسوس کہ ہمارے میڈیا کے بعض اداروں اور بعض اینکرز اور یوٹیوبرز نے مہرہ بننے کو ترجیح دی اور تاثر یہ دیتے رہے کہ وہ مخالف سیاستدانوں اور میڈیا کو لتاڑ کر بڑی بہادری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کچھ چینلز نے اربوں کمانے کے لیے اور کچھ میڈیا پرسنز نے راتوں رات نمبرون بننے کے لیے اس کے ہر حکم کو بلا سوچے سمجھے ماننے کو ترجیح دی۔ اس کے کہنے پر عمران خان کو ہیرو اور فرشتہ بنایا۔ دوسرے سیاستدانوں کی کردار کشی کی۔ جینوئن میڈیا پرسنز اور آرگنائزیشنز کو غداری کے فتووں سے نوازا۔ حامد میر اور ابصار عالم کو گولیاں لگیں تو انہوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ میری، عاصمہ شیرازی، طلعت حسین، نصرت جاوید اور متعدد دیگر صحافیوں کی کردار کشی ہوتی رہی لیکن مذمت کی بجائے وہ ہمنوا بنے رہے۔ آج جب عمران خان نے اپنے کرتوتوں سے اسٹیبلشمنٹ کو پالیسی بدلنے پر مجبور کیا تو یہ لوگ کہیں کے نہیں رہے ۔ اب جب وہ عمران خان کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھاتے ہیں تو اسے بجا طور پر غصہ آتا ہے کہ ’’ہماری بلی اور ہمیں کو میائوں ‘‘۔ حالانکہ اس وقت اگر وہ ضمیر کے مطابق اپنی صحافت کرتے اور اسٹیبلشمنٹ کو سمجھاتے تو نہ ان کا یہ حال ہوتا،نہ ملک کا اور نہ ہی صحافت کا۔ ارشاد بھٹی اور میرے اداروں کی مینجمنٹ گواہ ہے کہ جب مجھے عمران خان کی حمایت پر مجبور کرنے کی کوششیں ہوئیں اور گھر پر حملے تک کرائے گئے تو میں نے اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ حکام سے کہا کہ میں مرنے کو ترجیح دوں گا لیکن اپنے ضمیر کے خلاف کسی سیاستدان کی حمایت یا مخالفت نہیں کروں گا۔ بہرحال یہ مناسب وقت ہے کہ ہمارے صحافی عبرت پکڑیں۔ ربط ضبط برقرار رکھیں لیکن کبھی آئین، اصول اور صحافتی اقدار کے خلاف کسی فرد یا ادارے کے ہاتھوں میں کھیلنے سے توبہ کرلیں ۔ اگر ایسا ہوا تو صحافت کی عزت بھی بحال ہوجائے گی اور ملک کی بہتری بھی ہوگی ۔
عدلیہ کا کام مذکورہ سب اداروں کو ان کے آئینی حقوق دلوانا اور سب کو آئینی حدود کے اندر رکھنا تھا لیکن افسوس کہ یہاں بھی بعض ایسے کردار پیدا ہوئے جنہوں نے کسی کے کہنے پر عمران خان کے لیے وہ کچھ کیا جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ دوسروں کے اشاروں پر جسٹس صدیقی کو انصاف نہ دلاسکے اور جسٹس فائز عیسیٰ سے بے انصافی کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اس کے کردار کے حوالے سے سوال اٹھ رہے ہیں اور عمران خان ان کے ججز کو دھمکا رہا ہے۔ کاش اس صورتِ حال سے تمام ادارے سبق لیں اور آئندہ کے لیے اپنے آپ کو صرف آئین اور قانون کا تابع بنالیں۔ سبق لیا تو سب کا وقار بھی بحال ہوجائے گا اور یہ ملک بھی جنت بن جائے گا نہیں تو اس ملک کو تباہی سے صرف اللہ ہی بچا سکے گا ۔