تمباکو مصنوعات ماحول پر خطرناک اثرات مرتب کر رہی ہیں، رپورٹ

جنیوا: تمباکو نوشی کے سبب ہر سال 80 لاکھ افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن یہ صنعت صرف لوگوں کی اموات کا ہی سبب نہیں بن رہی بلکہ یہ ہمارے سیارے پر ہماری سوچ سے زیادہ خطرناک اثرات مرتب کر رہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں اس مہلک صنعت کے ماحولیات اور عام لوگوں کی صحت پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کے متعلق تفصیلات بتائی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق ہر سال تمباکو سے 60 کروڑ درختوں، 49 لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے کی زمین اور 22 ارب ٹن پانی متاثر ہوتا ہے جبکہ ماحولیات میں اس کے سبب 8 کروڑ 40 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی یہ مقدار ایئرلائن انڈسٹری کے سبب خارج ہونے والی اس خطرناک گیس کی مقدار کا 20 فی صد ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ زیادہ تر تمباکو کم یا متوسط آمدنی والے ممالک میں اگایا جاتا ہے جہاں غذائی اجناس اگانے کے لیے کھیت اور پانی کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے بجائے وہ یہ مہلک تمباکو کے پودے اگاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جنگلات کو کاٹتے جارہے ہیں۔

عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ صرف ان فصلوں کا اگایا جانا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ان سے بڑی مقدار میں پیدا ہونے والا فضلا بھی ایک مسئلہ ہے جو باقی رہتا ہے اور ہمارے ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے۔

ادارے میں تعینات ایک ڈائریکٹر ڈاکٹر روڈِگر کریچ کا کہنا تھا کہ تمباکو کی اشیاء دنیا میں سب سے زیادہ خراب اشیاء ہوتی ہیں جن میں 7000 ہزار زہریلے کمیکلز موجود ہوتے ہیں جو فضلا بننے کے بعد ماحول میں رس جاتے ہیں۔

سگریٹ کے باقی ماندہ ٹکڑے دنیا میں پلاسٹک کی آلودگی پھیلانے کا دوسرا بڑا سبب ہیں۔ ان میں مائیکرو پلاسٹک ہوتے ہیں جو ماحول میں باقی رہتے ہیں۔ دیگر اشیاء یعنی تمباکو کی وہ اشیاء جن کے استعمال سے دھواں نہیں پھیلتا اور ای-سیگریٹ بھی ماحول میں پلاسٹک کی آلودگی پھیلانے کا مسئلہ رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر کریچ کا کہنا تھا کہ ہر سال تقریباً 4500 ارب سگریٹ کے فلٹرز ہمارے سمندروں، دریاؤں، شہروں کے فٹ پاتھ، پارکوں، زمین کی مٹی اور ساحلوں کو آلودہ کر رہے ہیں۔پانی میں پھینکا گیا ہر فلٹر 100 لیٹر سے زیادہ مقدار میں پانی کو آلودہ کرتا ہے۔

دوسری جانب تمباکو کی مصنوعات سے پھیلائی گئی آلودگی کو صاف کرنے کا بوجھ ٹیکس دہندگان پر پڑتا ہے نہ کہ ان پر جو اس مسئلے کا سبب ہیں۔ چین ہر سال ڈھائی ارب ڈالرز سے زیادہ کی رقم جبکہ بھارت تقریباً 76 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی رقم اس مقصد میں خرچ کرتا ہے۔