معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
حربی خالق اور سیاسی تخلیق کی جنگ
میں بنیادی طور پر خارجہ تعلقات اور بالخصوص پاک افغان معاملات یا پھر عسکریت پسندی کے موضوعات کا طالب علم ہوں، اس لئے اس کے تناظر میں پاکستان کے موجودہ حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کروں گا۔افغانستان سے آغاز کرتے ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں احمد شاہ مسعود،گلبدین حکمتیار ، برہان الدین ربانی، استاد سیاف ، صبغت اللہ مجددی اور اس طرح کے مجاہدین بنیادی طور پر پاکستان نے تخلیق کئے۔ یہ لوگ اپنی ریاست سے ازخود داخلی حالات کی وجہ سے باغی ہوگئے تھے اور ازخود بندوق اٹھاکر کمیونسٹ حکومت کے خلاف اور اس کے سرپرست سوویت یونین کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں گود لے لیا، ٹریننگ دی، پیسہ دیا یا دلوایا، جہادی کلچر کو فروغ دیا، پاکستانی قانون کو مذاق بنایا کیونکہ عام پاکستانی کے لئے پستول کے لائسنس کا حصول مشکل تھا لیکن انہیں درجنوں کلاشنکوفوں سمیت گھومنے پھرنے کی اجازت تھی ۔ اس عمل میں بعض مجاہدین ارب پتی بھی بن گئے۔ پاکستانی ریاست نے بہت بھاری قیمت ادا کی لیکن بالآخر وہ افغانستان کے حکمران بن گئے۔حکمران اور لیڈر بنتے ہی ان کا رویہ تبدیل ہوا اور اس تبدیلی کی ایک نفسیاتی وجہ تھی۔ یہ مجاہد لیڈر فاتح اور افغانستان جیسی شاندار تاریخ رکھنے والے ملک کے حکمران بن گئے تھے ۔ انہیں پاکستان کے علاوہ بھی کئی سرپرست ممالک میسر آگئے۔ حکمران بننے کے بعد انہیں افغان عوام کو دکھانا تھا کہ وہ خود مختار ہیں اور کسی ملک کے مہرے یا پراکسی نہیں۔ چنانچہ وہ خودمختار حکمرانوں کے طور پرایکٹ کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ماضی میں جیتی رہی۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ لوگ تو ہماری تخلیق ہیں۔ یہ بڑے بڑے نام دن رات ہمارے کرنل اور میجر کی قدم بوسی کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کا رویہ تحکمانہ تھا۔ فریقین کی اس نفسیاتی کیفیت نے انہیں دوست کی بجائے دشمن بنا دیا۔وہ پاکستان کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے ۔ کسی نے انڈیا، کسی نے تاجکستان، کسی نے ایران تو کسی نے ترکی کو اپنا پشتیبان بنا لیا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کے دور میں پاکستانی سفارتخانہ جو کبھی ڈاکٹر نجیب اور ببرک کارمل کے دور میں بھی نہیں جلایا گیا تھا، جلایا گیا۔ تخلیق اپنے خالق سے جنگ میں مصروف ہوگئی۔ یقینا اس جنگ میں پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی بہت نقصان ہوا لیکن حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان کو نکال کر ان کے ذریعے کسی مجاہد لیڈر کو مروایا گیا اور کسی کو ملک بدری پر مجبور کردیا گیا۔ یہی معاملہ حامد کرزئی کے ساتھ بھی ہوا۔ سی آئی اے کو حکمرانی کیلئے ان کا نام آئی ایس آئی نے تجویز کیا تھا۔ وہ افغانستان کا حکمران بننے کیلئے پاکستان سے جہاز میں بیٹھ کر کابل گئے تھے لیکن کابل کا تخت نشین بننے کے بعد ان کے سامنے پہلا ٹاسک یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو افغانستان میں ایک خود مختار افغان اور حکمران کے طور پر ثابت کریں۔ اس لئے انہیں کچھ ایسے اقدامات کرنے پڑے جو پاکستان کو ناگوار گزرے ۔ دوسری طرف پاکستان میں یہ سوچ تھی کہ اس حامد کرزئی کو تو ایک لمبے عرصے تک ہمارے ایک کرنل ڈیل کرتے رہے۔ اب وہ ’’ہماری بلی اور ہمیں کو میائوں ‘‘کے مصداق ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے ۔ چنانچہ اس طرح تخلیق اور خالق کی سرد جنگ شروع ہوئی ۔ ان کی اس روس سے دوستی ہوگئی، جس کے خلاف انہوں نے لمبے عرصے تک جہاد کیا لیکن پاکستان اور ان کی دوستی، دشمنی میں بدل گئی ۔ یہی عمل ڈاکٹر اشرف غنی کے سلسلے میں بھی دہرایا گیا ۔ پہلی مرتبہ وہ صدارتی امیدوار بنے تو پاکستان کے ساتھ ان کی میچ فکسنگ ہوگئی۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ڈاکٹر اشرف غنی کو صدر بنوانے کیلئےپاکستان نے اربوں روپے خرچ کئے ۔ تاہم حکمران بننے کے بعد اشرف غنی کو یہ مخمصہ درپیش تھا کہ وہ کچھ ایسے اقدامات کرے کہ جن سے وہ پاکستان کا کٹھ پتلی نظر نہ آئے،اس لئے اس نے کچھ ایسی پالیسیاں اپنائیں جو پاکستان کو ناگوار گزریں ۔ اس وقت طالبان اور پاکستان کے تعلقات کا معاملہ بھی اسی مخمصے سے گزر رہا ہے ۔ طالبان سوچتے ہیں کہ ہم نے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دیں اور وہ افغانوں پر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے پراکسی نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ طالبان کی خاطر ہم نے بیس سال تک مغرب کے الزامات کا سامنا کیا۔ ان کی ہمدردی کی وجہ سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کا مسئلہ برداشت کیا اور ہزاروں جانوں کی قربانی دی ۔ اس لئے طالبان کو ہماری ترجیحات،خدشات اور مطالبات کو ترجیح اول بنانا چاہئے ۔ چنانچہ دونوں کی اس نفسیاتی کیفیت کی وجہ سے سرد جنگ شروع ہوئی ہے اور جلد یا بدیر (خاکم بدہن) وہ گرم جنگ میں تبدیل ہوجائے گی ۔
حربی خالق اور اس کی سیاسی تخلیق کی یہ جنگ ہم اس وقت پاکستان میں بھی دیکھ رہے ہیں ۔اگرچہ عمران خان نے گولڈ اسمتھ کے کہنے پر سیاست کے میدان میں قدم رکھا لیکن اسٹیبلشمنٹ سوچتی ہے کہ اس نے عمران خان کو لیڈر بنایا۔ ان کی پارٹی میں سینکڑوں الیکٹ ایبلز شامل کرائے۔ اے ٹی ایم دلوائے ۔ ان کیلئے دھرنے کرائے ۔ ان کی خاطر نواز شریف ، زرداری، مولانا ، قوم پرستوں اور دیگر جماعتوں کو دیوار سے لگایا۔ ان کیلئے عدلیہ، میڈیا اور الیکشن کمیشن کو بری طرح استعمال کیا۔ ان کے جرائم پر پردہ ڈالا اور ان کے مخالفین کے جرائم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔ ان کی خاطر اپنے ادارے کو بدنام کیا ۔ دوسری طرف عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے کہتے ہیں کہ میں نے آپ کیلئے کیا کچھ نہیں کیا۔ جس کو آپ نے غدار کہنا چاہا میں نے اسے غدار کہا۔ جس کو آپ نے امریکی اور انڈین ایجنٹ بنوانا چاہا میں نے انہیں ان ناموں سے یاد کیا ۔میں نےشیخ رشید کو آپ کے کہنے پر اسے اپنا دست راست اور وزیر بنایا۔ بابر اعوان کو بھی آپ لوگوں کے کہنے پر وزیر بنایا۔ آپ لوگوں نے کہا کہ ”جیو“ پر حملہ کرو تو میں نے حملہ کیا اور آپ نے کہا کہ اے آروائی کو گلے لگائو تو میں نے اسے نوازا۔ لیکن پھر بھی آپ لوگ مطمئن نہ ہوئے ۔چنانچہ سرد جنگ شروع ہوئی جو اب گرم جنگ میں تبدیل ہوگئی ۔ حربی خالق نے بہت صبر سے کام لیا لیکن سیاسی تخلیق نے اسے اس انداز میں چیلنج کیا کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔اب تخلیق صرف اسلام آباد پر حملہ کرنے نہیں آرہی ہے بلکہ انہوں نے پہلے اپنے خالق (پنڈی) پر بھی شدید حملہ شروع کیا ۔اور تو اور انہوں نے اپنے خالقوں کے گھر میں دراڑ ڈالنے کی بھی کوشش کی اور اب دبائو ڈال کر خالقوں کے گھر کا سربراہ بھی اپنی مرضی کا لگوانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اب ہم ایک بار پھر خالق اور تخلیق کی جنگ کا نظارہ کررہے ہیں ۔لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ خالق اور تخلیق (سیاسی معنوں میں) کی اس جنگ میں حتمی جیت ہمیشہ خالق کی ہوئی ہے ۔دیکھتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یا تخلیق کوئی نئی تاریخ رقم کرتی ہے؟