کپتان کیا چاہتا ہے

کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں ہمارا کپتان کیا چاہتا ہے؟ مان لیا کہ ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی اور انہیں پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے گئے۔ ان کا خیال ہے کہ انہوں نے ساڑھے تین سال اگر کچھ نہیں کیا تو آخری سال میں تہلکہ مچا دینا تھا۔ ان کے پاس کئی ایسے منصوبے تھے جو صرف آخری سال کارآمد ہو سکتے تھے۔ نواز شریف نے بھی اپنے آخری دنوں میں کم از کم درجن بھر نئے موٹر ویز اور ائیرپورٹس بنانے کے اعلانات کئے تھے لیکن بچ وہ پھر بھی نہ سکے تھے۔
میں ہمیشہ سے اس بات کے حق میں رہا کہ عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیں‘ لیکن کیا کریں‘ درمیان میں ایک نومبر کا مہینہ آرہا تھا جس پر مقتدرہ کی قوتوں سے لے کر عمران خان اورشریف خاندان تک سب کی اپنی سوچ تھی۔ ہمارے سیاستدان کئی دفعہ ”اپنے بندے‘‘کے چکر میں ڈسے جاچکے ہیں لیکن باز نہیں آتے اور پھر جیل جا بیٹھتے ہیں۔ نواز شریف اس کی کلاسیک مثال ہیں جنہوں نے دو دفعہ ”اپنے بندے‘‘ لگائے۔ عمران خان نے ”اپنا بندہ ‘‘ سمجھ کر توسیع دی لیکن بچ وہ بھی نہیں سکے۔شریفوں کو اگر ایک اور موقع مل گیا تو آپ دیکھیں گے کہ وہ پھر ”اپنا بندہ‘‘ لگانے کے چکر میں پڑ جائیں گے اور پھر جیل جا بیٹھیں گے۔لگتا ہے عمران خان بھی شریف ماڈل سے بہت متاثر تھے لہٰذا انہوں نے تو خیر سے پچھلے سال سے ہی بتانا شروع کر دیا تھا کہ ان کا ”اپنا بندہ‘‘ کون ہو گا۔ یہ واحد ”اپنا بندہ‘‘تھا جس کا ڈیرھ سال پہلے سے ہر پاکستانی کو پتہ تھا۔ لیکن اب اہم سوال یہ نہیں رہا کہ اگلی دفعہ کون ہوگا‘ اب اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے سب کے لاڈلے خان صاحب کیا چاہتے ہیں؟
وہ اقتدار واپس چاہتے ہیں‘ چاہے اس دوران ملک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں‘ پاکستان خدانخواستہ ناکام ریاستوں والے حالات سے دوچارہو۔ جو کام بیرونی دشمن انتہا پسندوں کو سپورٹ دے کر نہ سکے تھے کیا وہ اب ہوگا؟ کیا اب پاکستان کی سڑکوں پرسکیورٹی اہلکاروں اور عام پاکستانیوں کے درمیان کشیدگی ہوگی؟ جیسا کہ خان صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ملک میں انتشار پھیلتا جارہا ہے۔انہوں نے یہ بھی انکشاف کیاکہ ان کے پشاور سے آنے والے لانگ مارچ کے جلوس میں بہت سے لوگوں کے پاس پستول تھے۔ اگلے روز وکلا کے جلسے سے خطاب میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ پچھلی دفعہ تیاری نہ تھی‘ اب پوری تیاری سے آئیں گے۔ رہی سہی کسروزیراعلیٰ محمود خان نے پوری کر دی کہ اگر عمران خان اجازت دیں تو اپنے صوبے کی فورسز کے ساتھ چڑھائی کر دوں۔ اس دوران عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ان کو حکومت سے راستہ لے کر دیا جائے ورنہ ان کے پاس پلان بی ہے۔ مطلب یہ کہ اب کی دفعہ وہ اسلام آباد مار کھانے نہیں آئیں گے۔دوسری طرف رانا ثناء اللہ اور حکومتی ٹیم کو پچھلے دھرنے کو ہینڈل کرنے سے حوصلہ ملا ہے‘ حالانکہ ان پر سنگین الزامات لگے ہیں کہ ان کی پولیس لوگوں کے گھروں میں بغیر وارنٹ گھس گئی‘ مارپیٹ کی‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں اور بدترین فاشزم کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔دوسری طرف جو مناظر اسلام آباد میں ڈی چوک میں سامنے آئے اس سے پوری قوم ڈر گئی۔ حکومت نے ان مظاہرین پر تشدد اور آنسو گیس کو جائز قرار دیا کہ اگر کارروائی نہ ہوتی تو مظاہرین جلاؤ گھیراؤ کرتے۔ عمران خان صاحب نے بھی معید پیرزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہی کہا کہ انہیں ڈر تھا کہ اگر وہ ڈی چوک گئے تو ورکرز مزید نقصان نہ کریں لہٰذا انہوں نے اپنا دھرنا کینسل کر دیا۔
اگرچہ عمران خان اپنے دھرنے کو ختم کرنے کی اصل وجہ نہیں بتارہے۔ دھرنا ختم کرنے کے پیچھے نہ تشدد کا ڈر تھا نہ ہی کسی کو ہنگاموں کی پروا تھی‘ وہ تو پشاور سے لوگوں کو یہی کہہ کر ساتھ لائے تھے کہ وہ ان کی سٹرائیک فورس ہیں۔عمران خان ایک تو ڈی چوک پر ریڈ زون میں فوج کی تعیناتی سے کچھ نروس ہوئے اور پھر جب انہیں بتایا گیا کہ اگر وہ ڈی چوک گئے تو ان پر سپریم کورٹ توہین عدالت لگا سکتی ہے کیونکہ عدالت نے عمران خان کو ڈی چوک پر دھرنا دینے یا جلسہ کرنے سے منع کیا تھا۔ عمران خان کو علم تھا کہ اگر ڈی چوک‘ جو پارلیمنٹ‘ وزیراعظم ہاؤس‘ وزیراعظم سیکرٹریٹ ‘ سپریم کورٹ اور ایوانِ صدر کے سامنے واقع ہے‘ پردھرنے یا جلوس کی اجازت نہ ملی تو ایچ نائن جانے کا کوئی فائدہ نہیں‘اس لیے انہوں نے دھرنا ختم کرنا تھا کہ ان آٹھ دس ہزار لوگوں کو کون صج شام ناشتہ کھانا کھلائے گا یا اُن کیلئے سونے کا بندوبست کرے گا۔
اب بھی خان صاحب کوئی حتمی تاریخ نہیں دے رہے کہ نیا لانگ مارچ کب ہوگا۔ ان کانیا منصوبہ یہ ہے کہ وہ روز ایسے سنگین اور خطرناک بیانات دیتے رہیں کہ قومی ادارے فوراً نئے الیکشن کرائیں اور انہیں دوبارہ وزیراعظم بنا دیا جائے۔ اس لیے پیر کے روز پشاور میں خان صاحب نے وکلا سے خطاب کیا یا چارسدہ میں ورکرز کو ایڈریس کیا یا ٹی وی انٹرویوز دیے ان سب کا فوکس دھمکیاں تھیں۔عمران خان کو اب یہ غصہ بھی ہے کہ شہباز شریف حکومت جو اب تک ڈانواں ڈول تھی اور لگتا تھا آج گئی‘ کل گئی وہ ٹک گئی ہے بلکہ تیل کی قیمت تیس روپے بڑھا کر اور قوم سے خطاب کر کے یہ میسج دے رہی ہے کہ اب وہ ڈیرھ سال پورا کرے گی۔ پھر عمران خان کو غصہ ہے کہ انہوں نے بیس لاکھ لوگ لانے تھے اور بیس ہزار بھی نہیں لاسکے۔ زیادہ غصہ انہیں پنجاب پر ہے جہاں سے لوگ باہر نہیں نکلے۔ شفقت محمود جیسے لوگ راستے سے دعوتیں اڑا کر لاہور لوٹ گئے جبکہ ورکرز ماریں کھاتے رہے۔ خسرو بختیار کے بارے علم ہوا کہ وہ لندن میں چھٹیاں منا رہے ہیں۔ ابھی پتہ چلا ہے کہ پنجاب چھوڑیں صوبہ خیبرپختونخوا سے بھی بیس ایم پی ایز دھرنے اور لانگ مارچ سے چپکے سے کھسک گئے تھے۔مطلب پنجاب اور خیبرپختونخوا کی سیاسی قیادت اس لانگ مارچ کی دل سے قائل نہیں تھی۔ اس کا خان صاحب کو بہت غصہ ہے کہ وہ اسلام آباد فتح نہ کرسکے اور شہباز شریف حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی۔یہی وجہ ہے کہ وہ اب چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو ڈی چوک پر دھرنا دینے کی اجازت دی جائے۔ ڈی چوک کے بغیر عمران خان کو لگتا ہے وہ حکومت نہیں گرا پائیں گے۔ لیکن حکومت کو گرا تو وہ اس وقت بھی نہیں سکے تھے جب وہ 126دن تک ڈی چوک میں بیٹھے رہے اور سب قوتیں ان کے ساتھ تھیں۔ اب بھی اگر وہ ڈی چوک میں بیٹھ جائیں تو وہ کیا نیا کریں گے کہ شہباز شریف حکومت گھٹنے ٹیک کر نئے الیکشن کرا دے گی ؟وہ بے شک پورا سال بیٹھے رہیں پرامن دھرنے سے وہ کوئی بات نہیں منوا سکے تو اس دفعہ کیا نیا کریں گے؟عمران خان کو ان کی مرضی کا الیکشن نہ ملا تو وہ ضدی بچے کی طرح سب کچھ الٹ دیں گے؟ پھر ان کی بلا سے کوئی جیے مرے انہیں کوئی پروا نہیں؟ مطلب اگر عمران خان نہیں تو پھر ان کے بعد قیامت ہے۔ کیا وہ یہی چاہتے ہیں یا اپنی پارٹی کی بات مان کر جمہوری انداز میں اپنی جدوجہد پارلیمنٹ واپس جا کر شروع کرتے ہیں۔ عمران خان کے پاس ابھی بڑا وقت ہے۔ اگر مہاتیر محمد بانوے برس کی عمر میں وزیراعظم بن سکتا ہے تو ان کے پاس ابھی کئی برس ہیں۔لیکن سوال وہی ہے کہ ہمارا لاڈلا کپتان آخر کیا چاہتا ہے؟ تو کیا خان کے بعد قیامت آ جانی چاہیے ‘پھر ہی ٹھنڈ پڑے گی کلیجے میں؟