ملک میں کیا ہو رہا ہے!

خدائے بزرگ و برتر کی اس وسیع و عریض کائنات میں جو شخص کسی بھی حربے سے‘ غلط یا درست‘ اخلاقی یا غیراخلاقی‘ قانونی یا غیرقانونی‘ آئینی یا غیرآئینی‘ غرض کسی بھی طریقے سے اگر عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سب سے زیادہ بے تاب اوربے چین ہو رہا تھا‘ وہ مولانا فضل الرحمن صاحب تھے‘ لیکن اب وہ منظر سے بالکل غائب ہیں‘ گزشتہ ایک دو ہفتوں سے دکھائی ہی نہیں دیے۔ شاہ جی سے مولانا صاحب کی اس قدر خاموشی اور پُرسکون طبیعت کے بارے میں دریافت کیا تو شاہ جی فرمانے لگے کہ مولانا صاحب سکون کے باعث نہیں بلکہ صدمے کے باعث خاموش بیٹھے ہیں بلکہ گمان غالب ہے کہ وہ سکتے کے عالم میں ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح شتابی سے تحریک عدم اعتماد پاس ہوئی ہے‘ اسی طرح جھٹ پٹ صدرِ مملکت کا مواخذہ بھی ہو جائے گا اور وہ 1973ء کے آئین کے تناظر میں مملکتِ خداداد پاکستان کے صدر بن جائیں گے۔ اس سلسلے میں وہ گزشتہ کافی عرصے سے اپنی رضاکار فورس انصار الاسلام سے گارڈ آف آنر لینے کی بھی پریکٹس کر رہے تھے تاکہ عین وقت پر ان سے کوئی غلطی نہ ہو جائے مگر ستیاناس ہو اس معاشی ابتری کا‘ کہ اس کی وجہ سے دیگر بے شمار منصوبوں کی طرح ان کا صدرِ پاکستان بننے کا منصوبہ نما خواب بھی ادھورا رہ گیا اور اب وہ اس صدمے کے مارے گنگ ہیں۔
دوسری طرف سید یوسف رضا گیلانی کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے بھی پہلے اُن کے فرزندِ ارجمند نے ہمارے ایک دوست کو کہا تھا کہ والد صاحب اب اسلام آباد سے چیئرمین سینیٹ کا حلف اٹھا کر ہی لوٹیں گے لیکن وہ جو سینیٹ کی چیئرمینی‘ ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”وَٹ‘‘ پر پڑی ہوئی نظر آ رہی تھی‘ ابھی تک دسترس سے دور ہے اور ایک واقفِ حال سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس قسم کا فیصلہ کرنے اور اس کی منظوری عطا فرمانے والوں کو اپنے پہلے فیصلے کے باعث اپنی پڑی ہوئی ہے‘ بھلا وہ اب مزید اس قسم کا رسک کیسے لے سکتے ہیں؟ ویسے بھی کافی عرصے سے اس ملک میں جمہوری طاقت کا توازن اس طرح قائم رکھا جا رہا ہے کہ اسے تھوڑے بہت فرق سے برقرار رکھا جائے اور جب جی چاہے اس فرق کو اوپر نیچے کیا جا سکے‘ ایسے میں بھلا وہ سب کچھ کسی ایک فریق کے ہاتھ میں کیسے دے سکتے ہیں؟ لہٰذا ہوگا یہی کہ صدر عارف علوی اپنے عہدے پرموجود رہیں گے اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی اپنی نشست پر متمکن رہیں گے۔ زرداری صاحب بھی اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے اور شہباز شریف بھی اسی طرح وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں گے۔
اس سارے خرابے میں صنعتکار وزیراعظم نے ایک کام بہرحال بڑی کامیابی سے کر لیا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنے تمام تر کارپوریٹ تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حزبِ اختلاف کو اپنی پاکٹ یونین میں تبدیل کر لیا ہے اور کسی بھی صنعتکار کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ملز میں پاکٹ یونین قائم کرے۔ پاکٹ یونین کی اصطلاح دراصل صنعتی اداروں میں ایسی لیبر یونین کے لیے استعمال ہوتی ہے جو صنعتی اداروں کے مالکان کی ہی نمک خوار اور تنخواہ دار ہوتی ہے اور بظاہر ان کے خلاف زبانی کلامی بیانات کی حد تک مزدوروں کو بہلائے رکھتی ہے۔ راجہ ریاض کی شکل میں انہوں نے قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن کی کرسی پر اپنی پاکٹ یونین کا نمائندہ بٹھا دیا ہے اور اس طرح انہوں نے چیئرمین نیب سے لے کر عبوری حکومت کے قیام تک کو اپنے تئیں اپنی باہمی مرضی سے طے کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے لیکن ابھی راستے میں کتنے سخت مقامات آتے ہیں‘ ان کا شاید انہیں بالکل اسی طرح کوئی اندازہ نہیں جس طرح انہیں وزارتِ عظمیٰ سنبھالتے ہوئے ان مشکلات اور مسائل کا اندازہ نہیں تھا جو سر منڈاتے ہی اولوں کی طرح ان پر برس پڑے ہیں۔
کسی نے ایک عرب سردار سے پوچھا کہ وہ اپنے قبیلے کا سردار کس طرح بنا؟ عرب سردار نے دانائی کے ساتھ انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا: قبیلے میں مجھ سے بڑے سارے لوگ مر گئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ راجہ ریاض تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ وہ ”مرزا یار‘‘ تو ہرگز نہیں مگر انہیں گلیاں بہرحال اسی طرح سے ”سنجیاں‘‘ ملی ہیں، جو بقول حافظ برخوردار:
گلیاں ہو جان سنجیاں
تے وچ مرزا یار پھرے
دیدہ دلیری کا اندازہ کریں کہ جو بندہ اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا امیدوار ہے‘ وہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت میں قائدِ حزبِ اختلاف ہے۔ اتنی دیدہ دلیری تو ملز میں بننے والی پاکٹ یونینز بھی نہیں دکھاتیں۔ وہ بھی تھوڑا بہت پردہ اور رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اس پاکٹ یونین نے تو حد ہی مکا دی ہے۔
دوسری طرف مہنگائی مارچ کرنے والے اور غریبوں کی نمائندگی کے دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اب تو قرنطینہ میں ہیں مگر اس سے پہلے وہ ایک ایسے سرکاری دورے پر روانہ ہوئے تھے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ کسی نے سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ سے پوچھا کہ شاہ جی! سنا ہے ملتان میںبہت آندھیاں آتی ہیں (تب ملتان گدا و گورستان کی پوری طرح درست منظر کشی کرتا ہوا شہر تھا)۔ شاہ جی نے جواب دیا: نہیں زیادہ تو ہرگز نہیں آتیں‘ بس ایک ہی آندھی آتی ہے جو اپریل سے جولائی تک چلتی رہتی ہے۔ اسی طرح اپنے بلاول بھٹو زرداری بھی ایک ایسے دورے پر روانہ ہوئے تھے جو ان کے وزیر خارجہ بنتے شروع ہوا اور لگ بھگ ایک مہینے تک چلتا رہا؛ تاہم بارہ روپے پٹرول کی قیمت بڑھنے پر مہنگائی مارچ کرنے والے ارب پتی زادے کو ایک ہفتے کے اندر اندر پٹرول کی قیمت ساٹھ روپے فی لٹر بڑھنے پر مہنگائی یاد نہیں آ رہی۔ بقول چودھری بھکن‘ ایسی چیزیں صرف اور صرف اپوزیشن میں ہوں تو دکھائی دیتی ہیں۔ حکومت میں آتے ہی اس قسم کی فضولیات دکھائی دینا بند ہو جاتی ہیں۔
حکومت میں شامل اور حکومت سے باہر مسلم لیگ (ن) والے ہر روز دبے لفظوں میں یہ بات کہتے ہیں کہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ انہوں نے اپنے تمام شریک اقتدار اتحادیوں سے مشورے اور منشا سے کیا ہے۔ ان کی اس بات کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) کو گالیاں نہ دی جائیں بلکہ ان میں زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم، بی اے پی اور دیگر پارٹیوں کو بھی یاد رکھا جائے۔
ادھر امریکہ میں یہ حال ہے کہ ہر ملنے والا صرف ایک سوال کرتا ہے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ اسی پریشانی سے تنگ آ کر تو میں وہاں سے بھاگ کر ادھر آیا ہوں اور آپ یہاں بھی مجھ سے وہی سوال کر رہے ہیں؟ جہاں پی ٹی آئی نے اسمبلی سے استعفے بھی دے دیے ہوں اور اراکینِ اسمبلی اپنی تنخواہ بھی لے رہے ہوں‘ جہاں وہ اسمبلی میں بھی نہ جا رہے ہوں اور سپیکر کے پاس جا کر اپنے استعفوں کی تصدیق بھی نہ کر رہے ہوں‘ بھلا وہاں یہ عاجز کیا بتائے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟