یہ موروثی سیاست کیا ہوتی ہے؟

ملتان کے مقدر میں اب بھی وہی کچھ ہے جو آج سے ایک سو پینسٹھ سال پہلے تھا۔ صرف طریقہ کار تبدیل ہو گیا ہے اور کرسی نشینی کی جگہ وزارتوں نے لے لی ہے۔ جو دو خاندان 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد انگریز سرکار کی اشیرباد سے دربار میں کرسی نشین تھے پاکستان بننے کے بعد اسمبلیوں میں کرسی نشین ہیں۔ ملتان کے تین قومی اور ایک صوبائی حلقے پر گیلانی خاندان اپنا حقِ فضیلت رکھتا ہے اور دو قومی اور ایک صوبائی حلقے کو قریشی خاندان اپنی گدی سمجھتا ہے۔ ملتان میں دوسرا ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے اور اس میں انہی دو خاندانوں میں سے ایک کی دخترِ نیک اختر اور دوسرے کا فرزندِ ارجمند ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔
جیسا کہ میں نے ملتان کے ضمنی الیکشن صوبائی حلقہ پی پی 217 کے بارے میں لکھا تھا کہ اس حلقہ میں الیکشن کا نتیجہ اگر زین قریشی کے حق میں نکلا تو ملتان میں ایک عدد مزید ضمنی الیکشن ہوگا۔ اگر زین قریشی نے جیتنے کے بعد صوبائی حلقہ پی پی 217 کی نشست اپنے پاس رکھی اور اپنی قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی تو پھر ان کی چھوڑی گئی نشست حلقہ این اے 157 پر ضمنی الیکشن ہوگا۔ زین قریشی کے مورخہ بائیس جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے ہونے والے الیکشن کے دوسرے راؤنڈ میں ووٹنگ سے قبل بطور رکن صوبائی اسمبلی حلف اٹھاتے ہی ان کی قومی اسمبلی کی نشست خالی ہو گئی۔ اب اس خالی ہونے والی نشست پر ایک اور ضمنی الیکشن آن پڑا ہے۔ سیاستدانوں کا شغل میلہ لگا ہوا ہے اور ان کے اس شغل میلے کے نتیجے میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا سارا خرچہ سرکار کے ذمے ہے اور سرکار کون سا یہ خرچہ پلے سے کرتی ہے؟ یہ سارا خرچہ ہم ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اول تو الیکشنز میں کسی بھی شخص کیلئے صرف ایک نشست پر کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی پابندی ہونی چاہیے۔ اب یہ کیا کہ چار‘ چار پانچ‘ پانچ نشستوں سے کاغذات جمع کرا دیے جائیں؟ جس نشست پر آپ نے عوام سے رابطہ رکھا ہے اور جہاں آپ اپنے حلقے کے عوام کی غمی خوشی میں شرکت کرتے رہے ہیں صرف وہیں سے الیکشن لڑیں۔ لیکن اب بڑا لیڈر وہ ہے جو ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑے اور جیتے۔ دراصل اب دو‘ چار سیٹوں سے الیکشن لڑنا بھی لیڈر کا سٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ میاں نواز شریف اسی شوق میں 1988ء میں حلقہ این اے 114ملتان ایک‘ جو شہر سے متصل نیم دیہی حلقہ ہے (اب اس حلقے کا نمبر این اے 154ہے) سے سید یوسف رضا گیلانی سے ہار گئے تھے۔ شہباز شریف 2018ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی چار نشستوں سے امیدوار تھے۔ ہمارے پیارے جاوید ہاشمی ملتان‘ لاہور‘ اسلام آباد اور راولپنڈی وغیرہ سے بیک وقت کئی کئی حلقوں سے انتخاب لڑ کر جیتی ہوئی نشستیں چھوڑتے رہے ہیں۔ خود عمران خان 2018ء میں پانچ نشستوں سے کامیاب ہوئے تھے اور اب ضمنی الیکشن میں وہ نو نشستوں پر اکیلے پارٹی امیدوار ہیں۔
چلیں جہاں سے ہار گئے وہاں تو خیر ہے لیکن جب ایک سے زائد سیٹوں پر جیت کر بعد ازاں ایک سیٹ رکھ کر باقی چھوڑ دیتے ہیں اور ان چھوڑی گئی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوتے ہیں جن کا تمام تر خرچہ سرکار کے کھاتے میں جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک سے زائد نشستوں پر جیت کر باقی چھوڑی جانے والی تمام تر نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کا خرچہ اس سیٹ کو جیت کر چھوڑنے والے رکن اسمبلی سے وصول کیا جائے تاکہ اسے اس شغل میلے کی کوئی قیمت ادا کرنی پڑے نہ کہ اس کا خرچہ عوام کے ٹیکسوں سے پورا کیا جائے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی جانی چاہیے تاکہ اس انتخابی بدعت سے جان چھڑائی جا سکے اور امیدواروں کے اس فضول شوق کے آگے بند باندھا جا سکے۔
اب ملتان کے حلقہ این اے 154پر ٹکٹ کی کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ پی ڈی ایم نے یہاں سے سید یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی موسیٰ گیلانی کو اپنا امیدوار اناؤنس کر دیا ہے۔ یہ نشست زین قریشی نے 77 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے جیتی تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی کا بیٹا علی موسیٰ گیلانی 71 ہزار کے لگ بھگ ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہا تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کا امیدوار غفار ڈوگر تھا جس نے 62 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ پی ڈی ایم کے فیصلے کی مطابق ہارے ہوئے حلقے سے آئندہ اسے ٹکٹ دی جائے گی جو دوسرے نمبر پر رہا ہوگا۔ اب اس نشست سے پیپلز پارٹی نے علی موسیٰ گیلانی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے جو دوسرے نمبر پر تو تھا لیکن پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ ہی نہیں۔ اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کا اس حلقے سے تین بار الیکشن لڑ کر ایک بار جیتنے والا غفار ڈوگر یوسفِ بے کارواں بن کر رہ گیا ہے۔ اسی غفار ڈوگر نے 2013ء کے الیکشن میں اس حلقے سے (تب اس کا نمبر این اے 148تھا) شاہ محمود قریشی اور علی موسیٰ گیلانی کو علی الترتیب سترہ ہزار اور اکتیس ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔
شنید تو یہ ہے کہ غفار ڈوگر نے اس نشست پر ٹکٹ کے حصول کیلئے پی ٹی آئی سے بھی رابطہ کیا تھا اور آج کل جو ہوا چل رہی ہے اس حوالے سے غفار ڈوگر کی یہ کوشش گو کہ بڑی عقلمندانہ تھی لیکن اس کا پتا شاہ محمود قریشی نے کاٹ دیا کہ اگر اس سیٹ پر‘ جو شاہ محمود قریشی کی آبائی سیٹ ہے‘ غفار ڈوگر پی ٹی آئی کا امیدوار بن گیا تو مستقبل میں قریشی خاندان کدھر جائے گا؟ میں نے لکھا تھا کہ شاہ محمود قریشی بہرحال یہ سیٹ اپنے گھر میں رکھیں گے‘ سو اب اس سیٹ پر ان کی دختر مہر بانو قریشی پی ٹی آئی کی امیدوار ہیں۔ کسی نے بتایا کہ مسلم لیگ کی ٹکٹ سے متوقع چھٹی اور پی ٹی آئی کی طرف سے ٹکٹ کے حصول میں ناکامی کے بعد غفار ڈوگر نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے پر غور شروع کر دیا تھا جس پر ہمارا ایک دوست بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: اچھا ہے ڈوگر صاحب ایک بار آزاد الیکشن لڑ کر اپنی سیاسی حیثیت اور قدر و قیمت کا اندازہ لگا لیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پی ٹی آئی ملتان شہر کے صدر اور آپ کے بہت پرانے دوست خالد خاکوانی کو 2018ء میں جب پی ٹی آئی نے ان کے خواہش کے باوجود شہر سے قومی اسمبلی کی ٹکٹ نہ دی تو وہ ملتان شہر کے حلقہ این اے 155سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہو گئے اور پانچ ہزار ووٹ حاصل کیے؛ تاہم میرے اس دوست کی خواہش پوری نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) نے غفار ڈوگر کو وزیراعظم شہباز شریف کا معاون مقرر کر کے معاملہ سلجھا لیا ہے۔
ملتان میں صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز شاہ محمود قریشی کی طرف سے ایک قومی اور ایک صوبائی نشست ہتھیانے کے بعد تیسری نشست پر بیٹی کی نامزدگی کے حوالے سے موروثی سیاست کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی جانب سے اس فیصلے کے بارے میں لگائی گئی پوسٹ پر اسی فیصد سے زائد منفی کمنٹس نے انہیں ایک بار سوچنے پر مجبور تو کیا ہے مگر طاقت کے مرکز کو اپنے گھر میں رکھنے کا شوق بہت ہی خوفناک ہوتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے‘ آپ ہم ملتانیوں کا مقدر دیکھیں کہ جنگِ آزادی کے 165 سال بعد بھی ہمارے پاس قریشیوں اور گیلانیوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
شاہ جی نے فون پر قریشی صاحب کی صاحبزادی کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے پر مجھ سے سوال کیا کہ یہ موروثی سیاست کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا: مناسب ہے کہ آپ یہ سوال کسی پی ٹی آئی والے سے پوچھیں‘ یہ انہی کے لیڈر کا بیانیہ تھا اور اس کا جواب بھی انہی سے مانگیں۔ مجھ عاجز کو اس پھڈے میں کیوں گھسیٹ رہے ہیں؟