ووٹ نہ ڈالنے والوں کیلئے سزا کی تجویز کب دی گئی تھی؟

پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کو کبھی تسلی بخش یا حوصلہ افزا نہیں کہا گیا۔

ہر الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

1994ء میں اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرد سردار فخر عالم نے کہا تھا کہ موجودہ انتخابی نظام کو بہتر بنانے کےلیے کئی تجاویز کا جائزہ لیا گیا ہے۔

جنگ آرکائیو سے حاصل شدہ مواد کے مطابق 20 دسمبر 1994ء کو اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرد سردار فخر عالم نے کہا تھا کہ پاکستان میں ووٹروں کے لیے لازمی ووٹ ڈالنے کا قانون بنانے پر بھی غور کیا جارہا ہے، ووٹ نہ دینے والوں کو 3 سال قید کی سزا دینے کی تجویز زیر غور رہے۔

اس کے بعد اسی ماہ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرد سردار فخر عالم نے جنگ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں اگر کسی شہری نے ووٹ نہ ڈالا تو اس کا یہ اقدام جرم قرار دیا جائے گاجس پر اسے سزا بھی دی جاسکے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ انتخابات میں ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے الیکشن کمیشن ایک مسودہ تیار کر رہا ہے جسے منظوری کے لیے حکومت کو بھیجا جائے گا۔

ماضی میں اسی طرح کی مزید خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔

تاہم پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ اس کا اندازہ اس کے بعد ہی ملک میں ہونے والے 1997ء کے انتخابات سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ووٹر ٹرن آؤٹ پاکستان کی تاریخ کا کم ترین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ رپورٹس کے مطابق ان انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 36 فیصد تھا۔

2013ء میں بھی الیکشن کمیشن نے لازمی ووٹ کی شرط پر قانون سازی کے لیے ریفرنس وزارت قانون کو بھیجا تھا۔

ہر رجسٹرڈ شہری کے لیے ووٹ لازمی ڈالنے اور ووٹ نہ ڈالنے والوں کے لیے سزا یا جرمانے کی تجویز بھی ریفرنس میں شامل کی گئی تھی۔