پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
اتفاقی حکومت ناکام کیوں؟
موجودہ حکومت کومیڈیا میںجب پی ڈی ایم حکومت کا نام دیا جاتا ہے تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہم میڈیا والے اتنے بے خبر اور نااہل کیوں ہو گئے کیونکہ یہ پی ڈی ایم کی نہیں بلکہ اتحادی یا اتفاقی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی جو پی ڈی ایم کی داعی اور بانی جماعت تھی، پی ڈی ایم سے نکل چکی ہے اور دوبارہ کبھی شامل نہیں ہوئی۔اے این پی بھی اس کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔اسی طرح ایم کیو ایم اور باپ پارٹی بھی اس حکومت کا حصہ ہیں اور وہ دونوں کبھی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں رہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم نامی اتحاد بھی عملاً ختم ہوچکا ہے اور دوبارہ اس کا بننا مشکل نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اس کا سربراہی اجلاس تک منعقد نہیں ہوسکا بلکہ کئی جماعتوں کے سربراہوں کی مولانا سے بات چیت بھی بند ہے۔ پی ڈی ایم کے سینئر نائب صدر آفتاب احمد خان شیرپائو تھے۔ جب شہباز شریف، مولانا اور زرداری کو بتایا گیا کہ عمران خان کی ناقابل برداشت حرکتوں کی وجہ سے ان کی سرپرستی کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور اقتدار کا دروازہ ان کے لئے کھل گیا ہے تو ایک دوسرے پر شدید برہم مولانا اور زرداری تو اچانک اور پراسرار طور پر بغل گیر ہوگئے لیکن مولانا نے حکومت سازی کے لئے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ ایک تو انہیں خوف تھا کہ کہیں قوم پرست جماعتیں حکومت سازی کی مخالفت نہ کردیں اور دوسرا انہیں خدشہ تھا کہ پھر انہیں بھی اقتدار کی تھالی میں سے حصہ دینا ہوگا۔ چنانچہ اقتدار کے لئے وزارتوں، اہم مناصب اور حتیٰ کہ اہم بیوروکریٹک عہدوں کی تقسیم پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر نہیں بلکہ چار لیڈروں (چوہدری شجاعت، شہباز شریف، زرداری اور مولانا) کے درمیان ہوئی لیکن آفتاب شیر پائو، محمود خان اچکزئی اور اختر جان مینگل سے پوچھا بھی نہیں گیا۔ زرداری نے یہی کام اے این پی کے ساتھ کیا جس کی قیادت کو وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں بھی نہیں بلایا گیا۔ اسی طرح مولانا نے اپنے سینئر نائب صدر آفتاب شیرپائو یا محمود خان اچکزئی کو وفاقی حکومت میں کوئی حصہ نہیں دلوایا ۔ادھر آصف زرداری صاحب ایک ایک وزارت پر مسلم لیگ (ن) سے لڑے اور خارجہ، بی آئی ایس پی اور اسی طرح کی کئی وزارتیں ہتھیا لیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم کی سربراہی کا کارڈ استعمال کرکے اپنے لئے استحقاق سے زیادہ حصہ لیا۔ ابتدا میں انہیں مذہبی امور، سیفران اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے دئیے گئے لیکن وہ بہ ہر صورت امیر محکموں یعنی ہائوسنگ اور مواصلات لینا چاہتے تھے ۔چنانچہ انہوں نے احتجاج کیا جب کہ زرداری اور شہباز شریف پر دبائو ڈالنے کے لئے فوری نئے انتخابات میں جانے کا مطالبہ بھی کردیا چنانچہ زرداری نے انہیں ہائوسنگ اور شہباز شریف نے مواصلات کی وزارتیں اپنے حصے سے دےکر راضی کر لیا۔ ایم کیو ایم چونکہ عمران خان کے ساتھ اتحاد بالجبر پر مجبور کی گئی تھی اور ادھر بارگیننگ کرکے آرہی تھی اس لئے اس نے بھی اچھی بارگیننگ کرکے اس مرتبہ تگڑی وزارت اور سندھ کی گورنرشپ لے لی۔ باپ پارٹی کو چونکہ اگرچہ اپنے اصل باپ نے چھوڑ دیا تھا لیکن ان کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی تھی اس لئے اس کے دونوں دھڑوں نے بھی وزارتیں لینے میں اچھی بارگیننگ کی۔ بی این پی مینگل اب کی بار ایک تو شامل ہوئے بغیر بلوچستان کی حکومت سے مستفید ہورہی ہے اور دوسری طرف مرکز میں بھی حصہ لے لیا لیکن تینوں پٹھان (اسفند یار ولی، محمود خان اور آفتاب شیر پائو) ضد اور یاری دوستی کی وجہ سے حکومت کو سپورٹ توکررہے ہیں لیکن حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔ آفتاب شیرپائو کو بعدازاں شہباز شریف نے بلا کر وزارت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے لینے سے معذرت کی جب کہ تب سے اب تک وہ مولانا سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اے این پی کو شہباز شریف نے گورنر شپ کی پیشکش کی اور میاں افتخارحسین کے نام پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہوگیا تھا لیکن اس معاملے کو طویل عرصے تک التوا میں ڈالنے کے بعد مولانا نے اسے اپنے سمدھی حاجی غلام علی کے لئے ہتھیا لیا۔ دوسری طرف این ڈی ایم کے محسن داوڑ نے عمران خان حکومت کو صرف ووٹ دیا تھا لیکن حکومت کا حصہ نہیں بنے تھے لیکن جب شہباز حکومت کا حصہ بنے تو خارجہ امور کی اہم ترین کمیٹی ان کے سپرد کر دی گئی جس کے چیئرمین کو وزیر جتنی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
اب یہ حکومتی کھچڑی ایسے عالم میں بن گئی کہ عمران خان نے ملکی معیشت تباہی کے کنارے لاکھڑی کی تھی اور آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے بعد اس سے الٹ عمل کرنے لگے تھے۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنی شروع کردیں اور معیشت کے استحکام کی کچھ امیدپیدا ہوئی ہی تھی کہ اوپر سے اسحاق ڈار نازل ہوئے اور انہوں نے وہی کام کیا جو اسد عمر اور شوکت ترین نے کیا تھا۔ چنانچہ معیشت مزید تباہی سے دوچار ہو گئی۔ دوسری طرف حکومت میں شامل جماعتوں کو طویل عرصہ بعد موقع ملا تھا اور انہیں خدشہ تھا کہ جلد الیکشن میں دوبارہ جانا ہوگا چنانچہ ایسی لوٹ مار شروع ہوگئی کہ الحفیظ الامان۔ اتفاقی حکومت کی ان حرکتوں کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت بڑھنے لگی۔ وہ میڈیا پر چھانے لگے لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکومت کے مزے سب لوٹ رہے ہیں جب کہ دفاع صرف مسلم لیگ (ن) کو کرنا پڑرہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی میڈیا پالیسی بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ پھر دوسرا مرحلہ نگران حکومتوں کے قیام کا آیا اور حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں عملاََ جے یو آئی کی حکومت ہے جب کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا غلبہ ہے ۔ شہباز شریف ان سب کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔ ان کے وزرا ان کی بات سننے کی بجائے اپنے اپنے پارٹی لیڈروں کی بات سنتے ہیں اور وہ اپنی کابینہ کے ارکان سے بھی اسی طرح بات کرتے ہیں جس طرح پارٹی لیڈر سے کی جاتی ہے۔ اسی طرح ان سب جماعتوں نے بیوروکریسی کے اہم مناصب میں بھی اپنا حصہ وصول کیا اور وہ بیوروکریٹ وزیراعظم کی بجائے دراصل اتحادی جماعتوں کے لیڈروں کی طرف دیکھتے ہیں ۔علاوہ ازیں وہ پنجاب کے چہیتوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو چلانا چاہتے ہیں حالانکہ دونوں جگہ صورت حال یکسر مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اتفاقی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ثابت ہورہی ہے اور جلداز جلد اس کا خاتمہ کر کے انتخابات نہ کروائے گئے تو نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو شدید نقصان ہوگا بلکہ جس اتفاقی طریقے سے یہ بنی ہے اسی طرح یہ حکومت کسی اتفاقی حادثے سے بھی دوچار ہو سکتی ہے۔