بھارت میں لوگ اردو کے الفاظ غلط کیوں بولتے ہیں؟

بھارت میں لوگ اردو کے الفاظ غلط کیوں بولتے ہیں؟ زندگی، ضروری، زیادہ ،زمانہ ،روزی روٹی کا تلفظ جندگی، جروری، جیادا، جمانہ، روجی روٹی ادا کیا جاتا ہے۔جاوید اختر نے ہندستانیوں سے کہا تھا کہ زندگی کو جندگی ،ضروری کو جروری جو کہتے ہو، نہ یہ اردو ہے اور نہ یہ ہندی ہے۔’میرے کو،تیرے کو، اپنے کو،اپن کو‘‘ جیسے الفاظ ہندی فلموں کا اثر ہے۔

مصنف انوراگ کشیپ نے جب شاعر گلزار کو یہ سنایا ’’گھم کے نیچے بم لگا کے گھم اڑا دے( غم کے نیچے بم لگا کے غم اڑا دے)’ تو انہوں نے سرزنش کرتے ہوئے جواب دیا’پہلے غم(گھم) بولنا سیکھو۔’’ کہو نا… پیار ہے یا اک پل کا جینا ‘‘ہٹ گانےتھے ،اس کے باوجود خالی’کھالی،خاص(کھاس) اور خوشی(کھشی) جیسے الفاظ بیان ہوئے۔ انہی لسانی ضرورتوں کے تحت بھارت کی سب سے مقبول گلوکارہ لتا منگیشکر نے اردو کی باریکیوں کو سیکھنے کےلیے باقاعدہ ٹیوٹر کی خدمات حاصل کی تھیں۔

آشا بھوسلے نےکہا’’ہر ہندی گلوکار کو اردو زبان کی باریکیوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔محمد رفیع اور شمشاد بیگم کی جڑیں پنجاب میں تھیں، جہاں اردو سیکھنے کا معیاری ذریعہ تھا۔ گلوکار ایل کے سہگل اور نور جہاں نے اپنے کیریئر کو انہیں بنیادوں پر استوار کیا۔نسرین مُنّی نے کہا ’’جب میں بولتی ہوں تو میری اردو اچھی نہیں ہوتی، لیکن جب میں گاتی ہوں تو اس بات کو یقینی بناتی ہوں کہ میرے بول میں کوئی خامی نہ ہو۔ کشور کمار کے کچھ گانوں میں کچھ پھسلن کے پیچھےیہی وجہ ہے انہوں نے اردو صوتیات پر توجہ نہ دی۔

اردو الفاظ جیسا کہ زندگی، ضروری، زیادہ، زمانہ، روزی روٹی کا تلفظ جندگی، جروری، جیادا،جمانہ،روجی روٹی ادا کیا جاتا ہے، کیا یہ ہندی الفاظ ہیں تو،اس کا جواب نہیں ہے۔’زندگی‘کو ہندی میں جندگی تونہیں بلکہ’جیون‘ کہاجاتا ہے۔ ’ضروری‘ کو ہندی ’جروری‘ نہیں بلکہ ’وشیش‘ ہے۔

ہندوستان کے معروف شاعر جاوید اختر نے ایک پروگرام میں ہندستانیوں سے یہی کہا تھا کہ زندگی کو جندگی ،ضروری کو جروری جو کہتے ہو، نہ یہ اردو ہے اور نہ یہ ہندی۔ اور بالی ووڈ کی تمام ہندی فلمیں بنیادی طور پر اردو ہے ،سننے والا اس کی پہچان نہیں کرسکتا کہ اردو ہے یا ہندی ،جب تک اسے لکھا نہ جائے۔

صرف دو مختلف انداز میں لکھنے کو دو زبانوں کا نام دے دیا گیا۔اردو عربی رسم الخط کی شکل میں دائیں سے بائیں طرف لکھی جاتی ہے وہیں ہندی کو بائیں سے دائیں اسکرپٹ میں لکھا جاتا ہے جسے دیوان گری کہتے ہیں۔

زیادہ تر اردو الفاظ فارسی یاعربی سے ماخوذ ہیں، جبکہ سنسکرت ہندی الفاظ کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں’ پھ‘ کی جگہ’ ف‘کااستعمال بھی عام ہے جیسا کہ پھول کو فول ،پھینک کو فینک ، پھر کو فیر، پھل کو فل، مونگ پھلی کومونگ فلی بولتے ہیں۔

وہ ’خ ،کھ‘ میں فرق نہیں کرتے’ خان کو کھان کہتے ہیں،اسی طرح غ اور گ کی آواز ہے کاغذ کو کاگج بول دیتے ہیں۔ ہندوستانیوں میں لکھنے میں بھی یہ غلطیاں عام ہے ’ ڑ‘ کی جگہ ’ڈ‘ استعمال کرتے ہیں۔جیسا کہ parosiپڑوسی کی جگہ وہ padosiپدوسی لکھتے ہیں ان کا موقف ہے کہ یہ اردو نہیں بلکہ ان کے لیے ہندی ہے۔دیوان گری رسم الخط جسے ہندی کہتے ہیں اس میں vowelدس اور consonantکی تعداد چالیس ہے۔

آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

عربی اور فارسی سے ماخوذ اردو میں مختلف’ز‘ آوازوں کے لیے پانچ حروف تہجی ہیں۔ وہ’ ذ، ز، ژ، ض، اور ظ‘ ہیں جب کہ ہندی میں ’ز‘آواز کے لیے کوئی حروف تہجی نہیں۔زندگی،ضروری،زیادہ وغیرہ الفاظ یا تو عربی کے ہیں یا فارسی کے۔دوسری زبانوں کی طرح ہندی زبان کی اصل سنسکرت ہے۔ سنسکرت میں، کوئی حرف ’ز یا ذ‘ نہیں ہے، اس لیے ہندی یا سنسکرت میں اس حرف کا استعمال کرتے ہوئے ایسا کوئی لفظ نہیں ہے۔

دوسری طرف، اردو میں حرف’ز‘یا’ذ‘ ہے، کیونکہ اردو کے ماخذ میں عربی اور فارسی زبانیں بھی شامل ہیں۔ ان دونوں زبانوں میں یہ حرف ہے۔لہٰذا، زیادہ تر ہندوستانی، جنہیں کبھی اردو نہیں سکھائی جاتی، ان الفاظ کا اصلی تلفظ کبھی نہیں جان پاتے۔

موجودہ زمانے میں ہندی میں’ج‘آوازوں میں ایک ڈاٹ جوڑ کر’ ز‘آواز بناتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ان نقطوں کو شامل نہیں کرتے ہیں یا وہ ان پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ حروف تہجی، میں’ ج‘ کے نیچے ایک نقطے کے ساتھ ’ز‘ جیسی آوازایجاد ہونے کے باوجود بہت سے لوگوں کو ج استعمال کرنے کی عادت پڑ گئی۔ ہندوستانی’’مجھے‘‘ کے بجائے’’میرےکو‘‘جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔زیادہ تر ہندوستانیوں کو صرف اس وجہ سے معلوم نہیں ہے کہ یہ چیزیں سکول میں صحیح طریقے سے نہیں پڑھائی جاتی ہیں۔

’’میرے کو،تیرے کو، اپنے کو،اپن کو‘‘ وغیرہ ہندی فلموں کا اثر ہے جہاں بہت سارے فلمسٹار ممبئی ہندی کا استعمال کرتے ہیں خاص طور پر جب انہوں نے جو کردار ادا کیا وہ اسٹریٹ بوائے یاروڈی وغیرہ کا ہوتا ہے یہ الفاظ بنیادی طور پر وہ شخص بولتے ہیں جو مہذب نہیں۔ اس قسم کی زبان عام طور پر ممبئی میں بولی جاتی ہے کیونکہ پورے ملک کے لوگ یہاں رہتے ہیں اور اصل ہندی کو اس شکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

جب نامور شاعر اور ہدایت کارگلزار نے ’’گولی مار بھیجے میں‘‘ کے بول فراہم کیے تو انڈر پروڈکشن ستیہ (1998) کے یونٹ ممبران میں سے کسی نے بھی اسے زیادہ پسند نہیں کیا۔ انہوں نے ان ڈمی لائنوں کو ترجیح دی جو موسیقار وشال بھردواج نے لکھی تھیں’ گھم کے نیچے بم لگا کے گھم اڑا دے( غم کے نیچے بم لگا کے غم اڑا دے)،گلزارصاحب کو گیت کے بول ٹیم میں شامل مصنف انوراگ کشیپ نے سنائے۔

گلزار نے لائن سننے کے بعداس سے کہا’’پہلے غم(گھم) بولنا سیکھو‘‘۔ایک مصنف اور فلم ساز، کشیپ کواس زبان کی پیچیدگیوں کو جاننا چاہیے تھا۔ ہندی فلمی گانوں میں اردو الفاظ کا غلط تلفظ بہت زیادہ ہے ، نوے کی دہائی سے پہلے زیادہ تشویش کی بات نہیں تھی۔اس کے بعد صوتیاتی اصولوں کی طرف توجہ نہ دی گئی۔’’ کہو نا… پیار ہے یا اک پل کا جینا ‘‘ہٹ تھے ،اس کے باوجود خالی’کھالی،خاص(کھاس) اور خوشی(کھشی) جیسے الفاظ بیان ہوئے۔ایسی غلطیاں نہ صرف قابل قبول ہو گئی ہیں بلکہ گلوکار بھی ان سے غافل دکھائی دیے۔ ایک عام آدمی کا اسے غلط سمجھنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اگر کوئی پیشہ ور گلوکارکےلئے حوصلہ افزا علامت نہیں ہے۔

گانے کرداروں کی تقریری خصوصیات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، جیسا کہ گنگا جمنا (1961) اور لگان (2001) میں ہے۔ اگرچہ گیت نگاروں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی بنیادی زبان اردو ہے، لیکن گلوکاروں کا ایک بڑا حصہ اس سے اچھی طرح واقف نہیں ۔تمام پرانے عظیم لوگ اردو بولنے والے گھرانوں میں پیدا نہیں ہوئے ، ثریا، طلعت محمود اور کسی حد تک مکیش کے علاوہ، 50 کی دہائی کے دوسرے بڑے ناموں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

استاد امان علی خان، استاد عبدالرحمٰن خان اور استاد غلام مصطفی خان جیسے گرووں سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کی بدولت منا ڈے جیسا گلوکار ہمیشہ مضبوط قدموں پر رہا۔ جدن بائی اس وقت اسٹوڈیو میں موجود تھیں جب ’آئےگا آنیوالا‘ (محل) کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی اور بعد میں انہوں نے لتا منگیشکر کے لفظوں کی تعریف کی۔

منگیشکر نے اردو ٹیوٹر کی خدمات حاصل کرکے باریکیوں کو سختی سے سیکھا تھا۔ نسرین مُنّی کبیر کی کتاب لتا منگیشکر: اِن ہیر اون وائس میں کہتی ہیں، ’’جب میں بولتی ہوں تو میری اردو اچھی نہیں ہوتی، لیکن جب میں گاتی ہوں تو اس بات کو یقینی بناتی ہوں کہ میرے بول میں کوئی خامی نہ ہو۔‘‘

آشا بھوسلے 2003میں ایک انٹرویو میں کہا’’ہر ہندی گلوکار کو اردو زبان کی باریکیوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘پرانے زمانے میں اردو مرکزی دھارے کی تعلیم کا حصہ تھی اور اس لیے آوازیں بچپن سے ہی تقریر میں شامل ہو جاتی تھیں۔

محمد رفیع اور شمشاد بیگم کی جڑیں پنجاب میں تھیں، جہاں اردو سیکھنے کا معیاری ذریعہ تھا۔ گلوکار ایل کے سہگل اور نور جہاں نے اپنے کیریئر کو انہیں بنیادوں پر استوار کیا۔اردو میں صوتیات کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔

کشور کمار کے کچھ گانوں میں کچھ پھسلن کے پیچھے شاید یہی وجہ ہے۔ گزرے ہوئے دور کے برعکس جس میں نوشاد جیسا کوئی شخص گرامر اور تلفظ کے بارے میں خاص ہو گا، عصری موسیقار اتنے پابند نہیں ہیں۔ نہ ہی گیت نگار ہیں۔