حکمران کیوں دکھ میں شریک ہوں؟

جب غریب لوگ پانی میں ڈوب چکے ہیں‘ ایک ہزار کے قریب انسان مارے گئے ہیں‘ پانی عورتوں اور بچوں کو بہا کر لے گیا ہے‘ لوگ سڑکوں پر پڑے ہیں تو ان کے پاس کوئی بڑا قومی لیڈر یا سیاستدان نہیں پہنچا۔ ایک ماہ پہلے تک عمران خان اور مریم نواز انہی علاقوں میں روز ووٹ لینے جارہے تھے۔ اب مصیبت آتے ہی مریم نوازگھر بیٹھ گئیں کہ الیکشن ہارنے کے بعد وہاں جا کر کیا کرنا ہے‘ اگرچہ وہ اعلان کر چکی ہیں کہ وہ جائیں گی۔ عمران خان جلسے کررہے ہیں۔ وہ ان سیلاب زدہ علاقوں میں کیوں جائیں جہاں سے انہوں نے ایک ماہ پہلے ووٹ لے کر پنجاب کی حکومت بنائی تھی۔ ووٹ لینے تھے‘ لے لیے۔ اگلے الیکشن کے موقع پر خان صاحب پھر پہنچ جائیں گے اور یہی لوگ نعرے ماریں گے۔ اس طرح پرویز الٰہی کیوں ڈیرہ غازی خان میں ڈیرے لگا لیں اور ان غریبوں کا دکھ درد میں ساتھ دیں۔ پرویز الٰہی کا ویسے بھی وہاں جانا نہیں بنتا نہ ان علاقوں کے مصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد کرنا کیونکہ سب کو علم ہے کہ سرائیکیوں نے ووٹ پرویز الٰہی کو نہیں دیے۔ انہوں نے عمران خان کے نام پر ووٹ ڈالے ہیں۔ پرویز الٰہی کو اگر ووٹ ملے ہیں تو وہ اپنے آبائی علاقے گجرات سے ملے ہیں۔ اگلی دفعہ بھی اگر انہوں نے ووٹ لینے ہیں‘ اپنے علاوہ‘ اپنے بیٹے مونس اور اپنے بھتیجے کو گجرات سے الیکشن جتوانا ہے تو انہیں گجرات پر ہی فوکس کرنا ہو گا۔ اس لیے پرویز الٰہی اربوں روپوں کے فنڈز وہاں لے جارہے ہیں تو ساتھ ہی انہوں نے گجرات کو ڈویژن بھی بنا دیا ہے۔ پرویز الٰہی کو علم ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کا سیاسی مستقبل محفوظ بنانا ہے تو انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا اور اب اگلا الیکشن وہ جیتیں گے کہ گجرات کو نیا ڈویژن بنا دیا۔ اس ڈویژن کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ ریاست بہاولپور پہلے پاکستان میں ضم کی گئی پھر جب ون یونٹ کے بعد صوبے بحال ہوئے تو اسے بحال نہ کیا گیا۔ تیس چالیس برس گزر گئے لیکن آج تک بہاولپور ڈویژن کے تین ہی اضلاع ہیں۔
بلاول بھٹو اگرچہ سندھ میں سیلاب زدگان کے پاس گئے ہیں لیکن وہ بھی سرائیکی علاقوں میں ابھی تک نہیں جا سکے۔ وہ کیوں جائیں۔ انہیں بھی سرائیکی علاقوں میں ووٹ نہیں ملے۔ جنہیں سرائیکی ووٹ دے رہے ہیں انہی سے توقع بھی رکھیں کہ ان کی پنجاب میں حکومت بھی ہے۔ اس طرح حمزہ شہباز بھی کیوں ریلیف سامان کا ٹرک لے کر ان علاقوں کی طرف جائیں جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں اور کھانے پینے کی شدید قلت ہے۔ حمزہ شہباز نے اپنی کسی شوگر مل کے منیجر کو بھی نہیں کہا کہ وہ اور کچھ نہیں تو چینی کے چند ٹرک ہی سرائیکی علاقوں میں بھجوا دے یا سندھ اور بلوچستان میں جہاں سیلاب سے بستیوں کی بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ اگر کوئی سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچا ہے تو وہ جماعت اسلامی کے سراج الحق ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف حکومتوں کو اس وقت پنجاب اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آنے والے سیلاب سے کوئی غرض نہیں ہے۔ آپ عمران خان‘ اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی یا کسی اور لیڈر کو سنیں تو وہ سیلاب کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ بہت تنقید کے بعد اب عمران خان نے ہری پور میں کی گئی تقریر میں وزیراعلیٰ پنجاب کو کہا ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کیلئے اقدامات کریں۔ عمران خان نے اپنے الیکشن اور جلسوں کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے تھے تو انہوں نے باقاعدہ ایک ویب سائٹ کھول کر اس پر اوورسیز پاکستانیوں سے لاکھوں ڈالرزا کٹھے کر لیے لیکن اس سیلاب میں ڈوبتے عوام کیلئے خان صاحب سمیت کسی نے بھی اپنی جیب سے چند سو روپے تک چندہ دینے کا اعلان نہیں کیا۔
یوسف رضا گیلانی‘ شاہ محمود قریشی سمیت سبھی لیڈران کو کہیں ریلیف کیمپ میں دیکھا گیا ہو یا انہوں نے کوئی چندہ دیا ہو؟ یہ سب لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر لوگوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے گوشواروں کے مطابق ان کے بینک اکاؤنٹس میں بیس‘ تیس کروڑ روپے موجود تھے۔ کسی نے سنا کہ ایک کروڑ روپیہ عطیہ کیا ہو؟ عمران خان نے توشہ خانہ کے تحائف بیچ کر تیس کروڑ روپے کمائے‘ کسی نے سنا ایک کروڑ روپیہ چندہ دے دیا ہو؟ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر سولہ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس تھا۔ باپ بیٹے نے کوئی چندہ دینے کا اعلان کیا ہو؟ زرداری پر چالیس ارب روپے فیک اکاؤنٹس کا مقدمہ چل رہا ہے۔ زرداری نے چند ارب نکال کر سیلاب زدگان کو عطیہ کر دیے ہوں؟ مریم نواز کہتی تھیں کہ ان کی لندن چھوڑیں پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ اب ان کی ایک ارب سے زائد کی جائیداد پاکستان میں نکل آئی ہے۔ انہوں نے ایک ارب کی گم شدہ جائیداد ملنے پر شکرانے کے طور پر زیادہ نہیں ایک کروڑ روپیہ ہی خیرات کیا ہو؟ بلاول نے جب اپنے گوشوارے جمع کرائے تو ان کی دولت اور جائیدادوں کا حساب کتاب کرتے آپ کی سانس پھول جائے لیکن مجال ہے وہ اپنی جائیداد سے ایک روپیہ بھی سندھیوں کو عطیہ کر دیں۔
نواز شریف لندن میں بیٹھے ہیں۔ ان کے ہونہار بچے لندن میں بڑے بزنس مین ہیں۔ روز کے لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں۔ دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں۔ مجال ہے نواز شریف یا ان کے بچوں نے سیلاب زدگان کیلئے عطیے کا اعلان کیا ہو۔ اب وزیراعظم کا سیلاب فنڈ بنایا گیا ہے۔ عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ اس فنڈ میں پیسے دیں۔ عوام کو بجلی کے خوفناک بل بھیجے گئے جس کیلئے پیسے ان کے پاس نہیں‘ سیلاب زدگان کو چندہ کہاں سے دیں گے؟ سوال وہی ہے شہباز شریف‘ نواز شریف‘ عمران خان‘ بلاول‘ مریم‘ زرداری‘ گیلانی‘ قریشی یا حمزہ یہ کیوں مرتے عوام کو چندہ دے کر بھوک سے بچائیں؟ جب زرداری اور بلاول کو علم ہے کہ سندھ کا ووٹر انہیں ہی ووٹ دے گا تو پھر وہ کیوں اتنا اہتمام کریں؟ وہ کیوں سندھیوں کے غم میں مرتے پھریں اور اپنی جائیدادوں میں سے حصہ دیتے رہیں۔
اس طرح شریف جانتے ہیں کہ پنجاب کے لوگ کہاں جائیں گے‘ وہ دس سال ملک سے باہر رہے اور عوام نے وطن واپسی پر دوبارہ شہباز شریف کو 2008ء میں وزیراعلیٰ تو 2013ء میں نواز شریف کو تیسری دفعہ وزیراعظم بنا دیا۔ سو‘ وہ کیوں محنت کریں یا عوام کو خوش کرنے کی کوشش کریں؟
عمران خان جانتے ہیں کہ انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عوام کو عظیم قوم بنا رہے ہیں۔ قوم واقعی بہت عظیم ہے کہ جس عمران خان کی حکومت میں ایک ایم ایم روڈ نہ بن سکی‘ جس پر روزانہ لوگ حادثوں کا شکار ہوتے ہیں‘ وہ قوم کو یقین دلا چکے ہیں کہ وہ انہیں عظیم بنا کر دم لیں گے۔ عمران خان اب اگر کھمبے کو بھی کھڑا کریں تو وہ جیت جائے گا۔ جب خان صاحب کو اس لیول کا اعتماد ہے تو پھر وہ کیوں اپنے جلسے جلوس بند کرکے جلسوں کا خرچہ سیلاب زدگان کو عطیہ کریں؟ یہ سب لیڈرز جانتے ہیں کہ عوام کی مجبوری ہے کہ وہ انہیں ووٹ دیں گے۔ اس سال نہیں تو اگلے سال دے دیں گے‘ جب وہ کسی ایک پارٹی سے تنگ ہوں گے۔ یوں یہ باری چلتی رہے گی۔ کبھی زرداری‘کبھی شریف تو کبھی عمران خان۔ ان کا کیا جاتا ہے‘ انہوں نے کون سی نوکریاں کرنی ہیں؟ عوام کے پیسوں سے گاڑیاں‘ گھر اور کچن چلتے ہیں۔ جب تک آپ عوام کما کر ان حکمرانوں کا پیٹ بھرنے کو تیار ہیں تو یہ کیوں خود کام کریں اور کمائیں؟جب آپ لوگ ان کے جلسوں کو بھر دیتے ہیں تو پھر کیوں وہ ا س وقت آپ کی مدد کو آئیں جب آپ اور آپ کے بچے ڈوب رہے ہیں؟ حکمرانوں کی بے حسی پر کسی نے لکھا کہ سب یاد رکھا جائے گا‘ تسلی رکھیں یہ عوام گجنی ہیں‘کچھ یاد نہیں رکھیں گے۔ یہ پھر انہی حکمرانوں کو دیکھ کر دیوانے ہو جائیں گے‘ان کے نعرے ماریں گے‘ انہیں ووٹ دیں گے۔ ان کے جلسوں میں ناچیں گے۔