اتحادی حکومت کی کمپنی کیوں نہیں چلے گی؟

امریکی سازش مفروضہ تھا، مفروضہ ہے اور مفروضہ ثابت ہوگا۔ عمران خان کی حکومت گرانے کا کریڈٹ زرداری کو جاتا ہے ، نواز شریف کو ، مولانا فضل الرحمان کو اور نہ کسی اور کو۔ یہ کریڈٹ عمران خان کا ہے اور ان سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔

انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کا راستہ خود ہموار کیا۔ملکی معیشت اور سفارت کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے سرپرستوں کا بھی جینا دوبھر کردیا۔ چنانچہ ان کی حکومت کو جو غیرآئینی اور غیرقانونی بیساکھیاں فراہم کی گئی تھیں، وہ ہٹا دی گئیں۔

ان کی خاطر غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر عدلیہ، میڈیا، نیب اور حریف سیاستدانوں کے بازو مروڑنے کا جو سلسلہ تھا وہ ختم کردیا گیا اور اپنے آپ کو آئینی رول تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ جس کی وجہ سے عمران خان کی حکومت دھڑام سے گر گئی اور اتحادی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔

زرداری صاحب آج اپنے آپ کو اس عمل کا منصوبہ ساز ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کون نہیں جانتا کہ عمران خان کی حکومت زرداری صاحب کی عنایت سے قائم ہوئی اور چل رہی تھی۔ یہی زرداری صاحب تھے جنہوں نے عمران خان کی حکومت کو بیساکھیاں فراہم کرنے والی قوتوں کے ایما پر بلوچستان کی حکومت گرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

پھر یہی زرداری تھے جنہوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر سینیٹ کے انتخابات میں مل جل کر گیم بنایا اور رضا ربانی کی بجائے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنایا۔ جس ڈیل کے تحت عمران خان کو پورا ملک ملا اسی ڈیل کے تحت زرداری صاحب کو سندھ ملا ۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جعلی اسمبلیوں میں بیٹھنے کی راہ ہموار کی اور پھر ان کی تقلید میں مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں بھی جعلی اسمبلیوں میں بیٹھنے پر مجبور ہوئیں۔یوں سونامی کی جگہ اتحادی جماعتوں کا اقتدار میں آنے کا سہرا درحقیقت حکومت میں شامل کسی جماعت کے سر نہیں بلکہ خود عمران خان کے سر ہے۔

اب میاں شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ہیں ۔ سندھ حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت میں بڑا حصہ پیپلز پارٹی اور پھر جے یو آئی نے لے لیا ہے ۔ ایم کیوایم بھی حصہ دار بن گئی ہے جبکہ اے این پی اور آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی کے سوا باقی سب جماعتوں بلکہ شاہ زین بگٹی جیسے چند افراد کو بھی حصہ مل گیا ہے ۔

ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک قومی حکومت کی بھی تصویر ہے جس میں سندھ اور پنجاب میں گہری جڑیں رکھنے والی قومی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، سب سے بڑھ کر مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں اور اس تناظر میں اسی حکومت سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ معاشی ، معاشرتی اور سفارتی بحران میں گھرے ہوئے پاکستان کا بیڑا پار کرادے گی.

لیکن سوال یہ ہے کہ کیایہ حکومت زیادہ دیر چل پائے گی؟ ۔ میرا جواب نفی میں ہے اور میرے نزدیک اس کی وجہ خود اس حکومت میں شامل جماعتیں بنیں گی ۔ کیونکہ تین بڑی اتحادی جماعتیں اپنی حکومت کو جمہوری انداز میں نہیں چلارہی ہیں ۔

پہلے ذکر کرتے ہیں مسلم لیگ (ن) کے رویے کا ۔بلا شبہ میاں شہباز شریف اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ فیصلہ سازی کا محور لندن اور اسلام آباد میں بیٹھا ہوا ہے۔ دو جگہوں سے ہدایت لینے والی حکومت ڈیلیور نہیں کرسکتی۔

اسی طرح حکومت میں باہر سے تو لوگوں کو اہم وزارتیں دی گئیں لیکن مسلم لیگ(ن) کے اندر قربانیاں دینے والے بہت سارے لوگ اہم وزارتوں سے محروم ہیں ۔ ایک غلط تاثر یہ جارہا ہے کہ نون لیگ کی توجہ کا مرکز پنجاب اور پیپلز پارٹی کاسندھ ہے ۔

اس کا اندازہ اس سے لگالیجئے کہ پنجاب اور سندھ کے گورنر تو شبانہ روز کوششوں کے بعد لگادیئے گئے جبکہ پختونخوا کے گورنرشاہ فرمان عمران خان کی حکومت ختم ہوتے ہی مستعفی ہوچکے ہیں۔

وہاں نئے گورنر کی تعیناتی میں کوئی رکاوٹ بھی حائل نہیں لیکن آج تک اتحادی حکومت وہاں کے گورنر پختونخوا کا فیصلہ نہیں کرسکی حالانکہ انصاف کی بات یہ ہے کہ پختونخوا کا گورنر اے این پی کا حق ہے جبکہ بلوچستان کا گورنر پی کے میپ یا جے یو آئی کا حق ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں نے اہم مناصب اور وزارتیں میرٹ پر نہیں دیں اور زیادہ تر تعیناتیوں میں لیڈر کے ساتھ قربت کو مدنظر رکھا گیا ۔

مثلاً بعض اجنبی لوگ پیپلز پارٹی کے کوٹے میں وزیر بنے لیکن رضا ربانی کو کوئی وزارت نہیں دی گئی۔ چھوٹی جماعتوں یا اتحادیوں کے ساتھ رویے کا اندازہ اس سے لگالیجئے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے آپ کو آصف علی زرداری کے ساتھ نتھی کیا ہوا تھا۔

اب زرداری صاحب کا فرض تھا کہ حکومتی عہدوں کی بندربانٹ کے وقت وہ اے این پی کے لئے بھی جائز حصہ طلب کرتے لیکن اپنے لئے سب کچھ لینے کے باوجود انہوں نے ان کوپوچھا تک نہیں بلکہ اے این پی کی قیادت کو وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں بھی نہیں بلایا گیا ۔

اے این پی نے گورنرشپ کے لئے انتہائی مناسب اور سب کے لئے قابل قبول نام یعنی میاں افتخار حسین تجویز کیا لیکن نہ جانے کیوں ان کی تعیناتی میں تاخیر ہورہی ہے۔ دوسری طرف سندھ میں اے این پی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے اور شاہی سید سے جائز سیکورٹی تک واپس لی گئی ۔ اسی طرح آفتاب شیرپائو پی ڈی ایم کے نائب صدر تھے اور ہر قدم پر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ رہے ۔

مولانا نے اپنے لئے تو پوری طرح بارگیننگ کرکے اچھی وزارتیں لے لیں لیکن آفتاب شیرپائو کو پوچھا تک نہیں ۔اسی طرح شاہ اویس احمد نورانی پچھلے ساڑھے تین سال کے دوران ہرا سٹیج پر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ رہے لیکن مولانا صاحب نے ان کو کوئی سرکاری منصب نہیں دلوایا۔

اب وزیراعظم آفتاب شیرپائو کو بلا کر وزارت کی پیشکش کررہے ہیں لیکن ابتدا کے اس سلوک کی وجہ سے وہ ایک خوددار انسان ہونے کے ناطے وزارت نہیں لےرہے ہیں۔ یہی معاملہ محسن داوڑ کا بھی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ رویہ رہا تو جلد اے این پی جیسی جماعتیں اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ جائیں گی ۔اسی طرح باپ میں جن لوگوں کو نوازا جارہا ہے، وہ حقیقتًا باپ پارٹی کی پوری نمائندگی کے حقدار نہیں۔

اب ایک طرف یہ سب الگ الگ جماعتیں ہیں اور بعض کے تو متضاد نظریات ہیں اور دوسری طرف اگر تین بڑی جماعتوں (مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی) کا اگر یہی رویہ رہا تو بہت جلد چھوٹی جماعتیں ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گی۔اس لئے ایک پیج پر آنے کے باوجود مجھے اس حکومت کی کمپنی زیادہ دیر چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی ۔ ایک اور حقیقت یہ بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ یہ اسمبلیاں تو کیا یہ سینیٹ بھی جعلی اور سلیکٹڈ ہے ۔

حکومت کی تبدیلی یقیناً آئینی اور جمہوری طریقے سے ہوئی لیکن یہ اسمبلیاں جس طرح پہلے جعلی تھیں، اسی طرح اب بھی جعلی ہیں۔ لیڈر کے بدلنے سے جعلی اسمبلیاں اصلی نہیں بن گئیں اورکوئی بھی جعلی نظام پائیدار نہیں ہوتا۔