چھوٹا بھائی‘ عبدالستار افغانی اور حافظ نعیم ا لرحمان

میں اور چھوٹا بھائی گزشتہ چند روز سے برادر ِبزرگ کے مہمان ہیں اور مزے کر رہے ہیں۔ اس دوران ہمیں صرف دو کام ہیں‘ ایک یہ کہ ڈیرے میں بیٹھ کر گپیں ماری جاتی ہیں۔ چھوٹا بھائی ساتھ ہو تو پھرپاکستان کی صحافتی تاریخ کے بے شمار واقعات سے آگاہی ہوتی ہے۔ ایک تو قصہ گوئی اس پر ختم ہے اوپر سے تراسی سال کی عمر میں ایسی کمال کی یادداشت کہ بندہ انگشت بدنداں رہ جائے۔ دوسرا یہ کہ جب بیٹھے بیٹھے گپیں مارتے ہوئے تھک جائیں تو گاڑی میں بیٹھ کر کیرول جھیل کے کنارے کسی بنچ پر بیٹھ کر جھیل کی لہروں پر ڈوبتے سورج کا سنہری عکس دیکھیں‘ وہاں سبزے پر پھرنے والی مرغابیوں اور راج ہنسوں کی چہلوں سے لطف اندوز ہوں‘ درختوں سے ڈھکی ہوئی چھوٹی چھوٹی دیہی سڑکوں پر آہستہ روی سے گزریں یا برادرِ خورد کی تصویریں کھینچنے کی فرمائشیں پوری کرنے کی کوشش کریں‘ جو پوری کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔
چھوٹا بھائی بڑے کام کا آدمی ہے ۔ آپ اس کے ساتھ مہینوں بھی رہیں تو اس کے پاس موجود واقعات کے خزانے سے محض چند فیصد کی خوشہ چینی کر سکتے ہیں۔ تراسی سالہ عارف الحق عارف کے اندر ایک شرارتی بچہ پوشیدہ ہے جو تھوڑی سی شہ پاتے ہی باہر نکل آتا ہے اور پھر واپس اندر نہیں جاتا۔ میں نے اس بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر واپس بھیجنے کا یہ حل نکالا ہے کہ عارف الحق عارف کو اپنا چھوٹا بھائی بنا لیا ہے اور وہ کبھی کبھار تنگ آ کر میری طرف نہایت مظلومانہ نظروں سے دیکھتا ہے اور مشہورِ زمانہ فارسی کہاوت دہراتا ہے کہ ”سگ باش برادر خورد مباش‘‘۔ جواباً میں محض ہنستا ہوں اور اسے کہتا ہوں کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی بڑا بھائی نہ ہو تو بھلا پھر کون تمہیں کنٹرول کرے گا؟
عارف الحق عارف کی صحافتی زندگی ساڑھے پانچ عشروں پر مبنی ہے اور یہ سارا وقت اس نے صرف ایک ہی اخباری گروپ کے ساتھ گزارا ہے۔ گزشتہ بیس سال سے امریکہ میں مقیم ہے ۔وہ پہلے اس میڈیا گروپ کے ٹی وی کا امریکہ کا ڈائریکٹر تھا‘ تاہم اب باقاعدہ پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کی ذمہ داریوں سے فراغت حاصل کر لی ہے مگر اس میڈیا گروپ کے مالک نے زبردستی اس کے گلے میں اعزازی کارسپانڈنٹ کی ذمہ داری ڈال رکھی ہے۔ بچے ماشاء اللہ نہ صرف یہ کہ بہت خوشحال ہیں بلکہ نہایت فرمانبردار‘ خدمت گزار اور خیال رکھنے والے ہیں۔ اباجی جو کہیں وہ فرمان ہے اور اس پر عمل کرنا ان کا فرضِ اولین ہے۔ پہلے تو یہ ہوا کہ میں اس کے پاس سیکرامنٹو چلا گیا اور وہاں سے اپنی بیٹی کے پاس چلا گیا۔ پھر جب میں وہاں سے اٹلانٹک سٹی آیا تو چھوٹا بھائی اس دوران کینیڈا سے گھوم پھر کر اٹلانٹک سٹی آ گیا۔ وہاں میرا میاں چنوں سے تعلق رکھنے والا عزیز دوست خالد منیر آ گیا۔ دو دن وہاں ہم نے اکٹھے گزارے اور پھر خالد منیر نے مجھے اور عارف الحق کو فلاڈیلفیا ایئر پورٹ سے اٹلانٹا والی فلائٹ پر بٹھا دیا۔ اٹلانٹا میں برادرِ بزرگ اعجاز احمد ہمارا منتظر تھا۔
اٹلانٹا جا کر اس درجہ بندی نے بڑا کنفیوژن کھڑا کر دیا جو میں نے عارف الحق عارف کو چھوٹا بھائی قرار دے کر پیدا کی تھی۔ اعجاز میرا برادرِ بزرگ تھا اور عارف چھوٹا بھائی۔ اب اس کا اعجاز سے کیا رشتہ بنتا؟ اعجاز کا خیال تھا کہ اس رشتے سے عارف اس کا بہت ہی چھوٹا بھائی لگتا ہے‘ تاہم میں نے کہا کہ اگر عارف الحق کو اس کی عمر کی وجہ سے آپ اپنا بڑا بھائی بنا لیں تو ہم تینوں کے پاس ایک بڑا اور ایک چھوٹا بھائی ہو جائے گا۔ برادر ِبزرگ اس درجہ بندی پر بمشکل راضی ہوا مگر بہرحال مسئلہ حل ہو گیا۔ ڈیرے کے بڑے کمرے میں ایسی محفل جمتی ہے کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ روزانہ رات ساڑھے بارہ ‘ایک بجے بدقتِ تمام اٹھتے ہیں کہ صبح جلدی اٹھنا ہے۔
عارف الحق کی پٹاری میں کیا کیا قصے ہیں اور کیا کیا واقعات۔ محمد خان جونیجو کا وزیراعظم بننا‘ مخدوم حسن محمود کی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے محرومی اور میاں نواز شریف کی پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ پر تقرری۔ شورش کاشمیری‘ مولانا مودودی‘ الطاف حسین‘ پیر پگاڑا‘ جام صادق‘ مصطفی جتوئی اور ارباب رحیم کی باتیں۔ برادر ِخورد سولہ سترہ سال کی عمر میں کھوئی رٹہ آزاد کشمیر سے کراچی آیا اور پھر یہیں کا ہو رہا۔ اگلے پچاس برس اسی شہر میں صحافت کرتے گزار دیے۔ کراچی کا ذکر چلا تو پھر کراچی کے مسائل اور ان کے حل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ کراچی میں حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی پر بڑا دکھی تھا۔ کہنے لگا: کراچی کو ایک دن میں نہیں‘ برسوں کی محنت و مشقت کے بعد برباد کیا گیا ہے۔ کراچی کے آئندہ ہونے والے ضلعی حکومتوں کے الیکشن کے بارے میں بات چلی تو کہنے لگا کہ حافظ نعیم الرحمان بڑا مخلص‘ دلیر‘ ایماندار اور انتھک کام کرنے کی صلاحیت سے مالا مال شخص ہے مگر ہماری سیاست نے اب ایسی خوبیوں کو بے وقعت کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم پارٹی سے وفاداری پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ اسی دوران نعمت اللہ خان مرحوم سابقہ میئر کراچی کا تذکرہ ہوا اور عبدالستار افغانی کی یادیں تازہ ہوئیں۔ ایسے ایسے دل افروز واقعات کہ سن کر یقین نہ آئے کہ یہ لوگ اسی معاشرے کا حصہ تھے اور ہماری سیاست میں ایسے ایسے فقیر منش گوہرِ نایاب بھی ہوتے تھے۔
بتانے لگا کہ غالباً 1984ء تھا اور کراچی کے میئر عبدالستار افغانی کو موٹروہیکل ٹیکس کے پھڈے پر صوبائی حکومت نے فارغ کر دیا۔ عبدالستار افغانی زیب النساسٹریٹ پر واقع ایک شُو سٹور میں سیلز مین تھے اور ککری گراؤنڈ کے قریب لیاری میں اپنے ایک آبائی فلیٹ میں رہتے تھے۔ تین چار منزلہ یہ عمارت جس میں اوپر نیچے دو دو کمروں کے متعدد فلیٹ تھے ان کی آبائی جائیداد تھی اور اس میں ان کے دیگر بھائی بہن بھی حصہ دار تھے۔ افغانی صاحب کو اس کثیر منزلہ عمارت میں غالباً دوسری منزل والا فلیٹ ملا ہوا تھا۔ دو کمروں پر مشتمل یہ فلیٹ افغانی صاحب کا کل اثاثہ تھا۔ عبدالستار افغانی میئر کراچی بننے کے بعد بھی میئر کیلئے مختص بنگلے میں منتقل ہونے کے بجائے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اسی چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش پذیر رہے۔
چودہ اگست کے سلسلے میں ان کا جواں سال بیٹا اسی کثیر المنزلہ عمارت کی چھت پر پاکستان کا جھنڈا لگاتا ہوا گرا اور جاں بحق ہو گیا۔ جنگ گروپ کے مالک میر خلیل الرحمان مرحوم ان کے بیٹے کی تعزیت کیلئے صبح ساڑھے آٹھ بجے عارف الحق عارف کے ہمراہ ان کے گھر پہنچ گئے۔ گھنٹی دی‘ افغانی صاحب نیچے آئے اور میر خلیل الرحمان کو دیکھ کر کہنے لگے: میں ابھی آتا ہوں۔ پھر وہ تقریباً بیس پچیس منٹ کے بعد واپس آئے۔ تب تک میر خلیل الرحمان اورعارف الحق عارف نیچے گاڑی میں بیٹھے رہے۔ افغانی صاحب نے واپس آ کر میر صاحب سے تاخیر کی معذرت کی اور کہنے لگے: دراصل بچے فجرکی نماز پڑھ کر کمرے میں بستر لگا کر سو رہے تھے ہم صبح اس کمرے کو ڈرائنگ روم بنا لیتے ہیں اور رات کو بیڈ روم۔ آپ آئے تو بچے ابھی سو رہے تھے‘ انہیں اٹھاتے اور کمرہ فارغ کرواتے تھوڑی دیر ہو گئی ہے۔ چھوٹا بھائی کہنے لگا: جب افغانی صاحب میئر شپ سے فارغ ہوئے تو سرکاری گاڑی دفتر میں چھوڑی‘ رکشہ پکڑا اور دوبارہ خان شوز پر سیلز مین کی ذمہ داری سنبھال لی۔
اب سارا شہر ڈوبا پڑا ہے اور سیاسی جماعتیں باہم دست و گریبان ہیں۔ شہرِ قائد کو ایک بار پھر کسی عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کی ضرورت ہے اور فی الوقت یہ خلا صرف حافظ نعیم الرحمان ہی پُر کر سکتے ہیں۔ جب سے سیاست کاروبار بنی ہے ایماندار اور خدمت کرنے والے خال خال بھی نظر آجائیں تو غنیمت ہے۔