پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
ملتان کا 126سال اور پراگ کا 613سال پرانا کلاک
ایک پنجابی محاورے کے مطابق جس طرح نکمی کتیا کو عین شکار کے وقت حاجت آ جاتی ہے بالکل اسی طرح میں جب بھی چلنا شروع کرتا ہوں گھٹنوں میں درد شروع ہو جاتا ہے اور دایاں گھٹنا تو ایسا واہیات اور نکما ہے کہ یہ باقاعدہ سوج جاتا ہے۔ میرے گھٹنوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ڈاکٹر قیصرانی نے سنبھال رکھی ہے لیکن بقول ڈاکٹر عنایت کے‘ جب آپ اپنے گھٹنوں پر خود ترس نہ کھائیں تو بھلا ڈاکٹر قیصرانی کیا کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اب ان گھٹنوں کے چلنے کی معیاد تقریباً ختم ہو چکی ہے اور ان میں صرف ایک خاص مسافت طے کرنے کی سکت یا طاقت بچی ہوئی ہے۔ بہتر ہے کہ تم اب چلنا بند نہیں تو کم ضرور کر دو‘ اس سے تم زیادہ عرصہ نکال لو گے۔ بصورت دیگر تم چلنے پھرنے سے بالکل ہی رہ جاؤ گے۔ میں ہنس کر کہتا ہوں: کہ اگر بیٹھنا ہی ہے تو پھر گھٹنوں کی عمر عزیز میں اضافے کا فائدہ؟ بیٹھ کر بچانے سے بہت بہتر ہے کہ میں چل کر یہ مدت ختم کروں۔ اگر بیٹھنا ہی مقدر ہے تو بندہ گھوم پھر کر‘ مزے کر کے اور دنیا دیکھ کر کیوں نہ بیٹھے؟ ویسے بھی اب گاڑیوں کی طرح انسانوں کے ”گوڈے ‘‘ بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ جب یہ والے بالکل جواب دے دیں گے تب نئے گوڈے ڈلوا لوں گا۔ سو ابھی انہی سے کام چلانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ رات دیر گئے تک پراگ کی گلیوں میں گھومنے کے بعد جب کمرے میں آ کر جوتے اتارے تو ایسا سکون ملا کہ مزہ ہی آ گیا۔ کپڑے بدلتے ہوئے گھٹنے پر نظر پڑی تو معلوم ہوا ہے کہ پہلے سے ہی خاصا سوجا ہوا گھٹنا پراگ آنے کی خوشی میں مزید پھول کرکپا بن چکا ہے۔ موبائل فون میں قدم اور فاصلہ ماپنے کی ایپ کا جائزہ لیا تو علم ہوا کہ یہ مسافر پراگ کی گلیوں میں بارہ ہزار سے زائد قدم یا ساڑھے آٹھ کلو میٹر چل کر آیا ہے۔ کیا دن تھے کہ اس سے تین چار گنا فاصلہ طے کرکے بھی نہ تھکاوٹ ہوتی تھی اور نہ جسم کے اعضااحتجاج کرتے تھے۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں پاکستان سے کہیں اور چلا بھی جاؤں تو پاکستان اندر سے نہیں نکلتا اور دل اس کی خراب حالت کا موازنہ کرتے ہوئے کچوکے مارتا ہے اور سیر کا سارا لطف برباد ہو جاتا ہے‘ لیکن اب یہ تو ممکن نہیں کہ بندے کی آنکھیں بھی ہوں اور معاملات کا تجزیہ کرنے جتنی عقل بھی ہو اور ملک کی روز افزوں بگڑتی ہوئی حالت پر کفِ افسوس نہ ملے اور دل میں ملال نہ آئے۔ قوموں نے اپنے شہروں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور ہم نے اپنے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ بھلا میں کوئی طوفانِ نوح کے زمانے کا ذکر تو نہیں کر رہا‘ آنکھوں دیکھی بات کر رہا ہوں۔ میری آنکھوں کے سامنے بہت سی بھلی چیزیں غائب ہوئیں اور بہت سی خرابیاں اس معاشرے میں در آئیں۔ اعتدال‘ مروت‘ بھائی چارہ‘ قوتِ برداشت اور رواداری تو ہمارے دیکھتے دیکھتے رخصت ہوئیں۔ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی‘ ون وے کی پابندی اور ٹریفک قوانین کا احترام تو ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے لیکن اب تو یوں لگتا ہے کہ ان چیزوں نے کبھی ادھر کا رخ ہی نہیں کیا تھا۔
نیا پراگ تو کچھ کھلا اور کشادہ ہے لیکن پرانا شہر ہمارے شہروں سے بھی شاید زیادہ تنگ اور گھٹا ہوا ہے‘ لیکن صرف حسن ِترتیب اور حسن ِتربیت کی بدولت ہمہ وقت رواں ہے۔ شہر کی سڑکیں بھی بھلا سڑکیں کب ہیں‘ گلیاں ہیں اور بہت زیادہ کشادہ بھی نہیں‘ اوپر سے گاڑیاں ہیں اور بے تحاشا ہیں‘ لیکن نہ کہیں ٹریفک پھنستی ہے اور نہ کہیں ہارن سنائی دیتے ہیں‘ نہ کہیں غلط پارکنگ دکھائی دیتی ہے اور نہ کوئی جلد باز وَن وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہیں ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالتا دکھائی دیتا ہے۔ پرانے شہر کا بیشتر حصہ ون وے ٹریفک کے اصول کے مطابق رواں دواں ہے۔ سارا دن اور آدھی رات ان گلیوں میں پیدل چلتے گزاری ہے اور کہیں بھی ٹریفک قوانین کی معمولی سی خلاف ورزی بھی دکھائی نہیں دی۔بھلا اس میں ملکی معیشت کا کیا کردار ہے؟ بندہ پوچھے ان خرابیوں کو درست کرنے میں گزشتہ حکومتوں کے مچائے ہوئے گند نے کہاں رکاوٹ ڈالی ہے اور مارشل لائی آمروں نے جاتے جاتے کون سے ضابطے کے تحت آنیوالی جمہوری حکومتوں پر یہ پابندی عائد کی تھی کہ وہ اپنے سول قوانین لاگو نہیں کر سکتیں۔ بھلاوہ کون سا قانون یا ضابطہ ہے جو ہمیں شہر کو صاف رکھنے میں مانع ہے؟ کون سی گزشتہ حکومت ہمیں مجبور کر کے گئی ہے کہ اپنے آثارِ قدیمہ کو برباد کر کے رکھ دیں؟ ملتان شہر میں گنتی کی چند عمارتیں ہیں جو کسی حد تک اپنی اصل شکل و صورت میں برقرار ہیں اور ان میں بھی قدیم ترین عمارت بہاء الدین زکریاؒ کا مزار ہے جو 1268ء کے لگ بھگ تعمیر ہوا۔ اس حساب سے پانچ ہزار سال سے زائد عرصہ سے آباد شہر ملتان میں موجود قدیم ترین عمارت بھی محض 755 سال پرانی ہے۔تاہم یہ تاریخ بھی اس عمارت کی تعمیر اول کی ہے۔ بعد میں متعدد بار ہونے والی مرمت اور مزار کی اونچائی کے مسئلے پر مزار سے ملحقہ پرہلاد مندر سے ہونے والی مقابلہ بازی کے نتیجے میں مزار کی بلندی زیادہ کرنے جیسی تبدیلیوں کے باعث یہ عمارت بھی اپنی اصل شکل میں موجود نہیں۔ رکن الدین عالم ؒکا مقبرہ شاید واحد پرانی عمارت ہے جو آج بھی اپنی اصل شکل و صورت میں موجود ہے۔ یہ مقبرہ غیاث الدین تغلق نے اپنے لئے تعمیر کروایا تھا تاہم اپنے مرشد کی وفات پر ازراہِ احترام انہیں اپنے لئے تعمیر کردہ مقبرے میں دفن کردیا۔ یہ مقبرہ بھی 24-1320ء میں تعمیر ہوا۔ تیسری قدیم ترین عمارت شاہ شمس سبزواریؒ کا مقبرہ ہے جو 1330ء میں تعمیر ہوا۔ ویسے تو مزارات کے سلسلے میں ملتان میں سب سے پہلے تعمیر ہونے والا مقبرہ شاہ یوسف گردیزی کا تھا جو 1152ء میں تعمیر ہوا مگر بعد ازاں 1548ء میں سارا مقبرہ دوبارہ سے تعمیر کیا گیا۔
اسی طرح ملتان کے نواح میں خانیوال کی تحصیل کبیر والا کے قصبہ نواں شہر کے ساتھ موضع کھتی چور میں سر سبز کھیتوں کے درمیان ایک چوکور عمارت ہے۔ یہ محمود غزنوی کے لشکر کے ایک سالار خالد ولید کا مقبرہ ہے جو بڑی سائز کی اینٹ سے بنا ہوا ہے۔ اپنے ڈیزائن کے حوالے سے یہ مقبرہ خاصی غیر روایتی قسم کی عمارت پر مشتمل ہے۔ چوکور بلند عمارت کسی قلعے کی فصیل جیسی ہے اور ایک طرف سے اوپر سیڑھیاں جاتی ہیں۔ بلندی پر مقبرے کا روایتی گنبد ہے اور اندر قبر ہے۔ قبلہ رخ محراب ہے جو قرآنی آیات پر مشتمل پکی ہوئی اینٹوں کو جوڑ کر بنائی گئی ہے۔ اس مقبرے کے بارے میں روایت ہے کہ یہ ملتان کے گورنر علی بن کرماخ نے غالباً 1170ء کے لگ بھگ تعمیر کروایا تھا۔ یہ خطے میں شاید سب سے قدیم ترین عمارت ہے جو اپنی اصل شکل اور تعمیر میں موجود ہے‘ لیکن یہ ملتان شہر سے تقریباً پینتالیس کلو میٹر دور ہے اور ہم اسے ملتان میں شمار نہیں کرتے۔
ملتان شہر میں مزارات سے ہٹ کر سب سے قدیم عمارت شاید ملتان کاگھنٹہ گھر ہے۔ 1883ء میں انگریز حاکموں نے میونسپل ایکٹ پاس کیا‘ تب شہری معاملات چلانے کیلئے ایک دفتر کی ضرورت پیش آئی۔ اس طرح بارہ فروری 1884ء کو اس عمارت کی تعمیر شروع ہوئی جو چار سال میں مکمل ہوئی۔ یہ عمارت ملتان کے شہید حکمران نواب مظفر خان سدوزئی کی تباہ کی گئی حویلی کی جگہ پر بنائی گئی۔ ہال اور عمارت کا نام رپن ہال جبکہ کلاک ٹاور کو نارتھ بروک ٹاور کا نام دیا گیا۔ اس ٹاور پر لگنے والا کلاک 1884ء کا بنا ہوا تھا۔ گھنٹہ گھر کی عمارت کی بلند ترین منزل پر لگا ہوا منوں وزنی یہ کلاک 2010 ء میں چوری ہو گیا۔ ہم اپنا 126سال پرانا کلاک نہ سنبھال سکے جبکہ ادھر پراگ کے اولڈ ٹاؤن سٹی ہال میں 1410ء کا بنا ہوا Astronomical کلاک نہ صرف محفوظ ہے بلکہ ابھی تک باقاعدہ چل بھی رہا ہے۔