موجیں لگی ہوئی ہیں

بعض لطیفے ایسے ہوتے ہیں کہ خواہ کتنے ہی گھسے پٹے‘ پرانے بلکہ پھٹے پرانے ہی کیوں نہ ہو جائیں‘ اپنی نوعیت اور صورتحال کے باعث بالکل نویں نکور لگتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاید آج کی صورت کو مدنظر رکھتے ہوئے گھڑے گئے ہیں۔ اسی قسم کا ایک لطیفہ ہے کہ کسی نے راجہ رنجیت سنگھ کی مڑھی کے باہر کھڑے ہوئے سردار چوکیدار سے پوچھا کہ کیا وہ اندر جا سکتا ہے؟ چوکیدار نے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے اسے کہا کہ وہ اندر نہیں جا سکتا۔ انکار سن کر اس شخص نے چوکیدار سے پوچھا کہ وہ اندر کیوں نہیں جا سکتا؟ چوکیدار نے اپنے ڈنڈے کو زمین پر مارتے ہوئے اسے کہا کہ میں چوکیدار ہوں اور مڑھی والوں نے مجھے یہاں کھڑا کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ میں کسی ایرے غیرے کو مڑھی کے اندر نہ جانے دوں۔ اس شخص نے اندر جاتے ہوئے ایک دوسرے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا کہ وہ شخص بھی تو اندر جا رہا ہے؟ چوکیدار زور سے ہنسا اور کہنے لگا۔ بادشاہو! آپ بھی عجیب باتیں کر رہے ہو۔ اس نے بھلا مجھ سے پوچھا ہی کب ہے جو میں اسے منع کرتا۔ اگر وہ مجھ سے پوچھتا تو کیا خیال ہے میں اسے اندر جانے دیتا؟ تم نے پوچھا ہے تو میں نے منع کر دیا ہے۔
ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جو قانون کی پابندی کر رہا ہے اسے رگڑا لگ رہا ہے۔ جو باقاعدہ کنکشن لگوا کر بجلی استعمال کر رہا ہے اس پر ہر ماہ مہنگائی کا بم گرایا جا رہا ہے۔ جو ٹیکس دے رہا ہے اس کو مزید نچوڑا جا رہا ہے اور جو کسی ضابطے کا پابند ہے وہ قواعد کی گھمن گھیریوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اس ملک میں جس نے کنڈا ڈال رکھا ہے اسے اس بات کی ٹکے کی فکر نہیں کہ بجلی کتنے روپے یونٹ میں پڑ رہی ہے اور بل میں کتنی قسم کے ٹیکس لگ کر آ رہے ہیں۔ اسے اس بات کی بھی کوئی چِنتا نہیں کہ گزشتہ ماہ بجلی کے یونٹ میں کتنے روپے کا اضافہ ہوا تھا اور اس ماہ مزید کتنے روپے فی یونٹ کا بوجھ اس کی کمر پر لادا گیا ہے۔ اس کے جوتے کو پروا ہے کہ سرکار بجلی کے بل میں اس ریڈیو کی فیس شامل کر رہی ہے جو اس نے کبھی سنا ہی نہیں۔ اس سے پوچھیں تو وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ بے شک بجلی کے بل میں اس اسلحہ لائسنس کی فیس بھی شامل کر دی جائے جو اس کی تین پشتوں میں سے کسی نے حاصل نہیں کیا۔ جب اس نے بل ہی نہیں دینا تو اسے بھلا کسی ٹیکس کی‘ فی یونٹ بجلی کی قیمت کی یا ریڈیو اور ٹی وی کی فیس کی کیا فکر ہے؟ یہ سارے جھنجٹ اور مسائل تو اس کیلئے ہیں جو بجلی کا باقاعدہ کنکشن لگواتا ہے اور اس کا بل ادا کرتا ہے بلکہ کنڈے والے پر تو لعنت بھجیں۔ جو لوگ ہر چوتھے دن بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھا کر عام آدمی کو‘ جو پہلے سے ہی بے پناہ مسائل کا شکار ہے‘ کے حالات کو ناقابلِ برداشت حد تک خراب کرنے کے ذمے داران ہیں بذاتِ خود اپنی جیب سے بجلی کا بل ادا نہیں کرتے۔ فیصلہ کرنے والے سرکاری افسروں کا بل حکومت ادا کرتی ہے۔ بجلی کے محکمہ کے ملازمین کو مفت یونٹ ملتے ہیں اور ان فیصلوں پر مہر ثبت کرنے والے وزیروں‘ مشیروں کو مفت بجلی کی سہولت میسر ہے۔ یعنی سارے کا سارا بوجھ ان کے کندھوں پر ہے جو پہلے سے ہی بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں اور نہ صرف وہ اپنا بل بھی ادا کر رہے ہیں بلکہ بجلی چوروں‘ مفت خوروں اور سرکاری افسروں کے بل بھی وہی ادا کر رہے ہیں۔ یعنی جو بل کے چکر میں نہیں پڑتا اس کے مزے ہیں اور سارا بوجھ ان پر ہے جو بجلی کا باقاعدہ کنکشن لگوانے کے گنہگار ہیں۔
اس ماہ سے واسا نے بھی گھروں میں پانی سپلائی کرنے کے عوض بھیجے جانے والے بل کی رقم پانچ گنا بڑھا دی ہے۔ ظاہر ہے یہ رقم وہی شریف آدمی ادا کرے گا جس نے واسا کے پانی کا کنکشن باقاعدہ اور قانونی طور پر لگوایا ہوا ہے‘ جس شخص نے پرائیویٹ طور پر سڑک کاٹ کر چپکے سے سڑک کے نیچے سے غیر قانونی کنکشن لگوایا ہوا ہے‘ اسے تو اس بل میں اضافے کی رتی برابر پروا نہیں۔ اس نے ایک ہی بار واسا کے کسی اہلکار کو یا پرائیویٹ پلمبر کو دوچار ہزار روپے دے کر اپنا جو جگاڑ لگایا ہے وہ ساری عمر چلتا رہے گا۔
پنجاب حکومت نے نئے اسلحہ لائسنس کے اجرا کی فیس دس ہزار روپے سے بڑھا کر پچاس ہزار روپے کر دی ہے۔ اب یہ فیس وہی لوگ ادا کریں گے جو لائسنس بنوائیں گے‘ بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے والوں کے مزے ہیں۔ نہ انہیں ابتدائی فیس ادا کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہر سال تجدیدی فیس کے جھنجٹ میں پڑنے کی فکر ہے۔ بلکہ ان کا بغیر لائسنس والا اسلحہ ان کیلئے باقاعدہ ذریعہ آمدنی ہے‘ وہ اس سے بینک لوٹ سکتے ہیں‘ اسے ڈکیتی میں استعمال کر سکتے ہیں‘ اس کے زور پر کسی سے موبائل چھین سکتے ہیں اور اس کے طفیل کسی کا پرس نکلوا سکتے ہیں۔ یعنی آم کے آم اور گٹھیلوں کے دام۔ مصیبت ان کیلئے ہے جو سرکار سے باقاعدہ لائسنس لینے کی حماقت کرتے ہیں۔ پہلے لائسنس بنوانے کی خجالت سے گزرتے ہیں پھر اس کے اجرا کی فیس دیتے ہیں اور پھر سال بہ سال اس کی اضافہ شدہ تجدید کی فیس دیتے ہیں۔ سرکار کے پاس یہ توفیق تو نہیں کہ بلا لائسنس اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی کر سکے یا ان کو جرمانہ کر سکے لیکن اس کے پاس آسان طریقہ ہے کہ جو شرفا اس کے پاس لائسنس دار اسلحہ رکھنے کی حماقت کے باعث پھنسے ہوئے ہیں انہی پر مزید بوجھ ڈال دیا جائے اور بیٹھے بٹھائے اپنی آمدن دوگنی تگنی کر لی جائے اور یہی حال دیگر معاملات میں بھی چل رہا ہے۔
اس ملک میں ایک چکر فائلر اور نان فائلر کا چل رہا ہے۔ فائلر نہ صرف ٹیکس ادا کرتا ہے بلکہ اپنی آمدنی کی‘ اپنے اخراجات کی‘ قرضوں کی‘ جائیداد کی اور ہمہ قسم کی وصولیوں اور ادائیگیوں کی تفصیل فراہم کرتا ہے اور اپنی آمدنی پر سرکاری مقرر کردہ سلیب کے نرخ کے مطابق ٹیکس ادا کرتا ہے۔ دوسری طرف نان فائلر ہے جو اپنی آمدنی کا نہ کوئی حساب دیتا ہے اور نہ ہی اس پر ٹیکس دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ مفت بر ہے اور اپنی آمدنی میں سے سرکار کو کچھ بھی نہیں دیتا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ فائلر پر احسانِ عظیم فرماتے ہوئے سرکار اسے کچھ بہت ہی شاندار رعایتیں فراہم کرتی ہے۔ اگر فائلر گاڑی خریدے تو وہ اگر دو فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس بھرتا ہے تو حکومت نان فائلر کو اس بات کی سزا دیتے ہوئے اس سے چار فیصد ودہولڈنگ ٹیکس وصول کرتی ہے‘ یعنی جو بندہ دس‘ بیس یا تیس فیصد ٹیکس دیتا ہے اس سے دو فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لے کر اس پر احسان عظیم کیا جاتا ہے اور دوسری طرف نان فائلر جو سرکار کو ایک پیسہ ٹیکس بھی نہیں دیتا وہ تین چار کروڑ روپے کی لگژری گاڑی خریدتا ہے تو محض چار فیصد ٹیکس دے کر بری الذمہ ہو جاتا ہے‘ یعنی بیس پچیس فیصد بلکہ بعض اوقات اس سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے کو محض دو فیصد کی رعایت دے کر احسان مند کیا جاتا ہے‘ لیکن تین چار کروڑ روپے کی نئی گاڑی خریدنے والے سے دو فیصد زائد ٹیکس لے کر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور اسے کھلی چھٹی دی جاتی ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرے اور دو فیصد فالتو ٹیکس دے کر گاڑی خریدے‘ بینک سے لین دین کرے‘ زمین خریدے یا کسی قسم کی دیگر معاشی سرگرمی میں حصہ لے۔
ملکِ عزیز میں بجلی چوری کرنے والا مزے میں اور بل دینے والا مصیبت میں ہے اور چوروں کا بل ادا کرتا ہے۔ پانی چور مزے میں ہے اور شریف آدمی پانچ گنا بل دیتا ہے۔ بغیر لائسنس اسلحے والا اپنے اس ناجائز اسلحے سے آمدنی وصول کر رہا ہے اور لائسنس دار اس پر پانچ گنا فیس دے رہا ہے۔ یہ تو صرف دو چار مثالیں تھیں۔ آپ زندگی کے کسی شعبے کو لے لیں‘ پاکستان میں وہی بندہ مصیبت میں ہے جو قانون کی پاسداری کرتا ہے‘ جس نے اس سسٹم اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے وہ مزے کر رہا ہے اور اس کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔