معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
پھروہی کتاب اور کہانی… (2)
بچوں کے ادب پر اس بین الاقوامی کانفرنس کے تیسرے اورآخری دن کے تیسرے اجلاس کا عنوان ”بچوں میں کتب بینی کے فروغ کیلئے ممکنہ اقدامات‘‘ تھا اور اس سیشن کے صدارتی پینل میں بچوں کے ادب کے حوالے سے نہایت معتبر نام جناب امان اللہ نیر شوکت اور علی اکبر عباس کے ہمراہ یہ عاجز بھی شامل تھا۔ اس اجلاس میں بچوں میں کتاب بینی کی روزافزوں انحطاط پذیر حالت کو بہتر بنانے اور بچوں میں اس سلسلے میں شوق پیدا کرنے کیلئے مختلف اقدامات کا اعادہ کیا گیا۔
اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ بچوں کے ادب کو جدید تقاضوں کو مدنظررکھتے ہوئے ڈیجیٹل میڈیا کے پلیٹ فارم پر منتقل کیا جائے۔ سمارٹ فونز پر بچوں کیلئے آسان ایپس متعارف کروائی جائیں جن پر بچوں کی با تصویر کہانیاں ہوں‘ بچوں کیلئے نظمیں ہوں اور بچوں کی کتب و رسائل کی ڈائون لوڈ وغیرہ کی پیچیدگیوں کو ممکنہ حد تک کم کرتے ہوئے ایسے فارمیٹس میں قابل ِرسائی بنایا جائے جو بچوں کیلئے استعمال میں آسان ہوں۔
میرا موقف تھا کہ بچوں کواس سلسلے میں مائل اور قائل کرنے کیلئے محض سیمینارز‘ مذاکرے‘ اجلاس یا کانفرنسیں کافی نہیں بلکہ یہ سب کچھ اس وقت تک بے اثر اور بے نتیجہ رہے گا جب تک اس سلسلے میں والدین کی شرکت اور ابتدائی کلاسوں میں کتاب کی طرف رغبت دلانے والے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ ان اجلاسوں اور کانفرنسوں کا اس وقت تک کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو گا جب تک اس میں حکومتی سطح پر کتب بینی باقاعدہ نصاب کا حصہ نہیں بنتی اور والدین اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے۔ والدین کی جانب سے پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ بچے کو صرف نصابی کتب تک محدود رکھنے کے اپنے طرزِ عمل کو تبدیل کریں اور غیر نصابی کتب کو بھی اہم نصابی سرگرمی سمجھتے ہوئے بچوں کو ان کتابوں کی طرف مائل کریں اور کتب بینی میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ دوسری یہ کہ وہ بچوں کیلئے تھوڑا وقت نکالتے ہوئے ابتدائی سالوں میں انہیں کہانیاں سنائیں۔ پہلے یہ کام نانی یا دادی سرانجام دیتی تھیں لیکن جوائنٹ فیملی سسٹم میں بتدریج کمی کے باعث اب اگر اس ذمہ داری میں ماں بھی شریک ہو جائے تو نتائج بہتر ہوسکتے ہیں ۔اگر ایک بار بچے کوکہانی سننے کی لت پڑ گئی تو وہ اپنی کہانی سننے کے شوق کی تکمیل کیلئے خود کتاب تک پہنچے گا اوراس کوکہانی سننے کا شوق وہیں لے کر جائے گا جس طرف ہم اسے لے جانا چاہتے ہیں۔
اس سلسلے میں دوسرا اہم کردار سکول کا ہے جہاں بچے کو ابتدائی کلاسوں میں ہی کتاب سے دوستی پر مائل کیا جا سکتا ہے۔ جب میری جنریشن کے لوگ پرائمری سکولوں میں ہوتے تھے تب سکولوں میں بزم ادب کا ہفتہ وارپیریڈ ہمارے ٹائم ٹیبل کا لازمی حصہ تھا۔ اس پیریڈ میں بچے شعر‘ نظمیں‘ لطائف اور کہانیاں سناتے تھے۔ استاد ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے تھے نظموں اور کہانیوں کے انتخاب کیلئے وہ اخبارات کے بچوں کیلئے مختص صفحات‘ بچوں کے رسائل اور کتابوں کی نشاندہی اور رہنمائی کرتے تھے۔ اس پیریڈ میں بیت بازی کے مقابلے ہوتے تھے اور کوئز پروگرام بھی تشکیل دیے جاتے تھے۔ ریڈیو پاکستان ملتان جب نیا نیا بنا تو میں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں کلاس ہفتم میں پڑھتا تھا‘ تب ریڈیو پر کوئز مقابلے ہوتے تھے اور اپنے سکول کی طرف سے میں ان مقابلوں میں شرکت کیلئے جاتا تھا۔ ان مقابلوں میں حصہ لینے کی غرض سے ہم معلوماتِ عامہ والی کتاب اور اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ کرتے تھے۔ یہی حال بزم ادب کا تھا۔ میرے پاس اس زمانے میں ریڈیو کی جانب سے انعام میں حاصل کردہ کتاب پڑی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے تب ماسٹر عبدالقادر صاحب ہمیں سکول کی لائبریری سے متعلقہ کتب کی تلاش اور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے‘ تاہم یہ صرف اس لیے ممکن ہو سکا کہ ہمیں میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں ماسٹر غلام حسن اور اس سے بڑھ کر نہایت عمدہ شاعر اور ادیب ہیڈ ماسٹر خادم کیتھلی مرحوم کی سرپرستی حاصل تھی۔ مرحوم خادم کیتھلی صاحب نے غنچۂ ادب کے نام سے سکول میں ایک تنظیم بنائی ہوئی تھی جو طلبہ کوہفتہ وار ادبی سرگرمیوں میں شمولیت کی جانب راغب کرتی تھی۔ وہ سکول میں اس تنظیم کے زیر اہتمام ایک سالانہ فنکشن کا اہتمام بھی کرتے تھے جس میں ٹیبلو‘ کوئز مقابلے‘ تقریری مقابلے‘ نعت خوانی اور بیت بازی کے علاوہ دیگر کئی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر مشتمل پروگرامز ہوتے تھے ۔سکول میں خواہ مختصر سی ہی سہی مگر لائبریری ہوتی تھی‘ پھرآہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ قاری ختم ہوئے تو محلوں میں قائم آنہ لائبریریاں بھی عنقا ہو گئیں۔
برسوں پہلے جرمنی کی حکومت نے پاکستان میں پرائمری اور ہائی سکولوں میں لائبریریوں کے قیام کی غرض سے لمبا چوڑا فنڈ مہیا کیا۔ صحیح رقم تو مجھے یاد نہیں شاید چھ ارب روپے کے لگ بھگ تھی اور اس کے تحت سکولوں میں پہلے سے موجود لائبریریوں کو مزید کتب اور جن سکولوں میں لائبریری نہیں تھی وہاں لائبریری کا قیام بنیادی مقصد تھا۔ تاہم ہوا یہ کہ محکمہ تعلیم نے پبلشروںاور مصنفوں کی ملی بھگت سے اس فنڈ کو تکنیکی طریقے سے غتربود کرنے کا منصوبہ بنایا اور پنجاب کے اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ سکولوں کیلئے ہر کتاب کی اٹھارہ ہزار کاپیاں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس منصوبے میں شامل پبلشروں اور مصنفوں نے محکمہ تعلیم سے مل کر اپنی اپنی کتب کو اس اٹھارہ ہزار والی فہرست میں شامل کروا لیا۔ جن مصنفین کی کتاب کا پانچ سو کا ایڈیشن نہیں بکتا تھا انہوں نے اپنی وہی کتاب اٹھارہ ہزار کی تعداد میں چھاپی اور بیچ دی۔ دوسرا کھانچہ یہ لگایا گیا کہ نئے ایڈیشن میں کتاب کی قیمت بھی بڑھا دی گئی اس طرح مصنف‘ پبلشر اور محکمہ تعلیم کے کھڑپینچوں نے مل کر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے۔
اس فنڈ سے ایسی ایسی کتابیں خرید کر پرائمری اور ہائی سکولوں میں بھجوائی گئیں جو ان سکولوں کے بچوں کی ذہنی استعداد‘ دلچسپی اور عمر سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ ایسے ایسے موضوعات پر مبنی کتب سکولوں میں فراہم کی گئیں جن کا ابتدائی کلاسوں اور ہائی سکول کے بچوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ برسوں تک پبلشروں کے شیلفوں اور گوداموں میں پڑی کتب کو اس فنڈ کے پیسے بٹورنے کی خاطر سکولوں میں پیل دیا گیا۔ عملی طور پر اس فنڈ کی بیشتر رقم ان تین فریقوں نے آپس میں بانٹ کر برابر کر دی۔ سکولوں کی لائبریریاں اس فنڈ کے آنے سے پہلے جتنی بانجھ اور ویران تھیں اس فنڈ کے استعمال کے بعد ان لائبریریوں میں کتب کی تعداد میں تو اضافہ ہو گیا لیکن جو اصل مقصد تھا وہ پورا نہ ہو سکا۔ لائبریریاں بچوں کی دلچسپی کے حوالے سے اپنے آپ میں رتی برابر تبدیلی نہ لا سکیں اور بچوں کو لائبریری کے ذریعے کتاب سے جوڑنے کا یہ منصوبہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ شنید ہے کہ جرمنی کی حکومت نے اس سلسلے میں دوسری قسط کے طور پر اور رقم بھی بھجوانی تھی لیکن جیسے ہی انہیں اپنے پہلے سے فراہم کردہ فنڈ کا حال معلوم ہوا انہوں نے کانوں کوہاتھ لگاتے ہوئے آئندہ اس قسم کی حرکت کرنے سے توبہ کر لی اور ہمارے سکولوں کی لائبریریاں الماری میں بند کتابوں کے ایسے قبرستان میں تبدیل ہو گئیں جہاں ان مرحوم کتابوں پر فاتحہ پڑھنے بھی کوئی نہیں آتا۔ آپ خود سوچیں جن کتب میں قاری کی دلچسپی کا کوئی سامان نہ ہو بھلا انہیں کون پڑھے گا؟ (جاری)