مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
ملکِ عزیز میں کاروبار‘ تجارت‘ صنعت و حرفت اور درآمد و برآمد کے معاملات مسلسل مائل بہ خرابی ہیں اور کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی۔ روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی سیکٹر سے‘ کسی یونٹ‘ ادارے اور مل کی بندش کی خبریں اب معمول کی بات بن چکی ہیں۔ اب تازہ ترین خبر ایک آئل ریفائنری کی بندش کے بارے میں ہے اور اس ریفائنری کو مجبوراً اپنی پیداوار بند کرنی پڑ رہی ہے۔ اس بندش کی وجہ خام مال کی کمی‘ مالی مشکل‘ درآمدی مسائل یا ڈالر وغیرہ کی کمی ہرگز نہیں‘ اس بندش کی وجہ یہ ہے کہ اس ریفائنری میں اپنے صاف شدہ ڈیزل کو مزید سٹور کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے‘ لہٰذا مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ وہ مزید اپنا خام تیل صاف کر کے اس سے پیدا ہونیوالے ڈیزل کو کہاں رکھیں؟ اب آپ سوال کر سکتے ہیں کہ ڈیزل سٹور کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ اپنے صاف شدہ ڈیزل کو مارکیٹ میں بیچ کیوں نہیں دیتے؟آپ کا سوال اپنی جگہ درست ہے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ مارکیٹ میں اس ڈیزل کی ڈیمانڈ یعنی طلب اس کی رسد سے کہیں کم ہے اور آئل ریفائنری کے پاس اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ مزید خام تیل کو صاف کرنا بند کر دے تاکہ نہ مزید تیل صاف ہوگا اور نہ ہی اسے ذخیرہ کرنے کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کے پاس مزید ڈیزل فروخت کرنے کیلئے مارکیٹ سے طلب نہیں اور ان کے پاس اس مزید صاف شدہ ڈیزل کو اپنے پاس ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں تو پھر اس کا صرف ایک ہی حل بچتا ہے اور وہ یہ کہ وہ مزید پیداوار بند کر دیں‘ لہٰذا انہوں نے اس آخری حل کو اختیار کرتے ہوئے اپنی ریفائنری بند کر دی ہے۔
اب ایسا بھی نہیں کہ لوگوں نے تیل کی قیمت میں ہوشربا اضافے کے باعث اپنی گاڑیوں میں ڈیزل ڈلوانا بند کر دیا ہے۔ ظاہر ہے ڈیزل کوئی موٹر سائیکل میں تو نہیں ڈلواتا کہ مہنگائی کے با عث وہ بچت کرتے ہوئے اب موٹر سائیکل کم چلائے اور اپنی ماہانہ بجٹ کی چادر کو کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر پورا کرنے کی کوشش کرے۔ ڈیزل کمرشل گاڑیوں‘ بسوں‘ ٹرکوں‘ ٹریکٹروں‘ جنریٹروں وغیرہ میں استعمال ہونے والا فیول ہے اور اس کے استعمال والے کسی شعبے میں بہرحال ابھی تک کوئی قابل ذکر کمی یا تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے ملکی استعمال میں کوئی قابلِ ذکر کمی بھی واقع نہیں ہوئی تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ اس آئل ریفائنری کے ڈیزل کی مارکیٹ میں کمی ہو گئی ہے؟ اور اسی ریفائنری پر ہی کیا موقوف؟ اس وقت تقریباً ہر ریفائنری کا یہی حال ہے اوراس کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ملک میں سمگل شدہ ڈیزل کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جس کے نتیجے میں اب ملکی آئل ریفائنریوں میں صاف ہونے والے پٹرول اور بالخصوص ڈیزل کے ملکی استعمال میں ناقابلِ یقین حد تک کمی آ گئی تھی کہ آئل ریفائنریوں نے اپنے غیر فروخت شدہ ڈیزل کو اپنے سٹوریج ٹینکوں میں جمع کرنا شروع کر دیا مگر اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے پاس اپنے صاف شدہ ڈیزل کو مزید سٹور کرنے کی گنجائش باقی نہیں بچی۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں یہ صرف اس ایک آئل ریفائنری کا قصہ نہیں ہے‘ اس سے پہلے بھی ایک دو آئل ریفائنریاں یہی کچھ کر چکی ہیں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ ریفائنریاں خام تیل سے صرف وہ والا تیل نکالنا شروع کر دیں جس کی مارکیٹ میں کھپت ہو۔ خام تیل سے ہر قسم کا فیول بیک وقت نکلتا ہے ‘ایسا ممکن نہیں کہ وہ اپنے خام تیل سے سارے کا سارا سپر پٹرول یا مٹی کا تیل نکالنا شروع کر دیں۔ اس خام تیل سے مختلف اقسام کے فیول مختلف شرحِ فیصد سے حاصل ہوتے ہیں مثلاً خام تیل سے مٹی کے تیل کی شرح 8.5 فیصد کے لگ بھگ ہے اور ڈیزل کی شرح 29فیصد کے لگ بھگ ہے تاہم مختلف اقسام کے خام تیل یعنی کروڈ آئل سے مختلف اقسام کے فیول کے نکلنے کی شرح تھوڑی بہت اونچی نیچی ہو سکتی ہے لیکن یہ کسی طور ممکن نہیں کہ آپ کروڈ آئل سے صرف اپنا من پسند فیول حاصل کر سکیں۔ یہ ایک پیکیج ڈیل ہے اور آپ کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ملکی آئل ریفائنریوں کے یوں یکے بعد دیگرے بند ہونے کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستان میں سمگل شدہ ایرانی ڈیزل کی آمد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ بعض جگہوں میں تو نصف سے زیادہ یہی سمگل شدہ ڈیزل استعمال ہو رہا ہے اور اس غیر قانونی طور پر آنے والے ڈیزل اور پٹرول نے ملکی آئل ریفائنریوں سے حاصل ہونے والے اس ڈیزل اور پٹرول کی فروخت کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ملکی آئل ریفائنریوں سے حاصل ہونے والا فیول ڈیوٹیوں وغیرہ کی ادائیگی کے بعد سمگل شدہ تیل کی نسبت بہت مہنگا پڑتا ہے اور پٹرول پمپ مالکان اس سمگل شدہ سستے تیل کی فروخت سے اپنی آمدنی کو کئی گنا زیادہ کر لیتے ہیں۔ ملکی آئل ریفائنریوں سے حاصل ہونیوالے نسبتاً مہنگے تیل اور سمگل شدہ سستے تیل کے درمیان قیمتوں کے باہمی فرق کا فائدہ خریدار کو نہیں ہوتا بلکہ یہ سارا منافع سمگلر‘ ان کے سہولت کار اور پٹرول پمپ والے باہمی تعاون سے آپس میں مل کر ڈکار جاتے ہیں۔
اب یہ سمگلنگ کسی پڑیا یا بوتل میں تو نہیں ہو رہی کہ محافظوں اور ذمہ داروں کی نظروں سے اوجھل رہے۔ یہ ساری سمگلنگ ٹینکروں اور ٹرالروں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اور صرف اسی تیل تک ہی کیا‘ گندم‘ چینی اور کھاد کی پاکستان سے ہمسایہ ملکوں میں سمگلنگ بھی اسی زور و شور اور دھڑلے سے ہو رہی ہے۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ملک کے پاس ڈالر نہیں ہیں چلیں اس بہانے تیل سستا بھی مل رہا ہے اور ادائیگی بھی ڈالروں کے بجائے بارٹر سسٹم پر ہو رہی ہے۔ بظاہر تو یہ منطق معقول دکھائی دیتی ہے لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ سستے سمگل شدہ تیل کی کم قیمت کا کوئی فائدہ عوام کو تو منتقل نہیں ہو رہا جبکہ ملکی آئل ریفائنریوں سے ملنے والے ڈیوٹیوں اور ٹیکسز کی مد میں قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے اور اس تیل کی مد میں بارٹر سسٹم کے ذریعے جانے والی گندم کے نتیجے میں گندم کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جب ہمیں مہنگی گندم درآمد کرنی پڑے گی تو اس کی ادائیگی میں اس سے زیادہ ڈالر خرچ ہو جائیں گے جتنے کہ تیل کی سمگلنگ کی مد میں ہم بچائیں گے۔
باقی ساری باتیں تو ر ہیں ایک طرف‘ سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر تیل‘ گندم‘ چینی اور کھاد کی سمگلنگ جاری ہے اور سب کو دکھائی بھی دے رہی ہے۔ اوپر سے اس دھڑلے والی سمگلنگ کی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر عرصے سے گردش کر رہی ہیں تو یہ سب کچھ رُک کیوں نہیں رہا؟ روزانہ کے درجنوں ٹرک‘ ٹرالر اور ٹینکر ادھر سے اُدھر جا رہے ہیں۔ اربوں روپے سے لگائی گئی باڑ اور اربوں روپے کے خرچے پر چلنے والے وہ سرکاری ادارے جو سمگلنگ کی روک تھام اور ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہیں کیا کر رہے ہیں؟ ایسی صورت میں جبکہ ذمہ داروں کو دیوہیکل ٹرک دکھائی نہیں دیتے‘ دہشت گرد سرحد پار کرتے ہوئے کیسے دکھائی دے سکتے ہیں؟ اس سمگلنگ سے نہ عوام کو سستا پٹرول مل رہا ہے اور نہ سرکار کو ٹیکس اور ڈیوٹی حاصل ہو رہی ہے‘ مگر سمگلروں‘ سہولت کاروں اور فروخت کنندگان کی پانچوں گھی میں ہیں۔ بقول شاہ جی اگر کسی کو یہ سب کچھ دکھائی نہیں دے رہا تو ان کی صلاحیتوں پر تف ہے اور اگر دکھائی دیتا اور روک نہیں رہے تو پھر ان کی نیت پر تف ہے۔
پتا پتا‘ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے ‘گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے