کنگلے نواب

اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے جانے والے کاروبار کا معاملہ یکسر مختلف ہے؛ تاہم دنیاوی کاروبار میں یہ تو کسی طور ممکن نہیں کہ آپ اپنا مال تادیر قیمت خرید سے کم پر فروخت کرتے ہوئے اپنی دکان یا کاروبار کو مسلسل چلاتے رہنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگر آپ سو روپے میں خریدی جانے والی شے کو مسلسل ننانوے روپے میں فروخت کرتے رہیں اور اکنامکس کی زبان میں دیگر تمام عوامل یکساں رہیں تو ایسی دکان جلد نہ سہی‘ تھوڑی دیر سے ہی سہی‘ مگر بہرحال بند ہو جائے گی۔ یہ کلیہ کوئی راکٹ سائنس نہیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں اوران کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے نام نہاد ماہرینِ معاشیات کو اللہ جانے کیوں سمجھ نہیں آ رہا؟ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ ان نام نہاد معیشت دانوں نے گزشتہ چند عشروں کے دوران آہستہ آہستہ برباد ہوئی معیشت کو نہایت تیزی سے تباہی کی طرف گامزن کر دیا ہے اور اس پر مستزادیہ کہ یہی تین چار ماہرین معاشیات ہیں جو ہر حکومت کے ساتھ یا تو اس طرح آجاتے ہیں جیسے دلہے کے ساتھ شہ بالا آتا ہے‘ جیسے اپنے اسحاق ڈار اور بعض اپنا سیاسی قبلہ بدل کر آجاتے ہیں جیسے حفیظ پاشا اور شوکت ترین۔ یہ نابغے ہر بار اپنی گزشتہ ناکام معاشی پالیسیوں کو نئے سرے سے پالش کرنے کے بعد معاشی مسیحا بن کر قوم کو کسی نئے طریقے سے احمق بنانے کیلئے آ جاتے ہیں۔ ہر حکومت نے بار بار وہی کھوٹے سکے چلائے ہیں جو اس ملک کی معیشت کو محض قرضوں کی بیساکھیوں سے چلانے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں ان کے سرخیل‘ قرض لینے کے فن میں یدطولیٰ رکھنے والے ہمارے ماہرِ معاشیات اور حقیقت میں نہایت اعلیٰ پائے کے اکاؤنٹنٹ جناب اسحاق ڈار ہیں۔
کسی معمولی سی دکان کے مالک سے لیکر کسی بہت بڑے کاروباری ادارے کے سربراہ تک جو سب سے اہم اور ضروری کام سرانجام دیتے ہیں وہ ان کی آمدنی اور اخراجات کا جائزہ لینا ہے۔ ہر کاروباری شخص اس سلسلے میں دو تین چیزیں بلاناغہ دیکھتا ہے۔ اسکے پاس کتنے پیسے ہاتھ میں (بینک وغیرہ سمیت) ہیں اور ادائیگی کتنی کرنی ہے؟ خریدا گیا مال کس بھاؤ پڑ رہا ہے اور اپنے مال کو کس قیمت پر فروخت کرنا ہے۔ آخر میں ان ساری چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد اپنی آمدنی کو مدنظر رکھ کر اخراجات کا تخمینہ لگاتا ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں توازن بگڑا ہو تو وہ آمدنی کو بڑھانے کا کوئی ذریعہ تلاش کرتا ہے ورنہ دوسری صورت میں اخراجات میں کٹوتی کرتا ہے اور اپنا معاشی سائیکل درست کرکے چلاتا ہے۔ ہمارے ہاں سب کچھ الٹا چل رہا ہے اور عشروں سے ہی الٹا چلے جا رہا ہے۔ ہم اپنے اخراجات (جس میں زیادہ تر حصہ مختلف اقسام کے خساروں اور گھاٹوں کا ہے) کی فہرست بنانے کے بعد اپنی حقیقی اور غیر حقیقی ہوائی قسم کی آمدنی کا حساب لگاتے ہیں جو از خود غلط ہوتا ہے اور اس میں پائے جانیوالے باہمی منفی فرق کو قرضوں سے پورا کرنے کے بعد خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں کہ ہم نے اتنے ارب روپے کے خسارے کا بجٹ تیار کرکے عوام کی مشکلات کا سارا بوجھ اپنی کمر پر لاد لیا ہے اب اسکے منفی اثرات کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا۔
اگلے سال پھر اسی قسم کا بجٹ تیار کیا جاتا ہے تاہم اس میں صرف یہ اضافہ ہوتا ہے کہ گزشتہ سال خسارہ پورا کرنے کی غرض سے لیے جانے والے قرضے بھی شامل ہو جاتے ہیں جس سے آمدنی اور اخراجات کے مابین عدم توازن مزید بڑھ جاتا ہے اور اس زیادہ بڑے فرق کو پورا کرنے کی غرض سے گزشتہ بار سے زیادہ قرضہ لیا جاتا ہے اور یہی ڈرامہ سال بہ سال عشروں سے دہرایا جا رہا ہے۔ آمدنی اور اخراجات کا باہمی عدم توازن ہر سال گزرے سال سے زیادہ ہو رہا ہے کیونکہ قرضوں کا بوجھ ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمی ساہوکاروں اور سود خوروں کی موجودگی میں قرض کا کاروبار پھل پھول رہا ہے اور ہماری معیشت روزانہ کی بنیاد پر نیچے سرکتی جا رہی ہے۔ حکمرانوں کی حالت بہتر سے بہتر اور عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ترقی ٔ معکوس ہے کہ کبھی ہمارے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق جیسے ماہرِ معاشیات ہوا کرتے تھے اور اب بینکار‘ اکاؤنٹنٹ‘ فنانس منیجر اور منشی ٹائپ بابو ہمارے ماہر معاشیات بن گئے ہیں ‘جنہیں معاشیات کی ‘میم‘ کا بھی علم نہیں ۔
جب تک بوری کا سوراخ بند نہ کیا جائے آپ اس میں جتنا مرضی مال ڈالتے جائیں وہ بوری بھر نہیں سکتی اور خاص طور پر جب اس بوری کا سوراخ بھی مسلسل بڑا ہو رہا ہو تو پھر اس میں جتنا مال بھی ڈالیں گے اس سے زیادہ نکل جائے گا اور ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ اس ملک کی معیشت پر جو چار پانچ سفید ہاتھی پل رہے اور ان کا خرچہ (خسارہ) ہر سال بڑھتا جا رہا ہے‘ اس خرچے کو پورا کرنا اب کم از کم پاکستان کی معیشت کے بس میں تو نہیں رہا۔ ان سفید ہاتھیوں کو پالنے کیلئے عوام کا خون نچوڑنا بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ ہاتھی کی خوراک کی سپلائی کا ذمہ چیونٹیوں کے کندھوں پر لاد دیں جو مر کر بھی یہ خرچہ پورا نہیں کر سکتیں۔
ریلوے‘ پی آئی اے‘ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں‘ سٹیل ملز‘ محکمہ فوڈ کی سبسڈی اور دیگر سوسے زائد مسلسل گھاٹے میں چلنے والے سرکاری اداروں نے معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومتی نااہلی اور نالائقی کا یہ عالم ہے کہ نہ ان اداروں کا گھاٹا نفع میں بدل رہا ہے اور نہ ہی ان سے جان چھڑائی جا رہی ہے۔ ہر حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ان سفید ہاتھیوں کو مزید پالنا سوائے مزید معاشی بربادی کے اور کچھ نہیں مگر بڑے بڑے دعوے کرنے والے جب حکومت میں آتے ہیں تو معاشی فیصلے کرنے کے بجائے سیاسی فیصلے کرتے ہیں اور چند ہزار لوگوں کو راضی رکھنے کی قیمت پر اس ملک کے پچیس کروڑ عوام کے ساتھ ساتھ اس ملک کی سالمیت سے بھی کھلواڑ کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں کہیں بھی حکومتیں کاروباری ادارے نہیں چلاتیں اور ہمارا تو یہ عالم ہے کہ ہم میں یہ کام کرنے کی اہلیت بھی نہیں ہے‘ لیکن ان اداروں کے دم سے چند ہزار لوگوں کا روزگار اور ہماری بیورو کریسی کے ساتھ چند مافیاز کا موج میلہ لگا ہوا ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا مجموعی خسارہ اڑھائی ہزار ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ بلکہ ایک واقفِ حال کا کہنا ہے کہ سرکلر ڈیٹ نامی یہ خسارہ حقیقت میں تین ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے مگر اسے مختلف حیلوں بہانوں سے گھما پھرا کر کم دکھایا جا رہا ہے۔ یہ خسارہ کم ہونے کے بجائے ہر سال بڑھتا جا رہا ہے اور کسی روز یہ غبارہ پھٹ جائے گا اور یہ ”کسی روز‘‘ زیادہ دور نہیں رہ گیا۔ پی آئی اے اور ریلوے کا بھی یہی حال ہے۔ اوپر سے میاں شہبازشریف کے شوق کے طفیل اورنج ٹرین اور میٹرو جیسی مزید آکاس بیلیں اس ملک کی پہلے سے بربادی شدہ معیشت سے چمٹ گئی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سبسڈی کے نام پر اس پھٹی ہوئی بوری میں جو رقم ڈالی جا رہی ہے وہ اس بوری کے روز افزوں بڑے ہوتے ہوئے سوراخ سے نکلتی جا رہی ہے۔
آمدنی تو بڑھ نہیں رہی‘ کم از کم خرچے تو کم ہو سکتے ہیں اور خرچے بھی ایسے جو دنیا کے متمول اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی کہیں دکھائی نہیں دیتے‘ مگر اس ہمہ وقت کشکول پکڑے” دے جا سخیا راہِ خدا‘‘ والا نعرہ لگانے والے ملک میں ہو رہے ہیں۔حکمرانوں‘ عوامی نمائندوں‘ سرکاری افسروں اور کنٹریکٹ پر نوازے جانے والوں سے صرف سرکاری گاڑیاں‘ نوکر چاکر‘ مفت مکان‘ مفت بجلی اور دیگر سرکاری مراعات واپس لے کر انہیں اس کے عوض گریڈ اور عہدے کیلئے طے شدہ فکس الاؤنس دے دیا جائے تو اس ملک کے معاشی مسائل میں کمی آ سکتی ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ کا حال دیکھیں تو اودھ کے کنگلے نوابوں کے قصے یاد آجاتے ہیں۔