پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا
پاکستان کی ہر سیاسی جماعت میں لیڈروں کے طبلچی با افراط پائے جاتے ہیں۔ اس میں کسی سیاسی جماعت کو تخصیص حاصل نہیں۔ یہ طبلچی ہر سیاسی پارٹی کے ہر لیڈر کے مقدر میں لکھے ہوئے ہیں۔ ہاں کم یا زیادہ یہ بات ہو سکتی ہے مگر یہ ناممکن ہے کہ ہمارا کوئی سیاسی لیڈر اس نعمت سے یکسر محروم ہو۔
مسلم لیگ (ن) میں موجود اس قبیل کے لوگ آج کل ایک بات بڑے تسلسل اور شدومد کے ساتھ دہرا رہے ہیں کہ ملک کے تمام موجودہ مسائل کا حل صرف اور صرف نواز شریف کے پاس ہے۔ ان کی گفتگو سے لگتا ہے کہ یہ حل دراصل کوئی گیدڑ سنگھی ٹائپ چیز ہے جو میاں نواز شریف کی واسکٹ کی اندر والی جیب میں محفوظ ہے اور اس کو استعمال کرنے کا نہ صرف کوڈ میاں نواز شریف کے پاس ہے بلکہ اسے میاں نواز شریف رائے ونڈ محل میں بیٹھ کر اپنے مقدس ہاتھوں سے دبائیں گے تو ہی یہ سسٹم آن ہوگا اور پھر منٹوں سیکنڈوں میں پاکستان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
فی الوقت پاکستان کا بنیادی اور فوری مسئلہ تو اقتصادی ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر قابو میں نہیں آ رہے‘ اخراجات زیادہ ہیں اور آمدنی کم ہے‘ برآمدات گر رہی ہیں اور درآمدات بڑھتی جا رہی ہیں‘ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم کم ہو رہی ہیں‘ قرضوں کی ادائیگی تو رہی ایک طرف ان پر واجب الادا سود کی ادائیگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے‘ صنعتیں مسلسل بند ہو رہی ہیں‘ بیروزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور مہنگائی نے عوام کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ دوسری طرف ڈالر نے کڑاکے نکال دیے ہیں اور آئی ایم ایف نے تو ایسے ناک رگڑوائی ہے کہ اس کی معلوم تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اوپر سے میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹا لینا جارجیوا کو قرض دینے پر اس طرح قائل کیا کہ بڑے بڑے فنکاروں کو شرمندہ کر کے رکھ دیا۔ لیکن ان کے برادرِ کلاں میاں نواز شریف نے اپنے برادرِ خورد پر اپنا وہ راز آشکار نہیں کیا جس کو استعمال کرنے سے ان کے برادرِ خورد اس ساری بدنامی اور آزمائش سے باہر نکل آتے جس میں وہ اکیلے پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے اقتدار میں حصہ دار اتحادی از قسم بلاول بھٹو زرداری‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن صرف موج میلہ کر رہے۔
طبلچیوں کے اس قسم کے اعلانات سے ایک عقدہ تو حل ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت کی ساری خرابیوں کا باعث دراصل میاں نواز شریف کا عدم تعاون ہے جو وہ موجودہ حکومت‘ جو اُن کے برادرِ خورد کی سربراہی میں قائم ہے اور اس حکومت کے معاشی مدار المہام ان کے سمدھی شریف ہیں‘ سے برت رہے ہیں۔ اس صورتحال سے ایک اور بات جو ہمیں سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس ملک کی اقتصادی صورتحال اور معاشی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک میاں نوازشریف واپس آکر پاکستان کے اقتدار کی باگ ڈور خود نہیں سنبھال لیتے۔ ویسے اگر ملک کی اقتصادی حالت کی درستی اور بہتری کا فارمولا میاں نواز شریف کے پاس ہے تو آج تک اسحاق ڈار کس لیے اقتصادی جادوگر کے طور پر اپنے نمبر ٹانکتے رہے ہیں؟ اور اگر مسلم لیگ کی حکومت کی ساری نام نہاد معاشی کامیابیاں اسحاق ڈار کی مرہونِ منت تھیں تو پھر وہ ان کی جادوگری اب کیوں نہیں چل رہی؟
جب سے نیب کے پر کاٹنے اور احتساب کا گلا گھونٹنے کے عمل کا آغاز ہوا ہے‘ میاں نوازشریف کے پاکستان آنے کے امکانات میں درجہ بہ درجہ بہتری آنی شروع ہو گئی ہے تاہم پلیٹ لیٹس کی کمی کو جواز بنا کر لندن جانے والے وہاں سے دبئی تک کا سفر تو کر سکتے ہیں لیکن جب تک پاکستان سے ہر قسم کی گارنٹی نہیں ملتی پاکستان واپس نہیں آتے۔ ملک کے عدالتی نظام اور انصاف کے معیار کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف عام آدمی جو بذاتِ خود کسی جرم میں شامل یا شریک نہ ہو بلکہ صرف اس نظام انصاف میں گواہ ہو اگر عدالت میں گواہی دینے نہ آئے تو اس کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہو جاتے ہیں اور ضمانت پر رہا ہونے والے ملزم کے فرار ہو جانے پر اس کے ضمانتی کو دھر لیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف یہ عالم ہے کہ چھ ہفتوں کیلئے ضمانت پر بیرون ملک علاج کیلئے جانے والا شخص طے شدہ مدت میں واپس نہ آنے کی صورت میں عدالتی مفرور ہے اور نہ صرف اس کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے چاہئیں بلکہ ان کے ساتھ ان کے ضمانتی کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہونے چاہئیں تھے۔ عام لوگوں کے خلاف ہونے والی روٹین کی عدالتی کارروائی کے برعکس سب طاقتور لوگ قانون سے ماورا ہیں اور مزے کر رہے ہیں۔
دنیا آہستہ آہستہ قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی نئی جہتوں سے متعارف ہو رہی ہے اور قانون سب کیلئے برابر‘ جبکہ عدل و انصاف کی ہر شخص کو بلا تخصیص فراہمی کی منزل کی طرف رواں دواں ہے جبکہ ہمارے ہاں قانون اور عدل و انصاف کا معاملہ بہتری کی بجائے روز بہ روز مزید انحطاط کی طرف مائل بہ سفر ہے۔ دنیا آگے کی طرف اور ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ پہلے عدل و انصاف میں یہ تفاوت اور قانون کی کسمپرسی اتنی شدت سے دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پہلے جو چیزیں کسی حد تک پردے میں ملفوف تھیں وہ اب بالکل شفاف دکھائی دے رہی ہیں۔ یعنی جو تھوڑی بہت شرم اور ایک پنجابی لفظ کے مطابق ”اوہلا‘‘ تھا وہ اب رخصت ہو رہا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ لوگوں کا قانون پر اعتماد اور عدل و انصاف پر بھروسا بھی رخصت ہو رہا ہے۔
معاف کیجئے گا۔ بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ اصل موضوع یہ تھا کہ میاں نواز شریف کے پاس آخر وہ کیا خفیہ فارمولا ہے جس کے استعمال سے وہ پاکستان کے سارے مسائل ختم کر سکتے ہیں مگر وہ یہ فارمولا صرف اسی صورت میں استعمال کریں گے اگر ان کو چوتھی بار اس ملک کا وزیراعظم بنا دیا جائے۔ اگر بقول ان کے طبلچیوں کے وہ پاکستان کے سب سے مخلص اور سچے لیڈر ہیں تو وہ ملک کی بربادی کا دور بیٹھ کر تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں؟ وہ یہ خفیہ فارمولا اپنے برادرِ خورد کے حوالے کیوں نہیں کر دیتے؟ جاوید لطیف اور مریم اورنگزیب جیسے لوگ اب اس نہج پر آ گئے ہیں کہ وہ ملک کے مسائل کا حل مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بجائے میاں نواز شریف کی ذات سے وابستہ کر چکے ہیں جنہیں بذاتِ خود اپنی پوری پارٹی اور موجودہ حکومت پر عدم اعتماد ہے جس میں میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں ساری کی ساری کابینہ پرانے چہروں پر مشتمل ہے اور ملک کے معاشی سیاہ و سفید کے مالک ان کی کاروباری سلطنت کے سابقہ فنانس منیجر اور سمدھی اسحاق ڈار ہیں۔ اگر پاکستان کے سارے مسائل کا حل میاں نوازشریف کے پاس ہے اور وہ یہ حل کسی اور کو بتانے پر تیار نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بالواسطہ طور پر پاکستان کے تمام حالیہ مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ تاریخ میں روم کو جلتا دیکھ کر بانسری بجانے والے نیرو کا نام آج دنیا بھر میں بے حسی کا شاید سب سے بدنام حوالہ ہے۔