پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
ملتان اور سیاسی قحط الرجال…(1)
ویسے تو سارے ملک میں ہی قحط الرجال کا عالم ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جن لوگوں پر فردِ جرم لگنی تھی وہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ دودھ فروش حکومتی مشیر ہیں اور conflict of interestوالے لوگ اپنے ہی معاملات پر فیصلے کر رہے ہیں۔ اس سے ایک سنی سنائی بات یاد آتی ہے۔ اللہ جانے اس میں کتنی سچائی اور کتنی مبالغہ آرائی مگر اس ساری سٹوری دل کو ضرور لگتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار پاکستان کے ریٹائرڈ چیف جسٹس اے آر کارنیلیس عرصے کے بعد کسی ادارے میں تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر گھوم پھر کر واپس آ گئے۔ بعد میں کسی نے سوال کیا کہ وہاں دوبارہ جا کر کیسا محسوس ہوا؟ آنجہانی جسٹس کارنیلیس نے نہایت دکھ اور افسردگی سے جواب دیا کہ مجھے وہاں جا کر اور کمروں کے باہر لگی ہوئی تختیاں پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ ان تختیوں پر لکھے ہوئے ناموں کے ساتھ جو سابقے لگے ہوئے تھے ان کے حامل لوگوں کے نام ہمارے زمانے میں ایف آئی آرز میں درج ہوا کرتے تھے۔ اب قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ یہ نام کمروں کے باہر برآمدوں میں لگی ہوئی تختیوں پر آ گئے ہیں۔
خیر سارے ملک میں یہی قحط الرجال کا عالم ہے اور بھلا ملتان کو اس میں کیا تخصیص ہو سکتی ہے کہ ادھر ایسی صورتحال نہ ہو۔ لیکن ملتان میں تو ایسی ”لُٹ‘‘ پڑی ہوئی ہے کہ ویلڈر عظیم لیڈر کے طور پر سامنے آ رہا ہے‘ قبضہ مافیا کے سرپرست ایک متوقع سیاسی پارٹی کا خود ساختہ چیئرمین ہے اور ایک بالکل فارغ بندہ ملک کے نگران وزیراعظم کیلئے متوقع امیدواروں کی فہرست میں دھکے سے اپنا نام لکھ کر اشتہاری دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک پر‘ اس کی سیاست پر اور اہلِ وطن پر اپنا کرم کرے۔ جب میں ان تینوں شخصیات پر غور کرتا ہوں تو مجھے حیرانی صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ آخر اس قوم نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ اس پر ایسے ایسے نابغے اور خلیفے چڑھ دوڑنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں جن کو ان کے گھر والے بجلی کا بل بھرنے کیلئے نقد رقم دے کر بینک تک بھجوانے کیلئے تیار نہیں ہوتے ‘لیکن وہ اپنے تئیں اس قوم کے مستقبل کے متوقع رہنما بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
نو مئی نے تو سب کچھ ہی الٹا پلٹا کر کے رکھ دیا ہے۔ ملتان میں ایک ویلڈر ہوا کرتا تھا جو ویلڈنگ کی دکان پر بیٹھ کر سائیکل کے ٹوٹے ہوئے پیڈل اور سوراخوں والے پائپ ویلڈنگ کے ذریعے قابلِ استعمال بنایا کرتا تھا تاہم بقول شخصے وہ بڑا below averageقسم کا ویلڈر تھا‘ پھر اپنی دیگر قسم کی چالاکیوں کے طفیل قریشیوں کی نظروں میں آ گیا۔ انہیں یہ بندہ اپنی مرضی کے کاموں کیلئے موزوں نظر آیا اور انہوں نے اس بندے کو اپنے نمائندے کے طور پر محکمہ فوڈ میں ایک خود ساختہ اعزازی اسامی ”چیئرمین فوڈ‘‘ پر تعینات کر دیا۔ اس عہدے کے بارے میں کم از کم اس عاجز نے تو اس سے پہلے کبھی سنا بھی نہیں تھا‘ تاہم موصوف کے اس عہدے پر فائز ہوتے ہی اس عہدے کی دھومیں مچ گئیں اور پیداگیری کی ایسی ہوشربا کہانیاں منظر ِعام پر آنی شروع ہوئیں کہ پرانے پیداگیر بھی ششدر رہ گئے کہ پیداگیری کا یہ پہلو اُن سے کیسے پوشیدہ رہ گیا تھا۔
پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ ہر سال کسانوں سے سرکار کے طے کردہ نرخوں پر گندم خریدتا ہے اور پھر فلور ملز کو یہ گندم رعایتی نرخوں پر سپلائی کرتا ہے۔ فلور ملز اس سرکاری گندم سے پسائی ہونے والا آٹا بھی سرکاری طے شدہ نرخوں پر مارکیٹ میں سپلائی کرنے کی پابند ہیں۔ سال 2021ء میں محکمہ فوڈ پنجاب نے 4.43ملین ٹن گندم خرید کر اپنے سٹوروں میں ذخیرہ کر لی تاکہ کھلی مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کو کسی حد تک کنٹرول میں رکھ سکے۔ یہ عشروں سے رائج پالیسی ہے جو تھوڑی بہت خرابیوں کے ساتھ مجموعی طور پر عام آدمی کو سرکاری قیمت پر آٹے کی خریداری کی سہولت دے رہی ہے۔ حکومتی غلط پالیسیوں‘ جن میں پنجاب سے باہر گندم کی سمگلنگ‘ پرائیویٹ انوسٹرز کی جانب سے زیادہ گندم کی خرید‘ ذخیرہ اندوزی‘ فلور ملز مالکان اور محکمہ فوڈ کے افسران کی ملی بھگت شامل تھی اوپن مارکیٹ میں گندم کا ریٹ چارہزار آٹھ سو روپے فی چالیس کلو گرام کی تاریخی بلندی تک پہنچ گیا جبکہ سرکاری ذخائر سے فلور ملز کو سپلائی کی جانے والی گندم کا نرخ بائیس سو روپے تھا۔ یہ باہمی فرق دوگنا سے بھی زیادہ تھا اور اس سے قبل پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔
جب مارکیٹ میں سرکاری گندم اور غیر سرکاری خرید کردہ گندم سے پسائی شدہ آٹا کی قیمتوں کے درمیان فرق اڑھائی ہزار روپے فی چالیس کلو گرام تک پہنچ گیا تو محکمے کے افسران اور فلور ملز مالکان کے ساتھ ساتھ دیگر انتظامی افسروں اور سیاستدانوں کی رال بھی ٹپکنا شروع ہو گئی۔ شاہ محمود قریشی کے فرزند نے اپنا بندہ محکمہ فوڈ میں ایک غیر سرکاری اعزازی پوسٹ کے نام پر چیئرمین پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ لگوا دیا۔ اب گیم یہ شروع ہوئی کہ سرکاری کوٹے والی گندم کے پسائی شدہ آٹے کی لوٹ مار شروع ہو گئی۔ اس لوٹ مار میں درج بالا سبھی لوگ شامل تھے۔ اس لوٹ مار میں کسی نے دوسو‘ کسی نے چھ سو اور کسی نے آٹھ سو بیگز روزانہ دھکے سے لینے شروع کر دیے۔ چیئرمین فوڈ آخر چیئرمین تھا اور اسے تب ملتان کے سب سے تگڑے سیاستدان کے عزیز از جان فرزند کی سرپرستی حاصل تھی‘ لہٰذا اس نے روزانہ کے تقریباً دو ہزار تھیلے مارنے شروع کر دیے۔ اس کاریگر نے مزید یہ کیا کہ سرکاری آٹے کو اس کے مخصوص سرکاری مونو گرام والے تھیلے سے نکال کر اس میں سے تھوڑا چوکر نکال کر نئے تھیلوں میں بھر کر مارکیٹ میں فائن آٹا بنا کر فروخت کرنا شروع کر دیا۔ جتنے منہ اتنی باتیں‘ تاہم ایک واقفِ حال دوست کا محتاط اندازہ ہے کہ موصوف نے روزانہ کی دس لاکھ روپے سے زیادہ تک کی دیہاڑی لگائی۔ اس پر بڑا شور مچا اور لاہور تک کہرام بھی پہنچا مگر قریشیوں کی سرپرستی کے آگے کسی کی نہ چلی اور شیخ مظہر جو ویلڈر سے ایکدم ترقی کر کے چیئرمین فوڈ بن گیا تھا اپنی جگہ پر جما رہا۔ اسی دوران لاہور میں بیٹھے ہوئے ایک انتظامی افسر نے ملتان میں لگے ہوئے محکمہ فوڈ کے ا س سارے معاملے میں سہولت کار اور حصہ دار افسر کو تبدیل کر کے اس کی جگہ نسبتاً خاصا بہتر اور تگڑا افسر لگا دیا۔ اس سے دیہاڑی تو ضرور متاثر ہوئی مگر دال دلیا بہرحال چلتا رہا۔ تاوقتیکہ اقتدار کا تانگہ ہی اُلٹ گیا اور چیئرمین فوڈ اپنے سرپرستوں کے ہمراہ فارغ ہو کر گھر آ گیا۔
گزشتہ روز ملتان کے اخباروں میں آیا کہ تحریک انصاف کے ایک بہت بڑے اور نامور لیڈر شیخ مظہر سابقہ چیئرمین فوڈ نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے تحریک انصاف کو خیرباد کہہ دیا ہے اور وہ عنقریب اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ میں نے اپنے ایک نہایت ہی باخبر دوست سے اس بابت دریافت کیا کہ کیا شیخ صاحب اب دوبارہ ویلڈنگ کا کام شروع کر دیں گے؟ میرا وہ باخبر دوست بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا کہ آپ اپنی عینک کا نمبر تبدیل کروائیں۔ میں نے حیرانی سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ شیخ مظہر نے اپنے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کی بات کی ہے اپنے پیشہ ورانہ مستقبل کی بات نہیں کی۔ میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ ہم ملتان والوں نے کون سا عظیم گناہ کیا ہے جس کی سزا ہمیں اس قسم کی لیڈر شپ کی صورت میں ملنے جا رہی ہے؟ میرا وہ دوست کہنے لگا :بات تو آپ کی قابلِ غور ہے لیکن اب ایسی باتوں پر غور کرنے کو دل نہیں کرتا۔ (جاری)