پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
ایسی خوبانیاں اور چیری ملتان میں کیوں نہیں ملتیں؟
دو گھنٹے کے سفر میں گندم کی فصل کے تین روپ دکھائی دیے۔ دریائے سندھ کو لوہے کے رسوں سے لٹکی ہوئی تاروں سے بندھے ہوئے لکڑی کے پھٹوں والے پل سے عبور کیا تو ڈرائیور کی مہارت پر اسے دل ہی دل میں داد دی۔ پل کے آغاز اور سڑک کے اختتام کے درمیان تقریباً چھ انچ کا فاصلہ تھا‘ جب جیپ سڑک سے اتر کر پل پر چڑھی تو سارا پل ہی آٹھ نو انچ نیچے چلا گیا۔ فرنٹ سیٹ کی کھڑکی سے گردن باہر نکال کر میں نے جیپ کے پچھلے پہیوں کو پل پر آتے اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ جب پہیوں نے پل کو چھوا تو لکڑی کا جھولتا ہوا پل سڑک سے بلا مبالغہ چھ سات انچ ہٹا ہوا اور آٹھ نو انچ نیچے جا چکا تھا۔ جیپ ایک جھٹکے سے پل پر آئی۔ اس کے آگے سارا پل ایک تنگ گلی جیسا تھا جس میں دونوں طرف شاید ایک ایک فٹ کی جگہ باقی بچی تھی۔ اسد اور انعم اس قسم کے راستوں‘ پلوں اور چڑھائیوں کے عادی ہو چکے ہیں مگر امریکہ سے آئی ہوئی بڑی بیٹی کیلئے سب کچھ بڑا عجیب تھا۔ سکردو جگلوٹ روڈ کی آرام دہ اور کھلی سڑک سے اترتے ہی اس نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کر دیا کہ بھلا اتنے مشکل راستے پر سفر کرنے کی کیا تْک ہے؟اسد نے ہنستے ہوئے کہا کہ شکر کریں آپ ہمارے ساتھ رَتی گلی جھیل والے سفر میں نہیں تھیں۔ دو سال پہلے جب ہم شاران گئے تھے‘ وہ راستہ اس سے کہیں خراب‘ تنگ اور مشکل تھا۔ بابا جان نے نلتر جاتے ہوئے خود گاڑی چلائی تھی اور وہ راستہ بھی اس سے تنگ اور خطرناک تھا۔ یہ راستہ تو مقابلتاً کافی بہتر ہے۔ کومل نے ساری باتیں سن کر سکھ کی سانس لی پھر کہنے لگی کیا واپسی کیلئے ہیلی کاپٹر سروس نہیں مل سکتی پھر خود ہی ہنس پڑی۔
پل عبور کرتے ہی بشو کا آغاز ہو گیا۔ بشو وادی کا اصل حسن تو سلطان آباد جا کر دکھائی دیتا ہے باقی سارا راستہ تو کچا ہے‘ تنگ ہے اور مسلسل چڑھائی ہے اور درمیان میں جہاں کہیں تھوڑی سی بھی مسطح جگہ ہے‘ وہاں آبادی ہے۔ کئی موڑ تو ایسے ہیں کہ جیپ کو کم از کم ایک بار ریورس کرنا پڑتا ہے۔ راستے میں پہلا گاؤں آیا تو وہاں گندم کی فصل کئی روز پہلے کٹ چکی تھی اور گٹھوں کی صورت میں یا اونچے بڑے ڈھیر کی صورت میں بالیوں اور تنے سمیت رکھی ہوئی تھی۔ ڈرائیور سے پوچھا کہ یہ اپنی گندم کب چھڑیں گے؟ اس نے کہا کہ اسے علم نہیں کہ یہاں گندم کب چھڑی جائے گی۔ گاؤں کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ بٹھنگ ہے۔ گندم کی سنہری پیلی فصل یہاں کٹ چکی تھی۔ خالی کھیت میں خواتین بیلچے کے ساتھ زمین کو گہرائی تک کھود رہی تھیں۔ یہ ہل چلانے کا متبادل بندوبست تھا جو نہ صرف یہ کہ بہت مشکل تھا بلکہ بہت زیادہ محنت اور وقت کا متقاضی بھی تھا۔ خواتین کو سارا راستہ محنت اور مشقت کرتے دیکھا۔ کہیں وہ کھیت کو اگلی فصل کے لیے تیار کر رہی تھیں اور کہیں فصل کاٹ رہی تھیں۔ اس سارے سفر میں خواتین کو جو سب سے آسان کام کرتے دیکھا وہ خوبانی کی گٹھلیاں نکال کر انہیں کھول کر بڑے بڑے پتھروں پر سوکھنے کے لیے رکھنا تھا۔
مسلسل آدھ گھنٹے کی چڑھائی کے بعد جب ہم گنتھو گاؤں کے پاس سے گزرے تو وہاں گندم کی فصل نہ صرف کٹنے کے لیے تیار تھی بلکہ کئی جگہوں پر خواتین اسے درانتی سے کاٹ کر گٹھے بنانے میں مصروف تھیں۔ جوں جوں اوپر جا رہے تھے توں توں خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ راستے میں ایک جگہ جیپ بارش سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ میں پھنس گئی جسے نکالنے میں پیچھے سے آنے والی جیپ کے ڈرائیور نے کافی مدد کی اور نرم راستے میں بھاری پتھر رکھ کر اسے گزرنے کے قابل بنایا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگا: سر جی! آپ کے بعد میں نے بھی اسی راستے سے گزر کر اوپر جانا ہے، اگر اسے آپ لوگوں کے اوپر جانے کے لیے ٹھیک نہ کراؤں گا تو بھلا خود بھی یہاں سے کیسے گزروں گا؟
سلطان آباد سے تھوڑا پہلے گندم کی فصل ہری تھی اور اسے ابھی کٹائی کے قابل ہونے میں کم از کم بھی پندرہ‘ سولہ دن درکار تھے۔ یعنی کہ فصل کہیں وسط اگست میں جا کر کٹے گی۔ یہ میرے لیے بالکل نئی بات تھی کہ گندم کی فصل اتنی تاخیر سے کٹے۔ لیکن موسم میں خنکی اور کھیت کی بلندی کا سوچا تو حیرانی بالکل ختم ہو گئی۔ سلطان آباد سطح سمندر سے تقریباً 3600میٹر یعنی گیارہ ہزار آٹھ سو فٹ کی بلندی پر تھا۔ یہ مری سے ڈیڑھ گنا سے بھی زیادہ بلندی ہے۔ راستہ گو کہ خاصا غیر آرام دہ ہے مگر جونہی آپ ایک موڑ مڑ کر وادی میں داخل ہوتے ہیں تو سامنے وسیع سر سبز میدان دیکھ کر دل ایسا شاد ہوتا ہے کہ سفر کی ساری تھکاوٹ اور کلفت ہوا ہو جاتی ہے۔
کافی دیر سے ساتھ چلتا‘ شور مچاتا اور جھاگ اڑاتا ہوا پہاڑی نالہ سامنے میدان میں پُرسکون ہو چکا تھا۔ ایک وسیع سر سبز میدان تھا جس کے درمیان دریا تھا اور چاروں طرف بلند و بالا پہاڑ تھے جن پر درختوں کے جھنڈ جا بجا دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا سکون اور سَر خوشی تھی کہ دل کیا کہ بندے کے پاس ایک خیمہ ہو اور وہ اسے دور دکھائی دینے والے درختوں کے جھنڈ کے درمیان لگائے اور کئی دن ادھر ہی گزار دے۔ میں نے ایک مقامی شخص سے پوچھا کہ یہاں کون کون سے جانور پائے جاتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ یہاں اوپر پہاڑوں پر بشو گلیشیر کے پاس کبھی کبھار برفانی چیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ادھر آئی بکس بھی ہیں اور مارکو پولو شیپ بھی پائی جاتی ہے۔ مجھے ان تینوں جانوروں کا سن کر حیرانی ہوئی کہ یہ تینوں جانور اُن جانوروں کی فہرست میں ہیں جو کسی حد تک متوقع معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ میں نے اس کی بات پر یقین نہ کیا مگر ایک اور مقامی بزرگ سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی بتایا۔
جولائی کے آخری دنوں میں سکردو میں چیری کا سیزن تقریباً ختم ہو چکا ہوتا ہے مگر ڈرائیور غلام محمد ایک چیری کے باغ میں لے گیا جہاں بچی کھچی چیری اتاری جا رہی تھی۔ اس وقت وہاں صرف دو ڈبے چیری پڑی تھی جو میں نے خرید لی۔ انعم کی آنکھیں اس چیری کا سائز دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کہنے لگی: ملتان میں چیری کہاں سے آتی ہے؟ میں نے کہا وہ لورالائی اور کوئٹہ سے آتی ہے۔ پوچھنے لگی کہ آخر یہ والی چیری ملتان کیوں نہیں آتی؟ اتنا بڑا سائز؟ پھر ایک چیری اٹھا کر منہ میں ڈالی اور حیرانی سے کہنے لگی‘ اس قدر میٹھی! میں نے اسے کہا کہ یہ تو سیاہی مائل عنابی رنگ والی چیری ہے۔ آپ نے ابھی سکردو کی مشہور سرخی مائل گلابی چیری نہیں کھائی۔ اور ہاں! آپ کو ادھر کی شوخ اورنج رنگ والی چھوٹے سائز کی خوبانی کھانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ایسی میٹھی خوبانی کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔
بشو کے راستے میں جہاں جہاں بھی تھوڑی آبادی آتی تھی‘ راستے کے دونوں طرف پھلوں سے لدے ہوئے درخت آ جاتے تھے۔ بیر سے تھوڑے بڑے سائز کی اورنج خوبانی جگہ جگہ پڑے ہوئے بڑے بڑے پتھروں پر سوکھ رہی تھی۔ راستے میں چھوٹی سی میز پر تین چار پلیٹوں میں مختلف قسم کی خوبانیاں سجائے دو چھوٹے چھوٹے بچے انہیں بیچ رہے تھے۔ میں نے گاڑی رکوا کر ان سے اورنج خوبانیوں والی پلیٹ ایک شاپر میں ڈلوائی اور پچھلی سیٹ پر بیٹھی پھلوں کی شوقین بڑی بیٹی کو پکڑا دی۔ اس نے فوراً ہی ایک خوبانی منہ میں ڈالی اور زور سے نعرہ لگایا کہ اس نے اپنی زندگی میں ایسی لذیذ اور میٹھی خوبانی پہلے کبھی نہیں کھائی۔ ساری خوبانیاں چند منٹ میں کھانے کے بعد پوچھنے لگی؛ یہ خوبانی ملتان میں کیوں نہیں ملتی؟ میں نے کہا کبھی ایک بیٹی کہتی ہے کہ ایسی چیری ملتان میں کیوں نہیں ملتی‘ دوسری کہتی ہے کہ ایسی خوبانی ملتان میں کیوں نہیں ملتی۔ ابھی تو تم نے پِنک چیری نہیں کھائی۔ کل شِگر چلیں گے۔ شاید وہاں مل جائے۔ اگر مل گئی تو تم کہو گی کہ یہ ملتان میں کیوں نہیں ملتی؟ سوال تو تمہارا جائز ہے مگر اب یہ کون بتائے کہ ایسی خوبانیاں اور چیری ملتان میں کیوں نہیں ملتیں؟