کھوکھلے بت کا انہدام:خالد ارشاد صوفی

تعصب‘ نفرت‘ فریب کاری‘ مکاری اور جھوٹ کی مٹی سے بنے بُت آخر کار ٹوٹ جاتے ہیں۔ شہیدوں کا لہو کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ ظلم مٹنے کے لیے ہے اور حق نے ابھرنا ہی ابھرنا ہوتا ہے۔

آنکھوں نے بالآخر یہ منظر بھی دیکھا کہ بنگلہ دیش کے بانی‘ پاکستان کو دو لخت کرنے والے اہم ترین کردار اور بنگلہ بندو (یعنی بنگلہ بابائے قوم) کے دیو قامت بُت کے گلے میں جوتیوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں‘ بُت کا سر کاٹا جا رہا ہے‘ کرین پر لٹکا کر اس پر پتھر برسائے جا رہے ہیں۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اس بت کے اندر کا کھوکھلا پن نمایاں نظر آ رہا تھا۔ وہ جو جاہ و حشمت کی علامت اور طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا جب اسی کے عوام نے اس کو جوتوں کے ہار پہنائے اور اس پر پتھر برسائے تو معلوم ہوا کہ کھوکھلی بنیادوں پر ایستادہ بت یوں ہلکی سی مزاحمت پر اپنا کھوکھلا پن عیاں کر دیتے ہیں۔

یہ سب کچھ دیکھ کر 1971ء کے دلخراش واقعات کی طرف سے چلا گیا جو روح کو گھائل کیے ہوئے ہیں اور جس کے زخم اتنے گہرے ہیں کہ شاید کبھی نہیں بھریں گے‘ کبھی مندمل نہیں ہوں گے۔ چھ نکات پیش کرنے والے‘ مکتی باہنی مرتب کرنے والے‘ بھارتی فوج کو مدد کے لیے پکارنے والے اور اپنے تئیں ایک الگ ملک قائم کرنے والے بنگلہ بندو کے پیکر کا کھوکھلا پن بنگلہ دیش کے قیام تین سال آٹھ ماہ بعد ہی واضح ہو گیا تھا جب اس کے ’اپنے ملک‘ میں اس کے اپنے ’ہم زبانوں‘ کے سامنے اس کی ’اپنی فوج‘ نے اسے اہل خانہ سمیت بے دردی سے گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔

پھر دھیان انتقام کی اس دیوی کی طرف چلا گیا جو اسی باپ کی بیٹی تھی جس نے کھوکھلی بنیادوں پر‘ کھوکھلے نعروں کے ساتھ‘ کھوکھلے محل تعمیر کیے تھے۔ شیخ حسینہ 15 اگست 1975ء (مجیب الرحمن کے قتل کا دن) کے روز اپنی فیملی اور بہن (شیخ ریحانہ) کے ساتھ یورپ کے دورے پر تھیں۔ انہوں نے اپنے باپ شیخ میجب الرحمن کے فیملی سمیت قتل کے بعد مغربی جرمنی میں بنگلہ دیش کے ایمبیسیڈر کے گھر پناہ لی تھی۔ بعد ازاں اندرا گاندھی نہیں دونوں بہنوں اور ان کے خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور یہ لوگ چھ سال نئی دہلی میں جلا وطن رہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ ان لوگوں کے کتنے گہرے تعلقات اور روابط تھے۔ اب بھی حسینہ واجد مستعفی ہونے کے بعد بھارت ہی فرار ہوئی ہیں‘ اور ایک اطلاع کے مطابق ان کی نریندر مودی سے دو ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ حسینہ واجد نے اپنے والد کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انتقام کی یہ دیوی 1996ء میں برسر اقتدار آئی تو انہی بنیادوں پر حکومتیں بنانے اور چلانے کا سلسلہ شروع کیا جن بنیادوں پر اس کا باپ چلاتا رہا تھا۔ اس نے پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے والوں کو ایک کے بعد ایک سولی چڑھایا‘ حتیٰ انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ستر سال کے بوڑھوں کو بھی نہ بخشا۔

12 اپریل 2020ء کو بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے مرتکب سابق فوجی افسر عبدالماجد کو دارالحکومت ڈھاکہ میں پھانسی دی گئی۔ فوجی بغاوت کے بعد عبدالماجد اپنے ملک میں ہی رہے لیکن جب 1996ء میں شیخ حسینہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو وہ بھارت فرار ہو گئے تھے۔ شیخ حسینہ واجد انتقام کی آگ میں اس قدر اندھی ہو چکی تھیں کہ انہوں نے اس قانون کو کالعدم قرار دلایا جس کے تحت ان کے والد کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا‘ اور پھر اس کے بعد 1998ء میں عبدالماجد اور دیگر ایک درجن فوجی افسران کو موت کی سزا سنائی گئی۔ بنگلہ دیش کی عدالت عظمیٰ نے2009ء میں ان افراد کی سزائے موت کی توثیق کی جس کے بعد شیخ مجیب کے پانچ قاتلوں کو سزائے موت دے دی گئی۔ عبدالماجد کو مارچ 2020ء میں بنگلہ دیش واپس آنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ یہی نہیں حسینہ واجد نے انتقام کی ہوس میں پرانے مردے اکھاڑنے سے بھی گریز نہ کیا اور ان لوگوں کو چن چن کر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جنہوں نے 1971ء میں پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے سرگرم کوششیں کی تھیں۔ ابوالکلام آزاد کو 21 جنوری2013ء کو پھانسی دی گئی۔ عبدالقادر مولا کو 12 دسمبر 2013ء کو سزائے موت دی گئی۔ 12 اپریل 2015ء کو جماعت اسلامی کے سینئر رکن محمد قمرالدین کو پھانسی دی گئی۔ میر قاسم علی بھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سینئر رکن تھے۔ انہیں 63 برس کی عمر میں 3 ستمبر 2016ء کو پھانسی دی گئی۔ علی احسن محمد مجاہد کو 23 نومبر 2015ء کوپھانسی دی گئی۔

اس ڈائن پر پھر ایسا وقت بھی آیا کہ اسے استعفا دے کر بھارت فرار ہونا پڑا۔ بظاہر بے ضرر نظر آنے والے طلبہ نے اسے حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے باپ کا وضع کردہ وہ کھوکھلا نظام ہی باپ کی طرح بیٹی کی حکومت کے بھی خاتمے کا سبب بنا جس میں 1971ء کی جنگ کے بنگالی ہیروز کو باقیوں سے برتر رکھا گیا تھا۔ کوٹہ سسٹم حسینہ واجد حکومت کے گوڈے کٹوں میں بیٹھ گیا۔ کوٹہ سسٹم پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہوتا تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہوتا‘ لیکن حسینہ واجد نے یہ کوٹہ اپنی پارٹی کے لوگوں میں بانٹنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ 1971ء میں پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے والوں سے نفرت حسینہ واجد کے زوال کا باعث بن گئی۔ اس نے طلبہ کو رضاکار قرار دیا بنگلہ دیش میں جس سے مراد ہے 1971ء میں پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوششیں کرنے والے۔ اس لفظ رضاکار کو بنگلہ دیش میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہی ایک لفظ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمہ کا باعث بن گیا۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک حسینہ واجد کی جانب سے احتجاجیوں کو رضا کار قرار دینے کے بعد وزیر اعظم کے استعفے پر مرتکز ہو گئی۔

نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ بہرحال بنگلہ دیش میں فسطائیت کا طویل دور ختم ہوا اور اب وہاں ’ہم رضا کار ہیں، (ہم پاکستانی ہیں) کے نعرے گونج رہے ہیں۔