ایلون مسک

ایک چھوٹا سے آفس خریدنے کی سکت نہ رکھنے والا نوجوان 1016ارب ڈالر کی 6کمپنیوں کا مالک کیسے بنا؟

دنیا کے امیر ترین انسان سمجھے جانے والے ایلون مسک کی وجہ شہرت ویسے تو اُن کی دولت اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئے نئے کارنامے ہیں، لیکن وہ اپنے کاروبار کے حوالے سے غیر مقبول فیصلے کرنے کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے مائیکروبلاننگ سوشل پلیٹ فارم ٹویٹر کو 44ارب ڈالر کے عوض اپنی ملکیت میں لیا ہے۔ٹویٹر کو خریدنے کے اپنے پہلے اعلان سے لے کر اب تک وہ نہ صرف بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، بلکہ کافی متنازع بھی ہو گئے ہیں۔

ایلون مسک ٹیسلا، سپیس ایکس اور نیورا لنک جیسی ناکام سمجھی جانے والی کمپنیوں کو کیونکہ کامیابی کی بلندیوں تک پہنچا چکے ہیں، شاید اسی وجہ سے وہ پُر اعتماد ہو کر ٹویٹر کے سینئر ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے، ورک فرام ہوم کی سہولت ختم کرنے اور ٹویٹر صارفین کو 8ڈالر کے عوض ویری فکیشن بیج verification badgeدینے جیسے سخت اور جرات مندانہ فیصلے لے رہے ہیں۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایلون مسک اپنی دیگر کمپنیوں کی طرح ٹویٹر کو بھی اِس کے مقابلے کے سوشل پلیٹ فارمز ’’فیس بُک، ٹک ٹاک اور ٹمبلر ‘‘سے بہتر بنا پائیں گے اور کیا ٹویٹر مستقبل قریب میں دنیا کا سب سے بڑا اور جدید فیچرز سے لیس پلیٹ فارم بننے جا رہا ہے؟ اِن سوالات کے جوابات آپ کو یہ مضمون پڑھ کر یقینا مل جائیں گا، آئیے جانتے ہیں کہ ایلون مسک نے اپنی زندگی کی پہلی کمپنی سے لے کر آج تک کیا کارہائے نمایاں انجام دیے اور کیسے اُن کی نئے اور جدید خیالات دنیا بدل رہے ہیں۔

1999میں ایلون مسک ایک ایسا نوجوان تھا، جس کے پاس چھوٹا سا آفس خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے، لیکن آج 2022میں یہ وہی نوجوان ہے، جو1016ارب ڈالر قدر رکھنے والی 6کمپنیوں کا مالک بن گیا ہے۔یہ نوجوان سوچتا بہت تھا اور مستقل کے بارے میں پرجوش بھی انتہا کا تھا۔ ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے اس نے سوچا کہ انسان تو1969میں آج سے 53برس قبل ہی چاند پر قدم رکھ چکا ہے تو اب تک یہ مریخ پر کیوں نہیں پہنچ سکا؟ اپنے اس سوال کا جواب تلا ش کرنے کیلئے یہ ایک ایسے رستے پر چل پڑا، جس پر چلنے کا اس سے قبل کسی شخص تو دور کسی ادارے نے بھی سوچا تک نہ تھا۔ ایلون نے ناسا اور دنیا کی بڑے خلائی اداروں کے مقابلے میں سپیس ایکس نامی کمپنی بنا ڈالی ،لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ سپیس ایکس کے اتنے زیادہ منصوبے ناکام ہوں گے کہ جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔

پہلے پہل اس کی کمپنی میں بننے والے بے شمار راکٹس یا تو لانچنگ کے دوران ہی پھٹ گئے یا پھر لانچ ہونے کے فورا بعد ہی زمین پر آ گرے، لیکن ایلون مسک میں ایک ضد تھی، جس نے اسے نا امید نہ ہونے اور ناممکن کو ممکن کر دکھانے کے قابل بنایا ۔ جب اس کی کمپنی میں کام کرنے والے تمام ملازمین رات کو چھٹی لے کر گھر روانہ ہوجاتے تھے، تب بھی یہ اکیلے اپنے آفس میں کام کر رہا ہوتا تھا، اس کی دن رات کی محنت رنگ لائی اور آخر اس نے فالکن 9 کے نام سے دنیا کا پہلا سٹیج لینڈنگ ٹیسٹ کیا۔ اور یوں سپیس ایکس کمپنی ایسا راکٹ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئی، جسے زمین سے لانچ کرنے کے بعد دوبارہ لینڈ بھی کروایا جاسکتا ہے۔ یہ راکٹ تیار کرنا اس لیے بھی ناگزیر تھا کیونکہ جتنا ضروری مریخ پر انسانوں کو لے جانا ہے اس سے کہیں زیادہ اہم انہیں واپس زمین پر لانا ہے۔ لیکن کیا کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ بغیر پروں کے کیسے ایک راکٹ زمین پر بآسانی لینڈ کر رہا ہے یہ پھل ایلون مسک کی مسلسل محنت، لگن اور ہار نہ مارننے کی ضد کا تھا۔ ایلون مسک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمیں بچپن سے ضدی نہ ہونے کی تربیت دی جاتی ہے، لیکن ضدی ہونا اتنا بھی برا نہیں۔ آپ ضدی بن جائیں، اُس کام کیلئے جس میں آپ کو اپنا مستقبل نظر آتا ہے۔

ایلو ن مسک نے جب اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اپنی پہلی کمپنی کا آغاز کیا تو اُس زمانے میں ان کے پاس اپنی خوراک، اپنے لباس اور دیگر چیزوں کے اخراجات کو برداشت کرنے کے لیے کیونکہ رقم موجود نہیں تھی، اس لیے وہ YMCA جو غریب اور متوسط لوگوں کو مفت میں خوراک اور رہائش مہیا کرنے کیلئے ایک این جی او کی طرح کام کرتا ہے، وہاں جا کر اپنی ضرورت کی چیزوں کا بندوبست کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ نہانے کے لیے بھی انہیں YMCAجانا پڑتا تھا۔ اُن کے پاس کام کرنے کے لیے صرف ایک کمپیوٹر تھا، اُن کی ویب سائٹ دن میں چلتی تھی اور رات کو بیٹھ کر ایلون اور اُن کے چھوٹے بھائی ویب سائٹ کی کوڈنگ کیا کرتے تھے۔انہوں نے ’زپ 2‘ کے نام سے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی اور اِس پر کام شروع کر دیا۔ اِن دونوں بھائیوں کی اپنے کام کے ساتھ لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہفتے میں 7 دن اور 24 گھنٹے کام میں مصروف رہتے تھے۔ 24گھنٹے محاورتاً نہیں حقیقت میں ،اِن دونوں بھائیوں کی کوشش ہوتی تھی کہ جتنا زیادہ ہو سکے اپنے کام کو وقت دیں، یہ صرف سوتے وقت کام نہیں کرتے تھے۔ کام سے بڑھ کر اِن کیلئے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔مسلسل محنت اور لگن رنگ لائی اور 4 برس کی جدوجہد کا پھل انہیں ’زپ 2‘ کمپنی کو 307ملین ڈالر (تقریباً 59ارب پاکستانی روپے)کی خطیر رقم میں فروخت کر کے ملا۔

ایلون مسک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’اگر کوئی کمپنی دن میں8گھنٹے کام کر رہی ہے تو آپ 16گھنٹے کام کریں، یوں جو کمپنی 1برس میں کامیابی حاصل کرے گی، وہی کامیابی آپ صرف 6 ماہ میں حاصل کر لیں گے۔‘‘

آپ دنیا میں کوئی بھی کمپنی دیکھ لیں، چاہے پھر فیس بُک ہو، گوگل ہو، ٹیسلا ہو یا کوئی بھی دوسری کمپنی، اُن کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ بہترین پروڈکٹ ہوتا ہے۔ ایلون مسک بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے جب ٹیسلا کمپنی کو جوائن کیا تو خود سے یہ وعدہ کرلیا کہ اُن کی فیکٹری سے جو بھی گاڑی نکلے گی، اُس کا معیار بہت اعلیٰ ہوگا۔ ایلون مسک کی کاروباری پالیسی نے امریکا میں بہت سو کو متاثر کیا۔ ایلون نے ٹیسلا میں ایسی تمام چیزوں پر پیسے خرچ کرنے سے صاف انکارکر دیا تھا، جن سے پیسوں کا ضیاع ہو۔

مثال کے طور پر ٹیسلا کارز کی اشتہارات آغاز سے اب تک ٹیلی ویژن پر نہیں چلائے جاتے اور نہ ہی کسی ویب سائٹ پر ٹیسلا کی اشتہاری مہم دیکھنے کو ملتی ہے، حالانکہ آپ ایمازون سے آن لائن ٹیسلا خرید سکتے ہیں، لیکن آپ کبھی بھی ٹیسلا کے اشتہارات نہیں دیکھیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ایلون مسک اشتہارات پر پیسے صرف کرنے کے بجائے وہی پیسے اپنی گاڑی کے معیار کو بہتر بنانے پر لگاتے ہیں۔ آپ بھی جب کبھی اپنی کمپنی کا آغاز کریں یا اگر آپ پہلے سے ہی کوئی کمپنی چلا رہے ہیں تو یہ سنہری اصول اپنا لیں کہ آپ کی پروڈکٹ کا معیار سب سے بہتر ہونا چاہیے، وہ خود بہ خود بکے گی آپ کو اُس کے اشتہارات چلانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے، جب صارف آپ کی پروڈکٹ خریدے گا اور اُسے اُس کا معیارپسند آئے گا تو وہ اُس کے بارے میں اپنے اردگرد موجود دوسرے لوگوں کوبتائے گا، یوں مفت میں اشتہاری مہم کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا اور آپ کو اپنی پروڈکٹ کی تشہیر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

لیکن صرف اعلیٰ معیار ہی وہ چیز نہیں ہے کہ جس سے ایلون مسک نے ٹیسلا اور اپنی دیگر 6 کمپنیوں کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ مسلسل محنت سے انہوں نے یہ کارہائے نمایاں انجام دیا۔ ایلون مسک ایک انسان کی بجائے ،روبوٹ کی طرح کام کرتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور وہ ہے سب سے بہتر، سب سے اعلیٰ کا حصول ہے۔ ایلون اپنے سٹاف کو صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مجھے صبح 3بجے فون کریں یا رات کو، میں 24گھنٹے آپ کی مدد کیلئے موجود ہوں۔

ایلون نے جب ٹیسلا کمپنی کو جوائن کیا تو اُن کے سامنے دو مقاصد تھے، ایک یہ کہ دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رکھنے کیلئے الیکٹرک گاڑیاں کارگر ثابت ہو سکتی ہیںاور دوسرا یہ کہ فوسل فیولز یعنی پیٹرولیم مصنوعات کیونکہ قدرتی وسائل ہیں، اِس لیے ایک دن یہ ختم ہو جائیں گے۔دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ ٹیسلا کی بنیاد ایلون مسک نے نہیں رکھی تھی بلکہ اِس کے فاؤنڈرز مارٹن اور مارک نامی دو کاروباری شخصیات تھیں۔ ٹیسلا کے اِن دونوں فاؤنڈرز نے الیکٹرک گاڑیاں تو بنا لیں، لیکن یہ کمپنی کو کامیاب بنانے کیلئے کوئی خاطر خواہ کام نہ کر سکے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ٹیسلا کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ ایسے میں ایلون مسک نے بطور سی ای او ٹیسلا کو جوائن کیا اور ٹیسلا کے کاروباری ماڈل میں حیران کا اور غیر معمولی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے کمپنی کا 25فیصد سٹاف ختم کر دیا، اُن کے مطابق یہ سٹاف اضافی تھا۔ یہ اضافی سٹاف ختم کرنے سے کمپنی کا خرچ اچانک کم ہو گیا، اسی طرح انہوں نے الیکٹرک گاڑیوں کے سب سے بڑے مسئلے یعنی اُس کے مائلیج کو بڑھانے کے لیے ریسرچ پردل کھول کر خرچ کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے امریکی حکومت سے بھی اربوں روپے قرض لیا۔ ایلون مسک کا یہ نیا بزنس ماڈل کام کر گیا۔ وہ الیکٹرک گاڑیوں کے مائلیج کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے 2008میں ’روڈسٹر‘ کے نام سے گاڑی لانچ کی، جو صرف ایک چارج میں 394کلومیٹر کا سفر طے کر سکتی تھی۔ اس گاڑی کے ریلیز کے بعد ٹیسلا نے غیر معمولی کامیابیوں کا سفر شروع کیا اور الیکٹرک گاڑیوں کو ایک نئی جہت سے متعارف کروایا۔ آج وہی الیکٹرک کارز جن کی کامیابی پر کسی کو یقین نہ تھا، دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر نہ صرف فروخت ہو رہی ہیں، بلکہ ٹیسلا کار کمپنی کی مارکیٹ ویلیو آج دنیا کی تمام گاڑی ساز کمپنیوں کی مارکیٹ ویلیو کو ملا لیا جائے تو اُس سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 2022میں 797.30بلین ڈالر ہے۔ٹیسلا مارکیٹ کپیٹل کے لحاظ سے دنیا کی چھٹی سب سے زیادہ قدر رکھنے والی کمپنی بھی بن گئی ہے۔

یہ تو ایلون مسک کی ٹیسلا کو کامیاب بنانے کی کہانی ہے، جس میں اُن کی کاروباری حکمت عملی نے کام دکھایا اور کمپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتی چلی گئی، لیکن ایلون کی زندگی میں سب کچھ خوبصورت اور کامیابی سے بھرپور نہیں تھا۔ ایلون نے جب ’سپیس ایکس‘ کمپنی کی بنیاد رکھی اور2025تک انسان کو مریخ پر بھیجنے کافیصلہ کیا تو یہ فیصلہ خودکشی کی طرح تھا۔ کیونکہ جو کام دنیا کی بڑی بڑی معاشی طاقتیں اور خلائی ادارے جیسا کہ امریکا کا خلائی ادارہ ’ناسا‘ اور روس کا ’روسکاسموس‘ نہیں کر سکے، وہ آخر ایک پرائیویٹ کمپنی کیسے کر سکتی تھی ۔ لوگوں کی توقعات کے عین مطابق ایلون مسک کو اپنے راکٹس کی لانچنگ میں پے در پے ناکامیاں ہوئیں۔ حالات اِس نہج تک آ گئے کہ ایلون مسک کو ایک انٹرویو میں روتے ہوئے دیکھا گیا۔

انٹرویو کرنے والے میزبان نے اُن سے سوال کیا کہ ’’چاند پر پہلا قدم رکھنے والے نیل آرمسٹرونگ اور خلا باز جین کارنن نے کمرشل بنیادوں پر انسانوں کوچاند یا مریخ پر بھیجنے کی مخالفت کی تھی، تو آپ (ایلون مسک) ایسا کیوں کر رہے ہیں۔‘‘

ایلون مسک نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ ’’یہ لوگ میرے ہیروز ہیں، مجھے نیل آرمسٹرونگ اورجین کارنن کے خیالات جان کر بہت دکھ ہوا، لیکن میری خواہش ہے کہ یہ لوگ آئیں اور دیکھیں کہ ہم کتنی محنت کر رہے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ ہماری محنت دیکھ کر انہیں اپنے خیالات بدلنے پڑیں گے۔‘‘ایلون مسک کی یہ بات سچ ہے، کیونکہ ان کے انٹرویو کے 5برس بعد وہ اب اس قابل ہو گئے ہیں کہ انسان کو کمرشلی چاند اور مریخ پر لے جا سکتے ہیں۔ کچھ عرصے تک تجرباتی مراحل سے گزرنے کے بعد وہ باقاعہ اپنے اس منصوبے کا افتتاح کرنے جار ہے ہیں۔