وارن بفٹ۔۔۔ سرمایہ کاری کا جادوگر

دنیا کے امیر اور کامیاب ترین انسانوں کی فہرست دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سرمایہ کار وارن بفٹ اس فہرست میں 5ویں نمبر پر آتے ہیں۔ رواں برس 20 میں کل نیٹ ورت001ارب ڈالر ہے۔

لیکن یہ دھن دولت ان کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے، ان کی حیات کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو سننے اور دیکھنے والے کو حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ وارن بفٹ صرف 11 برس کے تھے، جب انہوں نے اپنا پہلا شیئر 38 ڈالر میں خریدا۔ ایک دن بفٹ نے خود سے وعدہ کیا کہ 30 برس کی عمر میں انہوں نے کسی طرح کروڑ پتی بننا ہے اور اگر وہ اپنے اِس مشن میںناکام ہو گئے تو اوماہا کی سب سے بڑی بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لیں گے۔

بفٹ کا خود سے کیا گیا یہ وعدہ سننے میں تھوڑا عجیب اورخطرناک لگتا ہے۔ اور میں بھی آپ کو خود سے اِس قسم کا کوئی وعدہ کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا، لیکن بفٹ نے خود سے یہ وعدہ ہمیشہ موٹیویٹ رہنے کے لیے کیا تھا۔ جب بھی وہ محنت سے تھک ہار جاتے تو اُنہیں اپنا وعدہ یاد آجاتا۔ وارن بفٹ نے معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہاورڈ یونیورسٹی میں داخلے کیلئے اپلائے کیا، لیکن ان کی درخواست رد کر دی گئی، لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور بعدازاں اپنی محنت اور ٹیلنٹ کے بلبوتے پر دنیا کی 10 امیر اور کامیاب شخصیات کی فہرست میں شامل ہوئے، ہاورڈ یونیورسٹی آج بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ وارن بفٹ کو داخلہ نہ دے کر انہوں نے یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے غلط فیصلہ کیا تھا، چلیں یہ تو بات الگ ہے، اسے بعد میں ڈسکس کریں گے، ابھی میں آپ کو بفٹ کے خود سے کیے وعدے سے متعلق بتاتا ہوں.

بفٹ کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُس وقت کے امریکا کے سب سے کامیاب سرمایہ کار بنجامن گراہم سے سرمایہ کاری کا علم حاصل کریں۔

انہوںنے بنجامن کے ساتھ مفت میں کام کرنے کی درخواست بھی کی، لیکن وہ بھی رد کر دی گئی۔ بفٹ نے ہمت نے ہاری اور جدوجہد جاری رکھی، انہوں نے سرمایہ کاری کے مختلف آئیڈیاز خود سے تخلیق کرنا شروع کر دئیے اور اُنہیں باقاعدگی سے بنجامن کو بھیجنا شروع کر دیا۔ بفٹ کے نئے خیالات اور سرمایہ کاری میں رجحان سے متاثر ہو کر بنجامن نے بفٹ کو 12 ہزار ڈالر سالانہ تنخواہ پر نوکری پر رکھ لیا۔

یہ تنخواہ 1954ء میں کسی بھی اوسط درجے کے ملازم کی تنخواہ سے چار گنا زیادہ تھی۔ بفٹ کو نوکری پر رکھنے کے صرف دو برس بعد بنجامن نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ جبکہ بفٹ نے عملی طور پر سرمایہ کاری کے وہ تمام گُر استعمال کرنا شروع کردئیے جو انہوں نے بنجامن سے سیکھے تھے۔ بفٹ جب 26 برس کی عمر کو پہنچے تو اُن کی دولت ایک لاکھ چالیس ہزار ڈالر تھی۔ یعنی تیس برس کا ہونے میں ابھی صرف چار برس باقی رہ گئے تھے اور بفٹ ملین ایئر کا سٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔

1962ء میں ’سست مگر درست‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے آخر وہ ساڑھے چار لاکھ ڈالر کے مالک بن گئے۔ صرف دو برس بفٹ کی پارٹنر شپ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گئی اور اُن کی کمپنی کی قدر 17 ملین ڈالر ہو گئی، جس میں بفٹ کی حصے داری 1.8 ملین ڈالر تھی۔ یوں وارن صرف 28 برس کی عمر میں کمپاؤنڈ افیکٹ کا استعمال کرتے ہوئے ملین ایئر کا سٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ ان کی دولت کی کل مالیت 115 ارب ڈالر تک پہنچی.

وارن بفٹ گزشتہ 20برس سے دنیا کے سب سے زیادہ دولت مند انسانوں کی اس فہرست میں دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچواں نمبر پر آ رہے ہیں۔ یہ سیلف میڈ بلین ایئر ہیں، یعنی اِنہوں نے جتنی بھی دولت کمائی ہے، وہ انہیں وراثت میں نہیں ملی یا اِن کے گھر کے نیچے کوئی تیل کا کنواں نہیں تھا، جسے بیچ کر انہوں نے اتنے ڈھیر سارے پیسے کما لیے، بلکہ انہوں نے محنت، لگن، عقلمندی، سرمایہ کاری کی سوجھ بوجھ اور نئی نئی کاروباری حکمت عملیوں کے تجربات کر کے یہ مقام حاصل کیا ہے۔

لیکن وارن آج بھی اپنے 60سال پُرانے والے گھر میں رہائش پذیر ہیں اور اِسی گھر میں اِن کا چھوٹا سا ایک آفس ہے، جو اِن سے قبل اِن کے والد کے استعمال میں تھا۔ اِن کے پاس 2006کی کیڈلک گاڑ ی ہے۔ یہ نہ اپنی گاڑی کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی بہت بڑا گھر خرید تے ہیں، حالانکہ اگر یہ چاہیں تو صرف لمحے بھر میں پاکستان کا تمام قرض اُتارسکتے ہیں۔ اِن کے پاس اتنی زیادہ دولت ہے کہ پلک جھپکنے میں دنیا کی سب سے بڑی بلڈنگ برج خلیفہ اور برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم کی دنیا کی سب سے مہنگائی رہائش گاہ (4.9ارب ڈالر مالیت) خرید سکتے ہیں۔اِن کی ٹوٹل نیٹ ورتھ 120ارب ڈالر ہے۔لیکن باوجود اس کے ، انہوں نے ساری زندگی ایک موبائل تک نہ خریدا، اب جبکہ سمارٹ فون زندگی کی اہم ضرورت بن گیا ہے اور اس پر دنیا جہاں کی معلومات بھی حاصل کی جا سکتی ہے، اسی لیے انہو ں نے آئی فون خریدا ہے۔

انہوں نے آج تک کمپیوٹر کا استعمال نہیں کیا، یہ کمپیوٹر چلانا نہیں جانتے، لیکن یہ صرف کتابیں اور اخبار کا مطالبہ کر کے دنیا کے امیر ترین انسان بن گئے ہیں۔ یعنی یہ آج کے نوجوانوں کی طرح کبھی بھی دکھاوے کی چیزوں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

وارن بفٹ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’اگر ایک شخص 50ہزار ڈالر کماتا ہے اور وہ اِس میں سے صرف اپنے لباس پر ہی 5 ہزار ڈالر خرچ کر دیتا ہے تو یہ شخص خسارے میں ہے۔ اسی طرح اگر میں 50کروڑ ڈالر ماہانہ کماتا ہوں اس میں سے 5کروڑ ڈالر ہر ماہ اپنے لباس پر خرچ کر دیتا ہوں تو میں بھی خسارے میں ہوں۔ ‘‘یعنی ہر شخص کو اپنی آمدن ایک چھوٹا حصہ اُن چیزوں پر خرچ کرنا چاہیے ، جن کی اُسے ضرورت نہیں ہے۔

وارن نے اپنے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نہ استعمال کرنے سے متعلق ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اُنہوں نے زندگی میں ایک مرتبہ مائیکروسافٹ میں اپنے ایک دوست کو اُس کے ای میل کا ری پلائی کیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کیونکر مائیکروسافٹ میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے۔ انہوں نے ایک پوری فہرست مرتب کر دی اورآخر میں نبیراسکا کی فٹ بال ٹیم جو کہ اچھا پرفارم نہیں کر رہی تھی، اُسے بھی مائیکروسافٹ کے شیئر نہ خریدنے سے جوڑ دیا، لیکن امریکی خفیہ ایجنسی نے وارن بفٹ کی ای میل ٹریک کر لی اور اِس کا کیس سٹڈی کے طور پر مطالعہ کیا اور اگلے ہی دن اِسے اخبار میں شائع کر دیا گیا۔

وارن بفٹ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’اگر ایک شخص 50ہزار ڈالر کماتا ہے اور وہ اِس میں سے صرف اپنے لباس پر ہی 5 ہزار ڈالر خرچ کر دیتا ہے تو یہ شخص خسارے میں ہے۔ اسی طرح اگر میں 50کروڑ ڈالر ماہانہ کماتا ہوں اس میں سے 5کروڑ ڈالر ہر ماہ اپنے لباس پر خرچ کر دیتا ہوں تو میں بھی خسارے میں ہوں۔ ‘‘یعنی ہر شخص کو اپنی آمدن ایک چھوٹا حصہ اُن چیزوں پر خرچ کرنا چاہیے ، جن کی اُسے ضرورت نہیں ہے۔

وارن نے اپنے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نہ استعمال کرنے سے متعلق ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اُنہوں نے زندگی میں ایک مرتبہ مائیکروسافٹ میں اپنے ایک دوست کو اُس کے ای میل کا ری پلائی کیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کیونکر مائیکروسافٹ میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے۔ انہوں نے ایک پوری فہرست مرتب کر دی اورآخر میں نبیراسکا کی فٹ بال ٹیم جو کہ اچھا پرفارم نہیں کر رہی تھی، اُسے بھی مائیکروسافٹ کے شیئر نہ خریدنے سے جوڑ دیا، لیکن امریکی خفیہ ایجنسی نے وارن بفٹ کی ای میل ٹریک کر لی اور اِس کا کیس سٹڈی کے طور پر مطالعہ کیا اور اگلے ہی دن اِسے اخبار میں شائع کر دیا گیا۔

وارن بفٹ کو اخبار میں اپنا لیک ای میل دیکھ کر بہت افسوس ہوا، اُس کے بعد انہوں نے کبھی ای میل یا کمپیوٹر کا استعمال نہیں کیا۔ دراصل کمپیوٹر یا ای میل کا اُن کے کاروبار سے دور دور تک تعلق بھی نہیں ہے، وہ سال میں ایک مرتبہ اپنی تمام 63کمپنیز کے سی ای اوز کو خط ضرور لکھتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ اُن کا سالانہ گول کیا ہے، اُن کے اس خط کو تمام سی ای اوز اپنے ملازمین کو پڑھاتے ہیں۔ وارن بفٹ کسی بھی کمپنی کے سی ای او یا کسی بھی کاروباری شخص سے میٹنگ نہیں کرتے، بلکہ یہ 12سے 14گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں، یہ اخبار پڑھتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں، اعداد و شمار دیکھتے ہیں اور پھر یوں اِن کی ایک ایک بات کروڑوں ڈالرز کی اہمیت حاصل کر جاتی ہے، کیونکہ ان کے فیصلوں، اُن کی باتوں اور اِن کی حکمت عملی کے پیچھے وسیع مطالعہ ہوتا ہے۔
وارن بفٹ کو سرمایہ کاری کی دنیا میں آج ایک جادوگر اور کنگ کا خطاب دیا جاتا ہے، کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اِن کے پاس کوئی ٹائم مشین ہے جس میں یہ مستقبل کو دیکھ لیتے ہیں اور پہلے ہی جان لیتے ہیں کہ کس کمپنی کے سٹاکس کی ، سٹاک مارکیٹ میں آگے چل کر ویلیو بڑھ جائے گی اور کون سی کمپنی دیوالیہ ہو جائے گی۔ آج تک انہوں نے زندگی میں جتنی بھی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی، وہ سب کامیاب ہوئیں، اور اِن کے اپنے خزانے اتنے بھر گئے کہ یہ دنیا کے امیر ترین انسان بن گئے۔ لیکن اِن کے چند اصول ہیں، جو انہوں نے اپنی زندگی کے آغاز میں ہی بنا لیے تھے، اُن رولز پر عمل پیرہ ہو کر ہی یہ آج کامیابی کے زینوں کو عبور کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ لوگ اِن سے بات کرنے کے بھی کروڑوں روپے ادا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ بولی لگائی گئی کہ وارن بفٹ سے بات کرنے کے لیے لوگ کتنے پیسے ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بولی کی رقم 35کروڑ تک پہنچی اور ایک شخص نے یہ رقم ادا کر کے وارن بفٹ کے ساتھ لنچ کیا۔وارن بفٹ نے 35کروڑ کی یہ رقم یتیم و مسکین بچوں میں تقسیم کر دی۔

وارن نے اپنا یہ اصول بنایا تھا کہ وہ سوتے وقت بھی پیسے بنائیں گے، یعنی وہ اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’وقت پیسہ ہے۔‘‘ وارن کہتے ہیں کہ جو شخص اتنا عقلمند نہیں کہ وہ سوتے وقت بھی پیسہ نہ بنا سکے، وہ پوری زندگی محنت کر کے اور پیسہ کماتے کماتے ہی مر جائے گا، لیکن وہ کبھی امیر نہیں ہو پائے گا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کوئی شخص سوتے وقت پیسے کیسے کما سکتا ہے، تو بھئی! جیسا کہ وارن بفٹ کا میں اوپر تعارف کروا چکا ہوں کہ یہ سرمایہ کاری کی دنیا کے ایک لیجنڈ، ایک جادوگر اور کنگ ہیں۔ یہ ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جن کے حوالے سے اِن کے اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ مستقبل میں یہ کمپنیاں بہت سارا پیسہ کما سکتی ہیں یا اِن کمپنیوں کی ویلیو بڑھ سکتی ہے۔ اب یہ سرمایہ کاری کرتے ہیں اور آرام سے سو جاتے ہیں، باقی کاکام یہ کمپنی پر چھوڑ دیتے ہیں ۔یہ تمام کمپنیاں پیسہ جنریٹ کرتی ہیں اور وارن بفٹ کے خزانے کو بھرتی چلی جاتی ہیں۔

جہاں عام لوگ سٹاک مارکیٹ میں شارٹ ٹم سرمایہ کاری کرتے ہیں اور جیسے ہی اُن کے شیئر کی قدر گرنے لگتی ہے تو یہ اپنے پیسے نکال لیتے ہیں، وہیں وارن بفٹ اپنے پیسے کبھی نہیں نکالتے، یہ لانگ ٹرم سرمایہ کاری پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ اپنا پیسہ انویسٹ کرتے ہیں اور پھر 20سے 25سال تک بھول جاتے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ 20سے 25برس بعد وہی کمپنی جو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتی ہے اور جس میں سے تمام لوگ اپنے پیسے نکال لیتے ہیں، وہیں وارن بفٹ اس کے برعکس اپنا سرمایہ کمپنی سے نہیں نکالتے ، بلکہ اُس کمپنی کے واپس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور آج تک 90فیصد کیسز میں انہیں کامیابی ملی ہے۔یہ بچپن میں بین گراہم کی مشہور کتاب ’دی انٹیلی جنٹ انویسٹر‘ سے متاثر ہوئے تھے۔اِس کتاب سے متعلق وارن بفٹ نے بتایا تھا کہ کاروبار میں جذباتی فیصلوں کے بجائے، ہمیشہ تیار رہنے کی حکمت عملی کارگر ثابت ہوتی ہے، جس پر انہوں نے ساری زندگی عمل کیا۔

یاد رکھیں کہ امیر لوگ اس لیے امیر نہیں ہیں کہ وہ امیر دکھائی دیتے ہیں، بلکہ وہ اس لیے امیر ہیں کہ اُن کے پاس ایسی سکلز اور حکمت عملیاں ہیں، جو انہیں امیر بناتی ہیں، جبکہ آج کے نوجوان صرف امیر دکھائی دینا چاہتے ہیں، یہ لوگ وہ سکلز حاصل نہیں کرنا چاہتے جو انہیں آگے بڑھنے میں مددد ے سکتی ہیں، یہ لوگ اُن چیزوں میں سرمایہ کاری بھی نہیں کرنا چاہتے تو آگے چل کر اثاثہ یعنی assetsبن سکتی ہیں، بلکہ یہ اپنا مالی بوجھ بڑھا لیتے ہیں۔ وارن بفٹ کہتے ہیں کہ وہ پیسہ کبھی خرچ نہ کریں جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ وارن کا کہنے کا مقصد ہے کہ آپ قرض لے کر اُس سے اپنا عیاشی کا سامان اکٹھا نہ کریں۔