پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
حکومت کو مدت پوری کرنی چاہیے!
اللہ مجھے بدگمانی سے بچائے مگر اب اس کا کیا کریں کہ دل میں کوئی خیال پیدا ہو اور وہ پھر جڑ بھی پکڑ جائے؟ میرا خیال ہے کہ ہم اجتماعی طور پر کمزور یادداشت کے مالک جلد باز، تحمل سے محروم اور نہایت بے صبرے واقع ہوئے ہیں۔ باقی تو چھوڑیں ہم جس کو دھوم دھڑکے سے اور بڑے جوش و خروش سے ووٹ دے دلا کر لاتے ہیں‘ ابھی دو تین سال بھی نہیں گزرتے کہ اس کے لتے لینے شروع کر دیتے ہیں، اس سے بیزار ہو جاتے ہیں اور تھوڑا عرصہ پہلے رد کئے گئے لوگوں کی محبت پھر ہمارے دل میں عود آتی ہے۔ بالکل اس دیہاتی کی طرح جسے کہیں سے بہت سارے خربوزے مفت مل گئے تھے۔ وہ ایک خربوزہ کاٹتا، اسے چکھتا‘ میٹھا نکلنے پر کھا لیتا اور پھیکا نکلنے پر پھینک دیتا۔ جب سارے میٹھے خربوزے کھا لئے تو پھر رد کرکے پھینکے گئے پھیکے خربوزوں کو دوبارہ سے اٹھا کر کھانا شروع کر دیا کہ اب وہ پھیکے بھی میٹھے لگ رہے تھے۔ ہمارا ووٹر بھی اس دیہاتی کی طرح مسترد کردہ پھیکے سیاسی خربوزوں کو دوبارہ سے اٹھاتا ہے اور مزے لے لے کر کھاتا ہے۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ جس سے دو تین سال میں تنگ آکر اس کی رخصتی پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں‘ اسی کو ایک دو سال قبل از وقت رخصتی پر مظلوم کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے اور وہ ڈھیروں ہمدردیاں سمیٹ لیتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی جوہری تبدیلی نے تو خیر کیا آنا ہے‘ بنیادی طور پر دو پارٹیوں سے ہی جان نہیں چھوٹ رہی تھی کہ ایسے میں پاکستانیوں نے عمران خان کو ہوا کا تازہ جھونکا سمجھ کر ان سے اپنی امیدیں وابستہ کر لیں۔ اب ان امیدوں کے ساتھ کیا ہوا‘ اس کا ذکر تو رہنے دیں لیکن صورتحال پھر وہی ہے جس نے عشروں سے نہ تو اس ملک کی جمہوریت کو مستحکم ہونے دیا ہے اور نہ ہی نظام کو مضبوط ہونے دیا۔ ساڑھے تین سال گزرے ہیں اور دھرنے اور لانگ مارچ جیسے تماشے سڑکوں پر سجنے جا رہے ہیں۔ ویسے تو خان صاحب اب خود عین وہی کچھ کاٹ رہے ہیں جو انہوں نے بویا تھا‘ لیکن بات ان کا بویا ہوا کاٹنے کی نہیں بلکہ جمہوری اقدار کے پروان چڑھنے اور انتخابی سیاست کے استحکام سے متعلق ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم جس حکومت کو اس کی مدت پوری ہونے سے پہلے چلتا کرتے ہیں‘ تو نہ صرف اسے مکمل طور پر ایکسپوز ہونے سے بچا لیتے ہیں بلکہ اسے مظلوم بھی بنا دیتے ہیں اور وہ اپنی اس مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر اگلی دفعہ پھر ہمدردی کے ووٹ اینٹھ لیتی ہے۔ قبل از وقت فارغ کئے جانے والے سبھی حکمران فراغت کے بعد یہی رٹا رٹایا سبق سناتے ہیں کہ ان کی حکومت کے یہی تین یا چار سال (جتنی مدت بھی انہوں نے حکومت کی ہو) مشکل تھے اور ان کا یہ سارا عرصہ تو گزشتہ حکومت کا گند صاف کرنے اور ان کی ناکام اور تباہ کن معاشی پالیسیوں کے اثرات ختم کرنے میں گزر گیا‘ اور اب ہی تو وہ وقت آیا تھا جب ان کی معاشی پالیسیوں کے اثرات اور نتائج سامنے آنا شروع ہو رہے تھے کہ ان کی حکومت ختم کر دی گئی اور انہیں اپنے پروگرام اور وژن کے مطابق پرفارم کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔
اب اگر ساڑھے تین سال کے بعد عمران خان کو کسی بھی طرح ہٹا دیا جاتا ہے تو ان کے پاس بھی یہی گھسی پٹی دلیل ہو گی کہ اب جا کر کہیں معاشی ارسطو اسحاق ڈار کی جعلسازی پر مبنی معیشت کے تباہ کن اثرات سے بمشکل چھٹکارا حاصل کیا تھا‘ اور ملک کی معاشی حالت کو اس صورتحال میں لائے تھے کہ اپنے وعدے پورے کرتے اور عوام کو ریلیف دیتے کہ ہمیں فارغ کردیا گیا۔ یہ وہی پروٹوٹائپ بیان ہو گا جو سابق حکومتیں اپنی قبل از وقت فراغت پر نہ صرف یہ کہ ہمیشہ دیتی رہی ہیں بلکہ ان کے حامی ان کے اس بیان سے پوری طرح اتفاق بھی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
کسی بھی حکمران کو مکمل ایکسپوز کرنے اور آئندہ الیکشن میں اس کے گزشتہ وعدوں کے حوالے سے اس کی جوابدہی کیلئے ضروری ہے کہ اسے اس کی مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ وہ اپنی ناکامی کا ملبہ اس آخری ڈیڑھ دو سال کی قبل از وقت فراغت کے کندھوں پرڈال کر خود کو بری الذمہ قرار نہ دے سکے۔ یہ عاجز ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک ہر قبل از مدت فارغ کئے جانے والے حکمران سے یہی تاویل سن رہا ہے کہ عین جب اس کی کاوشوں کے مثبت نتائج آنے کا وقت آیا‘ اسے گھر بھیج دیا گیا۔ اگر اسے مزید ڈیڑھ یا دو سال مل جاتے تو وہ اس ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیتا اور خوشحالی کی لہربہر کر دیتا۔
دور کیوں جائیں‘ آپ روزانہ کی بنیاد پر موجودہ حکمرانوں کی باتیں سنیں تو وہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ بس مشکل وقت گزرنے والا ہے اور آنے والے دن بہت شاندار ہوں گے، ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگا اور ملکی معیشت نہ صرف اپنے پائوں پر کھڑی ہو جائے گی بلکہ معاشی صورتحال ہی بدل جائے گی۔ ہر دفعہ عوام پر نیا بوجھ لادتے ہوئے خان صاحب فرماتے ہیں کہ انہیں یہ سب کچھ کرتے ہوئے غریب کا مکمل احساس ہے لیکن وہ کیا کریں؟ گزشتہ حکمران معیشت کا اس طرح بیڑہ غرق کر گئے ہیں کہ اس کی درستی کیلئے یہ سخت اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں اور ان کی جعلی اعدادوشمار پرمبنی معیشت کو نئے سرے سے اپنے پائوں کھڑا کرنے کیلئے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ ناپسندیدہ فیصلے کر رہے ہیں‘ لیکن گھبرانا نہیں! یہ بس چند ماہ کی بات ہے اور اس کے بعد راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے۔
اگر گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں پچاس لاکھ مکانوں کے منصوبے کی بنیادیں بھی نہیں ڈالی جا سکیں تو بھلا اگلے ڈیڑھ سال میں خان صاحب کیا توپ چلا لیں گے؟ اگر یہ گزشتہ بیالیس ماہ میں سات صفروں پر مشتمل ایک کروڑ نوکریوں کا ایک صفر بھی لوگوں تک نہیں پہنچا سکے تو اگلے اٹھارہ ماہ میں کون سا تیر چلا لیں گے؟ لیکن اب اس کا کیا حل ہے کہ گزشتہ ہر حکمران کی طرح خان صاحب بھی ہر روز عوام کو یہی خوشخبری سنا رہے ہیں کہ بس اچھے دن آنے والے ہیں۔
اس ‘اچھے دن‘ پر یاد آیا خان صاحب کے جانثار عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی‘ جو نہ صرف یہ کہ خان صاحب کے شیدائی ہیں بلکہ ان کے گرائیں ہیں اور ان کی برادری سے بھی ہیں‘ نے تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے ایک گانا گایا تھا جس کے بول تھے کہ اچھے دن آئے ہیں۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کے ایک میوزک کنسرٹ میں اچھی خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اس دوران کرسیاں بھی ٹوٹیں اور مار پیٹ کی خبریں سننے میں آئیں۔ اللہ جانے یہ حقیقت ہے یا کسی نے اڑائی ہے کہ یہ سارا ہنگامہ اور ساری بدنظمی تب شروع ہوئی جب عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے یہی گانا شروع کیا۔ دروغ بر گردنِ راوی، جیسے ہی عیسیٰ خیلوی صاحب نے اچھے دن آئے ہیں گانا شروع کیا‘ ہنگامہ آرائی اور مار پیٹ شروع ہوگئی۔
ویسے ہر حکومت کی طرح اس حکومت کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کی آمد سے اس ملک میں اچھے دن آئے ہیں لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ یہ اچھے دن حکمرانوں اور ان کے طبلچیوں کے علاوہ اور کسی کو دکھائی نہیں پڑ رہے۔ ان سب باتوں کے باوجود اس عاجز کا خیال ہے کہ حکومت کو اپنے پانچ سال پورے کرنے چاہئیں۔ پانچ سال پورے کرنے کے بعد حکمرانوں کیلئے عوام کو مزید بے وقوف بنانے کے امکانات کافی حد تک کم ہو جائیں گے۔