پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
برطانوی عجائب گھروں میں لوٹ مار کا مال … (1)
پرانی چیز کو دوبارہ دیکھنے کا اپنا ہی لطف ہے اور اگر اس دوران تھوڑا وقت گزر گیا ہو تو اس پرانی شے کو دیکھنا بھی ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے اسے نئے سرے سے دیکھا جا رہا ہو۔ تصویروں کے پرانے البم اس کی شاید سب سے قریبی مثال ہیں۔ گزشتہ تین عشروں کے دوران بہت سی چیزیں متروک ہو گئی ہیں‘ ان میں پرانے فلموں والے کیمرے بھی شامل ہیں۔ میرا اپنے وقت کا شاندار اور جدید Minolta کا SLR کیمرہ اب لائبریری میں کتابوں کی الماری کے اوپر والے خانے میں پڑا بھلے دنوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کیمرے کے لیے بعد میں باقاعدہ پیسے جمع کر کے جو دو عدد ٹیلی لینز خریدے گئے تھے‘ اب بیکار پڑے ہیں۔ اس کے کیس کے اندر ایک عدد غیر استعمال شدہ 35mm کی کیمرہ فلم بھی پڑی ہے۔ سوچتا ہوں ایک شیشے کا شو کیس بنوا کر ڈرائنگ روم میں رکھوں اور اس میں یہ کیمرہ’ اس کے لینز اور فلم رکھوں۔ اسی شوکیس میں ڈائل والا پرانا فون اور گولی والی بوتل بھی رکھوں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو آئندہ شو کیسوں میں ہی نظر آئیں گی۔ لے دے کر اب صرف شادی پر ہونے والے فوٹو شوٹس والی البم بچ گئی ہیں وگرنہ یہ شے بھی قصہ ٔ ماضی بن گئی ہوتی۔ اب بھی پرانی البم دکھائی پڑ جائے تو بندہ اسی طرح اشتیاق اور دلچسپی سے دیکھتا ہے جس طرح چند برس پہلے دیکھا ہوتا ہے۔ عجائب گھروں کا بھی یہی حال ہے۔
میں نے پہلی بار برٹش میوزیم غالباً 1999ء میں دیکھا تھا۔ دوسری بار تب دیکھا جب میں لندن میں رؤف کلاسرا کے پاس اس کے رسل سکوائر کے قریب واقع فلیٹ میں ٹھہرا تھا۔ برٹش میوزیم رسل سکوائر سے پانچ چھ منٹ کے پیدل فاصلے پر واقع ہے۔ تیسری بار تب دیکھا جب میری منجھلی بیٹی میرے ساتھ لندن گئی۔ آپ یقین کریں ہر بار اس عجائب گھر کو اُسی ذوق و شوق‘ لگن اور اشتیاق کے ساتھ دیکھا جس طرح اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس بار میں نے چوتھی مرتبہ دیکھا ہے لیکن دل ابھی بھرا نہیں۔ زندگی رہی اور موقع ملا تو اسے ایک بار پھر دیکھوں گا اور ارادہ ہے کہ اسے اس طرح دیکھوں گا جس طرح دیکھنے کا حق ہے کہ ہر بار اس کی محض چند گیلریاں ہی دیکھ پاتا ہوں۔ کبھی یہاں پہنچتا دیر سے ہوں اور کبھی اسے دیکھ کر کہیں پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔ میں ابھی تک پورا عجائب گھر دیکھ ہی نہیں سکا اور اسے ایک دن میں اچھی طرح دیکھنا ممکن بھی نہیں۔ ساری دنیا سے لوٹ مار کرکے لائی گئی چیزوں کی ایسی بہتات کہ ختم ہونے میں ہی نہ آئے۔ ہر چیز کو دیکھنا اور اس کے ساتھ رکھی گئی تحریروں کو پڑھنا‘ بھلا یہ سب کچھ صرف ایک ہی دن میں کس طرح بھگتایا جا سکتا ہے؟
پہلی بار تو یوں کیا کہ اس عجائب گھر کا مبلغ ڈیڑھ‘ دو پائونڈ میں تفصیلی نقشہ بھی خریدا مگر اس نقشے نے آسانی کے ساتھ ساتھ مشکل بھی پیدا کر دی اور یہ کہ اپنی مرضی کی گیلریاں تو دیکھ لیں مگر ان گیلریوں تک نہ پہنچ سکا جن کے بارے میں پہلے سے کوئی جانکاری نہ تھی۔ دوسرے لفظوں میں جانی ہوئی چیزوں کو مزید جانا لیکن جن کے بارے میں پہلے کچھ خاص علم نہ تھا‘ وہ اسی طرح نامعلوم ہی رہیں۔ یہ شاید انسانی فطرت ہے کہ وہ پہلے سے معلوم چیزوں کے بھید جاننے کے بارے میں زیادہ تردد کرتا ہے بہ نسبت ان چیزوں کے جن کے بارے میں اسے سرے سے ہی کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ مشاعروں میں سامعین عموماً شاعروں سے ان کا نیا کلام سننے سے زیادہ اس کلام کو سننے میں زیادہ جوش کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کو انہوں نے نہ صرف پڑھ یا سن رکھا ہوتا ہے بلکہ اسے باقاعدہ یاد بھی کر رکھا ہوتا ہے۔
اب آپ خود سوچیں کہ تقریباً آٹھ لاکھ مربع فٹ سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے اس وسیع و عریض عجائب گھر کو جس کی نوے سے زیادہ گیلریاں ہوں اور اس میں مل ملا کر کل اسی لاکھ کے لگ بھگ نوادرات رکھے ہوں‘ دو چار دن میں دیکھنا بھی ممکن نہیں اور میں جو کئی چیزوں کے پاس ایسے رک جاتا ہوں کہ آگے جانے کو دل نہیں کرتا تو بھلا اس عجائب گھر کو کس طرح پورا دیکھ سکتا ہوں؟ مصر سے اٹھا کر لائی گئی حنوط شدہ لاشوں (Mummies) والا سیکشن از خود اتنا دلچسپ اور حیران کن ہے کہ گھنٹہ بھر تو اسی کمرے میں لگ جاتا ہے اور وقت گزرنے کا اندازہ صرف اس بات سے ہوتا ہے کہ کھڑے کھڑے ٹانگیں دکھنے لگ جائیں اور پاؤں درد کرنے لگ جائیں۔ اس عجائب گھر میں بے شمار چیزیں تو ایسی ہیں جو برطانیہ اپنے عروج کے دنوں میں‘ جب بقول ایک محاورے کے ”انگریز کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘‘ دنیا میں درجنوں ممالک پر غاصبانہ قبضے کے دوران وہاں سے لوٹ کر‘ اونے پونے خرید کر‘ زبردستی چھین کر یا چوری کرکے لایا ہے۔
اب کچھ عرصے سے ایسا ہو رہا ہے کہ دنیا بھر سے ایسے لوٹے ہوئے نوادرات کے حقیقی وارث ممالک ان کی واپسی کے دعویدار ہیں۔ جن چیزوں پر دعویٰ کیا گیا ہے ان کی تعداد بلامبالغہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے لیکن ان ہزاروں آرٹیکلز میں سے چند چیزوں کو تو بہت زیادہ شہرت حاصل ہے اور ان میں جن تین چار چیزوں پر بہت زیادہ گرما گرمی اور دعوے بازی ہو رہی ہے ان میں مصر سے لایاگیا ”روزیٹا سٹون‘‘ شاید پہلے نمبر پر ہے۔ روزیٹا سٹون جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے‘ پتھر ہے‘ جس پر قدیم مصری اور یونانی زبان میں تحریر ہے۔ یہ قدیم پتھر 196 قبل مسیح پرانا ہے اور غالباً سائیس کے ایک مندر میں سے اکھاڑ کر مملوک دور میں دریائے نیل کے ڈیلٹا میں رشید (روزیٹا) قصبے میں فورٹ جولین میں لگا ہوا تھا۔ 1799ء میں مصر پر فرانسیسی قبضے کے دوران ایک فرانسیسی افسر پائر فرانکوئس بوچر جدید دور میں ملنے والے اپنی نوعیت کے اس پہلے ذواللسانی رسم الخط پر مشتمل پتھر کو اٹھا کر فرانس لے گیا۔ فرانس کو انگریزوں نے شکست دی تو ”معاہدۂ اسکندریہ‘‘ کے تحت وہ یہ پتھر اٹھاکر برطانیہ لے گئے۔ چوالیس انچ اونچے اور تقریباً اٹھائیس انچ چوڑے 764 کلوگرام وزنی اس پتھر پر لکھی گئی دو زبانوں کے بارے میں جو تفصیلات ہیں وہ اس عاجز کی سمجھ سے تو باہر ہیں کہ اس پر تو ملتان کے مرحوم محقق علامہ ابن حنیف ہی کچھ فرما سکتے تھے اور ان کے علاوہ کم از کم پاکستان میں تو کوئی اور شخص نہیں جو قدیم مصری ادب‘ زبان اور رسم الخط پر کچھ کہہ سکے۔ روزیٹا سٹون پر لکھی ہوئی قدیم یونانی تحریر 1803ء میں جبکہ قدیم مصری تحریر 1822ء میں پڑھ لی گئی۔ بعد میں بالکل اسی تحریر پر مشتمل تین چار اور پتھر بھی دریافت ہوئے جو قدامت میں روزیٹا سٹون سے کم نہ تھے مگر اس پتھر کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ جدید دور میں یہ پہلا ایسا پتھر تھا جس سے قدیم مصری ادب اور تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں مدد ملی۔
اس پتھر کو پہلی بار میں نے اپنی منجھلی بیٹی کے ساتھ برٹش میوزیم دیکھنے کے دوران دیکھا۔ تب مجھے اس پتھر کی قدامت’ اہمیت اور شہرت کا مکمل طور پر علم نہ تھا؛ تاہم بہت سے لوگ اس کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے لہٰذا میں نے بھی اس پتھر کے ساتھ اپنی تصویر بنوائی لیکن میرے دل میں یہ تجسس ضرور تھا کہ آخر اس تین چوتھائی ٹن وزنی سیاہ پتھر میں ایسی کیا بات ہے جو لوگ دھڑا دھڑ اس پتھر کی اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی تصاویر بنوا رہے ہیں۔ واپس آ کر میں نے اس پتھر کے بارے میں پڑھا تو اس کی تاریخی اور قدیم مصری تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں اہمیت کا اندازہ ہوا۔ 1917ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران ہونے والی تباہ کن جرمن بمباری سے محفوظ رکھنے کی خاطر برٹش میوزیم کے وہ نوادرات جو محفوظ جگہ منتقل کیے جا سکتے تھے‘ وہ پوسٹل ٹیوب ریلوے کے ماؤنٹ پلیزنٹ سٹیشن جو سطح زمین سے پچاس فٹ نیچے تھا‘ وہاں پہنچا دیے گئے۔ روزیٹا سٹون بھی انہی نوادرات میں شامل تھا۔ (جاری)