معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
پتنگوں کے جلنے کا جشن
روئیداد خان پاکستان کے سب سے سینئر بیوروکریٹ ہیں‘ یہ ماشاء اللہ حیات ہیں اور ان کی عمر اس وقت سو سال ہے‘روئیداد صاحب نے 1949 میں سول سروس جوائن کی اور پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا اہم ادارہ ہو گا جس کے یہ سربراہ نہیں رہے‘ پانچ صدور اور تین وزراء اعظم کے ساتھ کام بھی کر چکے ہیں‘ملک میں احتساب کا عمل بھی انھوں نے شروع کیا تھا اور یہ عمل آہستہ آہستہ آگے چل کر نیب بن گیا۔
یہ 1971 میں جنرل یحییٰ خان کے دور میں سیکریٹری انفارمیشن تھے‘ ڈھاکا میں فوج کے سرینڈر اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی خبر خان صاحب نے جاری کی تھی‘ انھوں نے 1997 میں ایک شان دار کتاب (A Dream Gone Sour)لکھی‘ یہ کتاب پاکستان کا نوحہ بھی ہے اور تاریخ بھی‘ میں نے 22 سال پہلے یہ کتاب پڑھی لیکن آپ یقین کریں یہ آج تک میرے حافظے میں کروٹیں لے رہی ہے اور میں اس کے سحر اور دکھ دونوں سے باہر نہیں آ سکا‘ روئیداد خان نے اس کتاب میں 16 دسمبر 1971 کا ذکر کرتے ہوئے لکھا‘ ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیا تھا۔
میں دکھ کے عالم میں ایوان صدر پہنچا ‘ صدر جنرل یحییٰ خان اور ان کے ساتھی سرینڈر کا ڈرافٹ سامنے رکھ کر بیٹھے تھے اور وہاں یہ بحث چل رہی تھی اس ڈرافٹ کے نیچے مشرقی پاکستان کا اسٹینڈرڈ ٹائم لکھا جائے گا یا مغربی پاکستان کا‘ بحث جب طویل ہو گئی تو صدر یحییٰ خان نے کہا‘ میں آپ لوگوں کو کہتا رہا تھا آپ مشرقی اور مغربی دونوں حصوں کا اسٹینڈرڈ ٹائم ایک کر دیں۔
آپ لوگوں نے اگر میری بات مانی ہوتی تو آج کم از کم یہ مسئلہ تو نہ ہوتا‘ روئیداد خان کے بقول میں نے ان سے کہا‘ سر ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیا ہے‘ ملک ٹوٹ گیا ہے‘ ہم سرینڈر کر رہے ہیں لیکن آپ لوگ کس بحث میں مصروف ہیں‘ میری بات سن کر سب میرے اوپر پل پڑے اور غصے سے کہنے لگے تم نے سرینڈر کا لفظ کیوں بولا؟ ہم ہارے نہیں ہیں‘ یہ بس ایک عارضی ارینج منٹ ہے‘ میںدیر تک انھیں دیکھتا رہا اور پھر کام کا بہانہ کیا اور چپ چاپ وہاں سے آ گیا۔
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے قومیں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں توانھیں حقیقتوں کے پہاڑ دکھائی نہیں دیتے‘ یہ کنکروں میں الجھ جاتی ہیں اور یوں یہ وقت کی دلدل میں ڈوبتی چلی جاتی ہیں اور ہم اس حقیقت کی خوف ناک مثال ہیں‘ ہم ہر خوف ناک واقعے کے بعد ’’ڈاکومنٹ پر وقت کیا لکھا جائے؟‘‘ جیسے تخلیقی کام میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو بنگلہ دیش کی شکل میں نکلا تھا یا پھر جو آج نکل رہا ہے۔
ہم بھی کیا قوم ہیں؟ ہمارا 60 فیصد حصہ1971 میں ہم سے جدا ہو گیا‘ ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان کی تحقیق اور تفتیش کے لیے ’’حمود الرحمن کمیشن‘‘ بنایا اور اس کمیشن کی رپورٹ 29سال بعد 2000میں پاکستان کے بجائے بھارت میں شایع ہوئی اور ہم نے50سال میں اس کی ایک بھی سطر پر کام نہیں کیا‘ ہم 1980 میں افغانستان میں روس امریکا جنگ میں کرائے کے قاتل بنے‘ ہم نے کوئلوں کی اس دلالی میں ہاتھ اور منہ دونوں کالے کیے اور اپنا پورا ملک دہشت گردی کی جنگ میں جلا لیا لیکن ہم نے کوئی انکوائری کمیشن بنایا اور نہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کی۔
جنرل ضیاء الحق کا طیارہ 17 اگست 1988کوفوج کے 16اعلیٰ ترین افسروں کے ساتھ بم سے اڑا دیا گیا‘ ہم نے انکوائری کمیشن بنایا لیکن آج تک اس کی رپورٹ نہیں آئی‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحب زادے چار چار بار حکومتوں میں آئے لیکن یہ بھی اپنے والد کے لہو کا فیصلہ نہیں کرا سکے‘ آئی جے آئی کی تشکیل اور اصغر خان کیس 16سال چلتا رہا‘ سپریم کورٹ نے 19 اکتوبر 2012 کو فیصلہ بھی سنا دیا لیکن ہم نے اس سے بھی کوئی سبق سیکھا اور نہ کسی کردار کو سزا دی‘ ملزم اور مدعی دونوں فوت ہو گئے مگر اصلاح کا باب اسی طرح کھلا پڑا رہا‘دومئی 2011 کو ایبٹ آباد کا واقعہ پیش آیا۔
امریکی ہیلی کاپٹر اسامہ بن لادن کو مار کر اس کی لاش اٹھا کر لے گئے‘ ہم نے ذمے داروں کے تعین کے لیے 31مئی 2011 کو کمیشن بنایا اور آج تک اس کی رپورٹ بھی پبلک نہیں ہوئی اور ہم نے 2011 میں مسنگ پرسنز کا کمیشن بھی بنایا‘ مسنگ پرسنز مر کھپ گئے‘ ان کے لواحقین بھی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ہم آج تک مسنگ پرسنز کی حتمی فہرست تیار نہیں کر سکے اور یہ ان دو درجن خوف ناک واقعات میں سے چند واقعات ہیں جو قوموں کا مقدر بدل دیا کرتے ہیں‘ جو مردہ سے مردہ ترین ضمیروں کو بھی جگا دیتے ہیں لیکن مجال ہے ہمارے ضمیر پر دستک ہوئی ہو یا ہم نے گہری نیند میں ذرا سی کروٹ ہی لے لی ہو اور ہم اس پروفائل کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو لیکس کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس کی پہلی آڈیو 24ستمبر کو لیک ہوئی‘ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ کی گفتگو لیک ہوئی اور ملک میں کہرام برپا ہو گیا اور اس کے بعد لیکس پر لیکس ہوتی چلی گئیں اور اب تک موجودہ حکومت اور عمران خان دونوںکی چار‘ چارآڈیو لیکس ہو چکی ہیں‘ دنیا میں اس وقت 249 ملک ہیں اور پاکستان ان میں واحد ایسا ملک ہے جس کے محفوظ اور حساس ترین دفتر کی آڈیوز روزانہ کی بنیاد پر لیک ہو رہی ہیں اور حکومت اور اپوزیشن اس پر پریشان ہونے کے بجائے بغلیں بجا رہی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی لیکس پر عمران خان کی ہنسی نہیں رک رہی اور وزیراعظم عمران خان کی لیکس پر موجودہ حکومت کے وزراء قہقہے لگا رہے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی صورت حال کی نزاکت کا اندازہ نہیں ‘ محل کو آگ لگی ہے اور چوکی دار چوہے گن رہے ہیں‘ یہ ہیں ہم‘ ایشو یہ نہیں ہے کہ عمران خان‘ شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر‘ شیریں مزاری یا اعظم خان نے کیا کہا تھا یا میاں شہباز شریف اور توقیر شاہ کے درمیان کیا گفتگو ہو رہی تھی؟ اصل ایشو یہ ہے کہ پاکستان میں وزیراعظم ہاؤس جیسی حساس ترین جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
وہاں بھی گفتگو ٹیپ ہوتی ہے اور یہ گفتگو بعدازاں لیک بھی ہو جاتی ہے‘ دوسرا ہم 17دن گزرنے کے بعد بھی گفتگو ریکارڈ کرنے والے لوگوں تک پہنچ سکے اور نہ ہم اب تک ہیکرز کو گرفتار کر سکے ہیں اور ہم دنیا کا واحد ایٹمی اسلامی ملک بھی ہیں‘ کیا یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟ ہمارا اصل کنسرن یہ سیکیورٹی بریچ ہونا چاہیے تھا‘ ہم نے سیکیورٹی بریچ پر ایکشن لینا تھا لیکن ہم نے عمران خان اور شہباز شریف کے خلاف ایکشن شروع کر دیا‘ ہم نے ان دونوں کو غدار اور اقرباء پروری کا نشانہ بنا دیا‘ کیا قومیں اس طرح پنپتی اور چلتی ہیں؟
اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی مت مارتا ہے یا جب کوئی قوم اللہ کی توجہ سے محروم ہوتی ہے تو پھر وہ اسی طرح اونٹ کو فراموش کر کے مچھر چھاننے میں مصروف ہو جاتی ہے‘ آپ قسطنطنیہ فال سے لے کر سقوط ڈھاکا تک دنیا کے تمام زوالوں کا تجزیہ کر لیں آپ کو ہر سقوط‘ ہر فال سے پہلے ایسی ہی صورت حال ملے گی جیسی اس وقت پاکستان میں ہے۔
سلطان فاتح نے 1452ء میں قسطنطنیہ فتح کیا‘ یہ شہر اس وقت عیسائی دنیا کا قبلہ ہوتا تھا‘ سلطان فاتح جب استنبول کی دیواریں گرا رہا تھا تو اس وقت آیا صوفیہ میں عیسائی علماء اس بحث میں مصروف تھے حضرت عیسیٰ ؑ نے آخری ڈنر میں خمیری روٹی کھائی تھی یا پتیری‘ ہلاکو خان کی فوج جب بغداد کی دیواریں ٹاپ رہی تھی اور دریائے دجلہ میں نعشوں کے پل بن چکے تھے اس وقت مسلم علماء شرعی داڑھی اور مسواک کا سائز متعین کر رہے تھے۔
نپولین بونا پارٹ کے فوجی جب سینٹ پیٹرز برگ کی سڑکوں پر مارچ کر رہے تھے اس وقت زار روس اگلے شکار کی تیاریوں میں مصروف تھا اور محل میں یہ بحث چل رہی تھی ہم اس بار برفانی ریچھ کا شکار کریں گے یا رین ڈیئر کا اور اس کی کھال سے ہز ہائی نیس کا کوٹ تیار ہو گا یا پتلون‘ غرناطہ کی آخری رات ابوعبداللہ محمد کا سب سے بڑا مسئلہ مراکشی بھیڑ کا گوشت تھا اور اسپین کے مسلم علماء مسلکی مباحثے میں مصروف تھے۔
روس افغانستان پر قابض ہو رہا تھا توافغان صدر گرمیوں کی چھٹیاں منانے کا پلان بنا رہا تھا اور جب ہماری فوج ڈھاکا کے پلٹن میدان میں سرینڈر کر رہی تھی تو ہمارے حکمران یہ بحث کر رہے تھے سرینڈر کے ڈاکومنٹ پر مغربی پاکستان کا ٹائم ہو گا یا مشرقی پاکستان کا ‘ اللہ تعالیٰ معاف کرے میرے منہ میں خاک‘ ہم اگر نہ سنبھلے‘ ہم نے اگر عقل سے کام نہ لیا تو اس فہرست میں ایک اور قوم کا اضافہ بھی ہو جائے گا اور کل کا مؤرخ لکھے گاجب پاکستان ڈوب رہا تھا تو حکومت اور اپوزیشن دونوں ہیکر اور سیکیورٹی بریچ کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی حب الوطنی ناپ رہے تھے۔
خدا خوفی کریں آپ کیسے لیڈر ہیں؟ آپ صرف اگلے الیکشن کے ایشو پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے‘ آپ آگ پر توجہ دینے کے بجائے پتنگوں کے جلنے کا جشن منا رہے ہیں‘ آپ کی عقل کہاں چلی گئی؟ آپ کی آنکھ کب کھلے گی؟کیا آپ ملک کے ڈوبنے کا انتظار کر رہے ہیں؟ خدا کے لیے اکٹھے بیٹھیں اور ایک ہی بار ہر چیز طے کر لیں ورنہ ہم طے کرنا تو دور ہم سوچنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔