اندر بھی لڑائی اور باہر بھی لڑائی

ان کا جواب دل چسپ تھا ’’میرے گھر میں 70 کلو واٹ کے سولر پینل لگے ہیں‘ میں ان سے اپنے گھر کی ضرورت بھی پوری کرتا ہوں اور واپڈا کو بھی بجلی بیچتا ہوں‘ یہ ایک لانگ ٹرم سرمایہ کاری تھی‘ میں نے اس پر اچھے وقتوں میں ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔

مجھے اس سے یہ فائدہ ہوا میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بلوں سے بچ گیا لیکن اس ماہ مجھے بھی دس لاکھ روپے کا بل موصول ہوگیا اور میں دیر تک بل دیکھتا رہا اور سر پر ہاتھ مارتا رہا‘‘ یہ بات مجھے ایک کھرب پتی بزنس مین نے بتائی‘ یہ اس وقت وفاقی کابینہ کا حصہ بھی ہیں‘ میں نے جواب میں انھیں اپنی کہانی سنائی۔

ہمیں گھر کے لیے 10 کلو واٹ بجلی چاہیے تھی‘ ہم نے ڈیڑھ سال قبل 20 کلو واٹ کا سسٹم لگایا‘ 10 کلو واٹ خود استعمال کر لیتے ہیں اور 10 کلو واٹ واپڈا کو دے دیتے ہیں یوں ہمارے ایک لاکھ 76 ہزار روپے واپڈا کے ذمے واجب الادا ہوگئے مگر اس ماہ واپڈا نے ہمارے ایک لاکھ 56 ہزار روپے کاٹ لیے‘ کیوں؟ مجھے سمجھ نہیں آئی۔

میں واپڈا سے بجلی نہیں خرید رہا‘ میں انھیں بیچ رہا ہوں‘ میں رات کے وقت بھی اپنی بیٹریوں کی بجلی استعمال کرتا ہوں‘ میرے پاس واپڈا کی بجلی آ ہی نہیں رہی مگر میں اس کے باوجود اسے بل بھی دے رہا ہوں‘ کیوں؟‘‘ وہ فوراً بولے ’’سیم ٹو می‘ میں بھی بجلی نہیں لے رہا لہٰذا پھر بل کس چیز کا ہے؟‘‘۔

یہ دو مثالیں ہیں لیکن اگر آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں تو آپ کو ایسی لاکھوں مثالیں مل جائیں گی‘ ملک میں اس وقت بجلی کے 3 کروڑ 81 لاکھ میٹر ہولڈرز ہیں اور ہر ماہ اتنے ہی بل آتے ہیں اور اس وقت پورا پاکستان بلوں پر بلبلا رہا ہے‘ عوام میاں شہباز شریف اور اسحاق ڈار کو جھولیاں اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔

یہ درست ہے آج کی صورت حال کے زیادہ ذمے دار خان صاحب ہیں مگر پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت نے خان صاحب کی گھنٹی اتار کر اپنے گلے میں باندھ لی لہٰذا یہ آج کسی کو شکل دکھانے کے قابل نہیں رہے‘ ان حالات میں اگر میاں نواز شریف واپس آتے ہیں تو انھیں خوف ناک سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا‘ یہ عوام سے ووٹ نہیں مانگ سکیں گے‘ یہ عوام میں نہیں نکل سکیں گے‘ اب سوال یہ ہے اس صورت حال کا ذمے دار کون ہے؟

اس کے چار بڑے ذمے دار ہیں‘ پہلے ذمے دار جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز ہیں‘ ان کے زمانے میں پاکستان میں دھڑا دھڑ ڈالر آئے تھے جن سے عوام کا لیونگ اسٹینڈرڈ بلند ہوگیا تھا۔ شوکت عزیز نے اے سی‘ ایل سی ڈی اور کار فنانسنگ آسان کر دی‘ ملک میں پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز بھی بنے اور موبائل فون کا انقلاب بھی آ گیا‘ نتیجے میں بجلی کی ضرورت اور کھپت بڑھ گئی مگر حکومت نے بجلی کی پیداوار پر کوئی توجہ نہیں دی چناں چہ 2005 میں خوف ناک لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی‘ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی نہیں آتی تھی۔

پیپلز پارٹی کا دور آیا تو لوڈ شیڈنگ کا ملبہ ان پر گر گیا‘ یہ اس صورت حال کے لیے تیار نہیں تھے چناں چہ انھوں نے دھڑا دھڑ فرنس آئل کے رینٹل پلانٹس لینا شروع کر دیے‘ یہ پلانٹس انتہائی مہنگے تھے۔ ان کے نتیجے میں بجلی بھی مہنگی ہوگئی اور لوڈ شیڈنگ بھی بڑھ گئی‘ اس دور میں خواجہ آصف نے پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف کو ’’راجہ رینٹل‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا اور ان کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کر دی تھی۔

نواز شریف کا دور آیا تو ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا‘ میاں صاحب نے بھی لانگ ٹرم حل کے بجائے فرنس اور ڈیزل پلانٹس لگانا شروع کر دیے‘ آئل کے لیے مسلسل ڈالرز درکار تھے۔ پلانٹس کے مالکان کے ساتھ ریٹس بھی ڈالرز میں طے کر دیے گئے اور انھیں کیپسٹی پے منٹ بھی دے دی گئی یعنی پلانٹس چلیں یا نہ چلیں‘ یہ اپنی مطلوبہ پیداوار کے برابر بجلی دیں یا نہ دیں مگر حکومت کو انھیں پورے پیسے دینا پڑیں گے‘ اس فارمولے سے ملک میں بجلی تو پوری ہوگئی لیکن خزانے پر بوجھ بڑھتا چلا گیا‘ آج حکومت کو ہر سال 2310 ارب روپے کیپسٹی پے منٹس دینی پڑتی ہیں۔

دوسری طرف پاور پلانٹس کے مالکان نے بھی کمال کر دیا تھا‘ فارمولا یہ تھا مالکان پلانٹس کی 20فیصد رقم خود ادا کریں گے اور 80 فیصد بینکوں سے لون لیں گے مثلاً فرض کریں ایک پلانٹ 100 ملین ڈالر کا ہے۔ مالک اس میں 20 ملین ڈالر ڈالے گا اور 80 ملین ڈالر بینکوں سے لون لیا جائے گا‘ اب مالکان نے کاغذوں میں اس کی مالیت 100ملین ڈالر کے بجائے 120ملین ڈالر کر دی‘ 100 ملین ڈالر بینک سے لے لیا‘ اپنی جیب سے دھیلا خرچ نہیں کیا اور ہر سال اربوں روپے کمانے لگے۔

بجلی کے ساتھ دوسرا ظلم لائن لاسز کی شکل میں بھی ہوا‘ واپڈا کے لائن لاسز 20فیصدتک ہیں‘ ملک میں بجلی چوری بھی ہوتی ہے اور مفت بھی دی جاتی ہے۔ سرکاری ملازمین ہر سال 34 کروڑ یونٹ مفت لیتے ہیں‘ 520 ارب روپے کے لائن لاسز ہیں جب کہ پچھلے سال 467 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی‘ کیپسٹی پے منٹس 2310 ارب روپے ہیں جب کہ گردشی قرضے 2500 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ صورت حال پچھلے سال تک چھپی رہی‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم قرضے لے کر ملک چلا رہے تھے لیکن پھر ہمارے قرضے اور سود کی قسطیں کل آمدن کی 85 فیصد ہوگئیں اور آئی ایم ایف اور دوست ملکوں نے ہمیں قرض دینا بند کر دیا۔

خان صاحب کا ان حالات میں بہت بڑا ہاتھ تھا‘ یہ قرضے بھی لے رہے تھے۔ دوست ملکوں کو ناراض بھی کر رہے تھے اور ملک میں دھیلے کا کام بھی نہیں ہو رہا تھا لہٰذا پی ٹی آئی کی حکومت تیزی سے اپنی حماقتوں کے بوجھ تلے دفن ہو رہی تھی مگر عین وقت پر ن لیگ نے خان کا سر چٹان کے نیچے سے نکالا اور خود اس گرتی ہوئی چٹان کے نیچے بیٹھ گئے۔

ہمیں آج ماننا ہوگا ہماری آبادی ضرورت سے زیادہ ہے اور یہ بے ہنر اور ناسمجھ بھی ہے‘ 25 کروڑ لوگوں میں صرف اڑھائی کروڑ لوگ کام کرتے ہیں اور باقی ساڑھے بائیس کروڑ انھیں ذلیل کرتے ہیں۔ نمبر دو‘ ہماری آمدنی ہمارے وسائل سے پانچ گنا کم ہے۔ ہمیں اگر سو روپے چاہییں تو ہم صرف 20 روپے کما رہے ہیں‘ باقی 80 روپوں کے لیے ہمیں در در بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ نمبر تین‘ ہم توانائی کے لوکل وسائل کے بجائے امپورٹڈ وسائل پر انحصار کر رہے ہیں‘ ہم اپنی ضرورت کا 85فیصد پیٹرول درآمد کرتے ہیں‘ ہمارے پاس دو طریقے تھے‘ ہم اپنی ضرورت کا پیٹرول خود نکالتے یا ہم اپنی ضرورت کو محدود کر لیتے جب کہ ہم نے پیٹرول بھی نہیں نکالا اور گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھاتے چلے گئے۔

ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی دستیاب نہیں ہے لہٰذا ہم ہر سال 30 سے 35 ارب ڈالر کا پیٹرول پھونک دیتے ہیں‘ ہمارے پاس تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں‘ ہم اگر ان سے سالانہ 50 ہزار میگاواٹ بجلی بنائیں تو بھی یہ ذخائر 500 سال کے لیے کافی ہیں لیکن ہم اس سے صرف 5332 میگاواٹ بجلی بنا رہے ہیں اور یہ کام بھی پانچ سال قبل اسٹارٹ ہوا‘ ہمارے پاس گیس کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں لہٰذا ہم گیس بھی امپورٹ کر رہے ہیں اور اس امپورٹڈ گیس کو چولہوں‘ تندوروں اور گاڑیوں میں ضائع کر رہے ہیں اور نمبر چار، ہم من حیث القوم احمق ہیں۔ ہم اپنے نفع ونقصان کو بھی نہیں سمجھتے‘ ہم جب چاہتے ہیں سڑکیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں یا اپنی املاک کو جلا دیتے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں سے لڑ رہی ہے اور سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کو ہرانا چاہتے ہیں‘ ہم ایک ایکسٹینشن کے لیے ملک کو سمندر میں غوطے دے دیتے ہیں۔

اس وقت بھی عدلیہ‘ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان تینوں دست و گریبان ہیں‘ کسی کو یہ احساس تک نہیں اگر عوام سڑکوں پر آ گئے۔ ڈالر پانچ سو روپے کا ہوگیا یا بجلی‘ گیس اور پیٹرول بند ہوگیا یا ملک ڈیفالٹ کر گیا تو کیا ہوگا؟ 25 کروڑ لوگوں کے لیے خوراک‘ ادویات اور بجلی کا بندوبست کیسے ہوگا لہٰذا ملک آپریشن ٹیبل پر آخری سانسیں لے رہا ہے جب کہ ہم اٹک جیل کا دروازہ تھام کر کھڑے ہیں‘ بھائی خدا خوفی کریں اگر خان بے گناہ ہے تو اسے رہا ہونے دیں اور اگر یہ مجرم ہے تو پھر اسے ایک ہی بار سزا دیں‘ اس پر پابندی لگائیں اور ملک پر توجہ دیں مگر یہ کھیل ختم ہونا چاہیے۔

ہمارے پاس بہرحال زیادہ وقت نہیں ہے‘ ہمیں فوری طور پر پولیٹیکل ڈائیلاگ کرنا ہوگا اور اس میں عمران خان کو بھی شامل کرنا ہوگا‘ ملک کے لیے ایک ہی بار لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسیاں بنائیں تاکہ ہمیں یہ تو معلوم ہو ہم نے جانا کہاں ہے اور آپ مہربانی کر کے بھارت کے ساتھ بھی ڈائیلاگ کریں اور ایک ہی بار یہ سرحد بھی کھول دیں۔

ہم ہمسایوں کے ساتھ بھی لڑ لڑ کر زیادہ دیر تک سروائیو نہیں کر سکیں گے‘ دنیا میں کون سا ایسا ملک ہے جس میں اندر بھی لڑائی چل رہی ہو اور باہر بھی اور اس نے ترقی کر لی ہو لہٰذا ہمیں عقل کو ہاتھ مارنا ہوگا ورنہ ہم عقل اور ہاتھ دونوں سے محروم ہو جائیں گے۔