ڈائری کی تفصیلات

یہ محسوس ہورہا تھا ڈائری پولیس کی آمد کے بعد پھاڑنے کی کوشش کی گئی لیکن وقت کی کمی کے باعث اسے مکمل طور پر تلف نہیں کیا جا سکا اور یہ 12 جولائی سے یکم جنوری تک (الٹی سمت میں) سلامت رہ گئی۔

بارہ جولائی کے صفحے پر ایک دو جگہ ماموں اور نیوٹرل لکھا ہوا تھا‘ خان صاحب اور بشریٰ بی بی جنرل باجوہ کو ’’کوڈ ورڈز‘‘ میں ماموں کہا کرتے تھے لہٰذا یہ جنرل باجوہ کے بارے میں ہدایت تھی‘ اسی صفحے پر دو پن کوڈز یا فگرز لکھی ہوئی تھیں‘ یہ 171196 اور 111790 تھیں‘ ساتھ ہی اوپر سے نیچے کی طرف 41 پھر 30 پھر 60 اور پھر 30 لکھا تھا‘ یہ کوڈ ورڈز تھے یا پھر کسی لاک‘ لاکر یا اکائونٹ کے پن کوڈز تھے‘ ساتھ ہی جلسے کی سرخی تھی اور اس کے نیچے لکھا تھا‘ گانے صرف اور صرف حب الوطنی کے چلیں گے ’’ ہم دیکھیں گے‘‘ ضرور ہو گا۔

فوراً 25 لاکھ کا حساب لیں اور خبردار سے تقریر شروع نہیں کرنی‘ پھر 6 جولائی کے صفحے پر لکھا تھا اگر گورنر راج لگائیں تو پورا صوبہ اور تمام شہر بند کرنے کی تیاری کی جائے‘ مکمل پہیہ جام ہونا چاہیے‘ کل سے اتنا پریشر بنا دینا ہے کہ عدالت کوئی نیگیٹو (انگریزی میں لکھا تھا) فیصلہ نہ کر سکے‘ ریلی چھوٹی نہیں ہونی چاہیے‘ اگلے صفحات پر درج تھا تگڑے وکیلوں کا ساتھ ہونا چاہیے‘ وکیلوں کے بندوبست کا فارمولا بھی لکھا تھا‘ سلمان اکرم راجہ کا ذکر بھی تھا۔

ریلی کے بارے میں کہا گیا تھا یہ بڑی ہونی چاہیے‘ چھوٹی نہیں‘ تین جولائی کے صفحے پر درج تھا عدالت میں وکیلوں کو کیا کیا سوال اٹھانے چاہییں‘ خان صاحب کو مخالف وکیلوں کے سوالوں کا کیا جواب دینا چاہیے‘ انھیں ججوں سے بھی کیا سلوک کرنا چاہیے؟ ایک جگہ لکھا تھا بندیال آگیا ہے‘ اس کے ساتھ ہی میاں نواز شریف سے متعلق ایک فقرہ لکھا تھا جس کا مفہوم تھا چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ہوتے ہوئے نواز شریف واپس نہیں آ سکے گا۔

چیف جسٹس کا نام جہاں بھی لکھا گیا صرف بندیال لکھا گیا اور طرز تحریر خاصا فرینک تھا‘ 30 جون کے صفحے پر خان صاحب کے لیے دعائیں لکھی تھیں‘ ان میں انقلاب کا ذکر بھی تھا اور ایک نیا نظام لانے کا عندیہ بھی‘ اگلے صفحات پر پیلے رنگ کی چھوٹی سی چٹ پھاڑ کر اس کی درزیں رکھی ہوئی تھیں‘ یہ کوئی اہم پیغام تھا جسے بعدازاں پھاڑ دیا گیا تھا مگر پھینکا نہیں گیا تھا‘ ایک صفحے پر لکھا تھا کپڑوں کا اسٹینڈ بوبی سے منگوانا ہے اور جاوید آفریدی کو جوسر مشین کا کہنا ہے‘ 8 اپریل کا صفحہ پھٹا ہوا تھا‘ یہ بھی جلدی میں پھاڑا گیا تھا۔

ایک صفحے کے کونے پر چھ بار اﷲ کا لفظ لکھا تھا‘ یہ غالباً تسبیح تھی‘ 17 جنوری کے صفحے پر سٹی بینک لاہور کا اکائونٹ‘ اس کا نمبر اور پن کوڈ درج تھا‘ چھ پاسپورٹس کے نمبرز اور ایکسپائری ڈیٹس بھی لکھی تھیں‘ پہلا پاسپورٹ 22 مارچ 2022 کو بنا تھا اور اس کی ایکسپائری ڈیٹ 21 مارچ 2027 تھی‘ 12 جنوری کے صفحے پر بینک الفلاح بلیو ایریا اور الائیڈ بینک کے اکائونٹس کا ذکر تھا‘ چیک بکس کا حوالہ بھی تھا‘ تین جنوری کے صفحے پر 6 دعائیں لکھی تھیں۔

دو جنوری کے صفحے پر دوبارہ 117196 – 171196 اور 111790 کے تین کوڈ ورڈز درج تھے جب کہ یکم جنوری کا صفحہ بہت اہم تھا‘ اس پر خان کے روز کے معمول لکھے تھے‘ لکھا تھا بیڈ شیٹ اور خان کے تولیے روز دیکھنے ہیں‘ یہ دھلے ہوئے ہونے چاہئیں‘ کپڑوں کو رات کو جھاڑ پونچھ کر دیکھا جائے‘ اس کے نیچے روٹین کا گراف تھا جس میں لکھا تھا‘ ایک‘ قہوہ+شہد+جوس‘ دو‘ ایکسرسائز پھر H+K پھر گھنٹے بعد چائے‘ تین‘ پانی Vit C+3 ایک کیلشیم‘ چار‘ کھانا+گوشت+کباب+مچھلی+سالاد کے پتے‘ Vit -Tab‘ پانچ‘ رات 12بجے دودھ‘ اسی کے نیچے لکھا تھا 7:30 کلنزنگ+وضو+ظہر+ورد‘ اس سے آگے چل کر ایک صفحے پر اسٹارٹ 10اگست لکھا تھا اور کور کے ساتھ لاء منسٹر/وزیر قانون‘ داخلہ‘ یاسمین راشد لکھا تھا۔

یہ پوری ڈائری دیکھنے کے لیے دو گھنٹے چاہئیں اور یہ منہ سے بہت کچھ بولتی ہے‘ یہ ڈائری میرے دوست اور ڈی آئی جی عمران کشور نے برآمد کی اور یہ اب سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے‘ میں نے ڈائری کی خبر 11اگست کو بریک کی تو میرے چند دوستوں نے چندسوال اٹھائے‘ پہلا سوال تھا کیا گارنٹی ہے یہ ڈائری واقعی بشریٰ بی بی کی ہے؟ اس کا جواب ہے ڈائری کی ہینڈ رائٹنگ بشریٰ بی بی کی ہینڈ رائیٹنگ سے میچ کر تی ہے‘ دوسرا سوال تھا کسی کی پرسنل ڈائری پڑھنا غیر اخلاقی فعل نہیں؟

اس کا جواب ہے ڈائری جب تک پرسنل رہے یہ اس وقت تک پرسنل ہوتی ہے لیکن جب یہ سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن جائے تونوعیت بدل جاتی ہے‘ اس وقت بھی ہزاروں ڈائریاں لائبریریوں اور عجائب گھروں میں پڑی ہیں اور انھیں روزانہ ہزاروں لوگ پڑھتے ہیں حتیٰ کہ علامہ اقبال‘ قائداعظم اور فاطمہ جناح کی ڈائریاں بھی پڑھی جاتی ہیں‘ ایوب خان کی ڈائریوں پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں‘ آئن اسٹائن‘ دوستو فسکی‘ چارلس ڈارون‘ مارکوپولو اور لیونارڈو ڈائونچی کی ڈائریاں بھی پبلک ہیں۔

بشریٰ بی بی کی یہ ڈائری بھی اب سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہے اور اسے اب تک درجنوں سرکاری اور غیر سرکاری لوگ پڑھ چکے ہیں لہٰذا میں نے کوئی غیراخلاقی حرکت نہیں کی اور تیسرا سوال میں اس تک کیسے پہنچ گیا؟ اس کا سیدھا سادا جواب ہے صحافیوں کا کیا کام ہوتا ہے؟ ہم وہاں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں تک حکومت بھی نہیں پہنچ پاتی مثلاً دو مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے گھر پر امریکی حملے کے اگلے دن میں اس کے گھر میں گھس گیا‘ میں نے تمام کمرے گھوم پھر کر دیکھے حتیٰ کہ اس برآمدہ نما کمرے میں بھی گیا جہاں اسامہ بن لادن چھت کے رسے سے لٹک کر ایکسرسائز کیا کرتا تھا‘ مجھے اس کی سی ڈیز کی کولیکشن بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا اور ان اینکرز کے نام پڑھنے کا موقع بھی ملا جن کے وہ ریکارڈڈ شوز دیکھتا تھا۔

اسامہ بن لادن نے گھر میں سکیورٹی کی وجہ سے نیٹ اور کیبل نہیں لگوائی تھی‘ اس کے لیے شوز اور خبریں ریکارڈ ہوتی تھیں‘ ان کی سی ڈی بنتی تھی‘ یہ سی ڈیز اس کے گھر پہنچتی تھیں اور اسامہ بن لادن بعدازاں اپنے سی ڈی پلیئر پر انھیں دیکھتا تھا‘ مجھے اس کی ادویات کا ریک دیکھنے کا موقع بھی ملا‘ اس میں بھارت کے ایک مسلمان حکیم کی معجون بھی تھی اور مجھے اس ڈائری کو پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا جس میں اس نے اس پٹواری کا ذکر کیا تھا جس نے اس کے ساتھیوں سے پچاس ہزار روپے رشوت لے کر زمین ٹرانسفر کی تھی۔

اس کے گھر میں بچوں کے کھلونے بھی تھے اورتین زبانوں میں بچوں کی کتابیں بھی لہٰذا میں تو اسامہ کے گھر تک بھی پہنچ گیا تھا اور جنرل باجوہ تک بھی اور بشریٰ بی بی کے نکاح نامے اور حق مہرتک بھی اور یہ میرا کام ہے اور صحافی ہوتے ہی اس کام کے لیے ہیں‘ ہم اگر نئی اسٹوریز پر کام نہیں کریں گے تو پھر ہم کیا کریں گے‘ ہمارا اس کے علاوہ کیا کام ہے؟۔

میں ڈائری کی طرف واپس آتا ہوں‘ ڈائری پڑھنے کے بعد تین آراء پیدا ہوتی ہیں‘ ایک‘ عمران خان مکمل طور پر بشریٰ بی بی کے زیر اثر ہیں‘ ان کے کھانے پینے اور دعائوں تک کا فیصلہ بی بی کرتی ہیں‘ عام حالات میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا‘ دنیا کے نوے فیصد خاوندوں کے فیصلے ان کی بیویاں کرتی ہیں لیکن جہاں ریاست اور سیاست کے امور آجاتے ہیں وہاں معاملہ بدل جاتا ہے‘ بشریٰ بی بی اگر سیاست دان ہوتیں یا ان کا کوئی انتظامی تجربہ ہوتا تو بھی یہ چیز قابل فہم تھی جب کہ یہ مکمل طور پر ہائوس وائف ہیں لہٰذایہ ریاست اور سیاست کا فیصلہ کیسے کر سکتی ہیں؟

دوسرا وزیراعظم کے ننانوے فیصد اقدامات آفیشل سیکرٹ ہوتے ہیں اور یہ انھیں خفیہ رکھنے کے پابند ہوتے ہیں‘ خان اگر سرکاری راز اپنی اہلیہ کے ساتھ ڈسکس کرتا رہا تو یہ ناقابل برداشت اور خوف ناک تھا‘ تیسرا ریاست ایک پریکٹیکل چیز ہوتی ہے‘ یہ موکلات‘ جنوں اور وظائف سے نہیں چلائی جا سکتی‘ صدقات‘ خیرات اور وظائف کی اسلام میں بہت اہمیت ہے لیکن اگر وزیراعظم جنرل باجوہ یا جنرل فیض حمید سے ملاقات سے پہلے‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے میٹنگ سے قبل اور چین کے صدر کے سامنے بیٹھنے سے پہلے کالا بکرا آمنے سامنے سے گزار کر اس کا گوشت چیلوں اور کوؤں کو کھلائے گایا اپنے بیڈروم میں ہڈیاں اور تعویز رکھنا شروع کر دے گا تو اس کا کیا مطلب لیا جائے گا؟

دوسرا اگر وزیراعظم ریاستی امور میں موکلات سے مشورہ شروع کر دیں یا وہ بیگم صاحبہ کے وظیفے اورمراقبے کے خاتمے کا انتظار کرنے لگیں تو پھر ہم اسے کیا کہیں گے؟ مجھے علیم خان نے بتایا تھا فیڈرل سیکریٹریز کا فیصلہ بھی بیگم صاحبہ تصویریں دیکھ کر کیا کرتی تھیں‘ انھیں ’’امیدواروں‘‘ کی تصویریں بھجوائی جاتی تھیں اور وہ تصویروں پر کچھ پڑھ کر فیصلہ کرتی تھیں اور وزیراعظم ان کے حکم کے مطابق آرڈر جاری کرا دیتے تھے۔

عثمان بزدار اور ان کے پرنسپل سیکریٹری طاہر خورشید کا فیصلہ بھی بیگم صاحبہ نے اپنی روحانی طاقتوں کے ذریعے کیا تھا‘ یہ فیصلہ ہو سکتا ہے وزیراعظم اور بیگم صاحبہ کے لیے مفید ثابت ہوا ہو لیکن بارہ کروڑ لوگوں کے صوبے اور 25 کروڑ عوام کے ملک نے اس کی کتنی قیمت ادا کی اب پوری دنیا جانتی ہے۔ یہ ڈائری یہ ثابت کرتی ہے یہ ملک ساڑھے تین سال عمران خان کی بجائے بشریٰ بی بی چلاتی رہیں یا پھر ان کے موکلات۔