بڑے فیصلے کرنے ہوں گے

عثمان بزدار کی کرپشن کی پہلی فائل لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کے دور میں میجر جنرل فیض حمید نے بنائی تھی‘ یہ اس وقت ڈی جی سی تھے‘ عثمان بزدارکے کرسی سنبھالتے ہی بزدار خاندان نے’’کارروائیاں‘‘ شروع کر دیں۔

فیملی کے ایک بزدار بزرگ نے لاہور میں شراب کے پرمٹس کی ذمے داری لے لی‘ دوسرے نے ٹھیکوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا جب کہ تیسرا سرکاری فائلیں کلیئر کرانے کی رقمیں لینے لگا‘ فرح گوگی اور احسن جمیل گجر کا نام بھی آنے لگا‘ سرکاری افسر اپنی مرضی کی پوسٹنگز کے لیے ڈی جی ایچ لاہورمیں فرح بی بی کے گھر جانے لگے۔

یہ حرکتیں اس قدر بڑھ گئیں کہ لوگوں نے کھلے عام گفتگو شروع کر دی‘علیم خان نے بھی ایک دن وزیراعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی مگر وزیراعظم کا کہنا تھا یہ پروپیگنڈا ہے‘ علیم خان نے جواب دیا‘ آپ مجھے کوئی افسر دے دیں‘ کوئی عہدہ بتا دیں اور رقم طے کر دیں‘ میں آپ کو وہ شخص اس رقم میں اپوائنٹ کر کے دکھا دوں گالیکن وزیراعظم نے بات ٹال دی۔
یہ باتیں بہرحال چلتے چلتے اسٹیبلشمنٹ تک پہنچ گئیں‘ جنرل نوید مختار اس وقت ڈی جی آئی اور میجر جنرل فیض حمید ڈی جی سی تھے‘ بزدار ریکٹ کے بارے میں معلومات جمع کی گئیں تو معاملہ کہیں زیادہ سنگین نکلا چناںچہ فائل بنی اور یہ فائل جنرل فیض حمید نے آرمی چیف کو دے دی اور جنرل باجوہ یہ لے کر وزیراعظم کے پاس پہنچ گئے۔

آرمی چیف نے وزیراعظم کو بتایا‘ یہ مال صرف پنجاب تک محدود نہیں بلکہ یہ وزیراعظم ہاؤس تک بھی آ رہا ہے مگر میں اس سے آگے ایک لفظ نہیں بولوں گا کیوں کہ آپ کو شرمندگی ہو گی‘ وزیراعظم تھوڑی دیر فائل دیکھتے رہے اور پھر اسے سائیڈ پر رکھ دیا اور شہباز شریف کے مقدموں پر گفتگو شروع کر دی۔

میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں عثمان بزدار کے خلاف پہلی شکایت اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی‘ پرویز خٹک اور فواد چوہدری نے کی تھی‘ یہ چاروں 2019 کے شروع میں اکٹھے آرمی چیف کے پاس گئے تھے اور ان سے درخواست کی تھی آپ ہماری عثمان بزدار سے جان چھڑادیں ورنہ ہم چھ ماہ میں فارغ ہو جائیں گے۔

ان کے ساتھ ایک اور سیاست دان بھی تھے اور یہ بات مجھے اس سیاست دان نے 2019 کے وسط میں بتائی تھی‘ آرمی چیف نے اس میٹنگ کے بعد بزدار کی فائل وزیراعظم کو پیش کی تھی مگر خان صاحب کی نظر میں بزدار کے جرائم‘ جرائم نہیں تھے۔

ان سے جب بھی بات کی جاتی تھی وہ مسکرا کر جواب دیتے تھے آپ کو نواز شریف‘ شہباز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن نظر نہیں آتی یوں محسوس ہوتا تھا وزیراعظم اپنے لوگوں کی کرپشن کو سرے سے کرپشن ہی نہیں سمجھتے بہرحال قصہ مزید مختصر جنرل نوید مختار کے بعد لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ڈی جی آئی بن گئے‘ جنرل فیض حمید 29 اپریل 2019تک ڈی جی سی رہے‘ یہ اس کے بعد ایجوٹینٹ جنرل بنا کر جی ایچ کیو بھجوا دیے گئے۔

جنرل عاصم منیر بھی پنجاب کی صورت حال سے پریشان ہو گئے‘ وقت کے ساتھ ساتھ کرپشن میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا‘ سیکریٹری ٹو سی ایم طاہر خورشید (ٹی کے) اس ریکٹ کا اہم ترین مہرہ تھا‘ سی ایم ہاؤس میں یلو کلر کی چٹوں پر فیصلے ہوتے تھے اور افسروں کو باقاعدہ تاریخ دی جاتی تھی آپ کے پاس فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک وقت ہے۔

آپ اس میں جو بنا سکتے ہیں بنا لیں‘ دوسری صورت میں انھیں نئے سرے سے ادائیگی کرنا پڑتی تھی‘ یہ صورت حال جون 2019 تک ناقابل برداشت ہو گئی چناں چہ ڈی جی آئی جنرل عاصم منیر نے وزیراعظم کو مطلع کرنے کا فیصلہ کیا‘ جنرل باجوہ مڈل ایسٹ کے دورے پر جا رہے تھے‘ ان کا مشورہ تھا میں واپس آ جاتا ہوں تو ہم دونوں اکٹھے وزیراعظم کے پاس جائیں گے اور انھیں صورت حال کی سنگینی کے بارے میں مطلع کریں گے لیکن ڈی جی آئی کا کہنا تھا وزیراعظم کو بروقت مطلع کرنا میری ذمے داری ہے۔

میں اگر خاموش رہوں گا تو یہ میرے حلف کی خلاف ورزی ہوگی بہرحال قصہ مزید مختصر جنرل عاصم منیر نے وزیراعظم کو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ فائل دے دی ‘ وزیراعظم ناراض ہو گئے اور انھوں نے آرمی چیف کو فون کر کے جنرل عاصم منیر کو ہٹانے کا حکم دے دیا جس کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان 15 جون 2019 ہفتے کے دن پانچ گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔

آرمی چیف نے وزیراعظم کو سمجھایا افسروں کو ڈی جی آئی جیسی پوزیشنز سے اس طرح نہیں ہٹایا جاتا‘ یہ زیادتی بھی ہے اور حماقت بھی‘ دوسرا جنرل عاصم نے آپ کو اطلاع دے کر اپنا فرض ادا کیا‘ یہ ان کا کام ہے مگر وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے‘ آرمی چیف نے آخر میں وزیراعظم کو مشورہ دیا آپ جنرل عاصم کو بلائیں‘ ان کے ساتھ بیٹھیں‘ انھیں چائے پلائیں اور انھیں عزت کے ساتھ رخصت کر دیں لیکن وزیراعظم اس کے لیے بھی راضی نہ ہوئے اور یوں 16 جون 2019 کو اتوار کے دن جنرل عاصم منیر کا تبادلہ کر دیا گیا۔

آرمی چیف نے وزیراعظم کو نئے ڈی جی کے لیے تین نام بھجوا دیے‘ اس فہرست میں جنرل فیض حمید کا نام شامل نہیں تھا‘ وزیراعظم نے فہرست ملنے کے بعد آرمی چیف کو بلایا اور صاف کہہ دیا ’’آپ مجھے جنرل فیض حمید دے دیں‘ میں ان کے بغیر کام نہیں چلا سکوں گا‘‘ یوں تین سینیئر جنرلز کی فہرست واپس لے کر 16 جون 2019 کو جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی بنایا گیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تماشا پوری دنیا نے دیکھا۔

پنجاب میں اس زمانے میں پانچ لوگوں کی حکمرانی تھی‘ بشریٰ بی بی‘ یہ پنجاب چلا رہی تھیں‘ ان کے بچے اور سابق فیملی بھی اس کھیل میں شامل تھی‘دوسرا کردار فرح گوگی تھی‘ یہ بشریٰ بی بی کی دوست اور دست راست تھی‘ آپ ان کے اختیارات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے‘ تیسرا کردار طاہر خورشید تھا‘ یہ سیکریٹری ٹو سی ایم تھا‘ آپ اس کے اختیارات کا اندازہ اس چیز سے لگا لیجیے پی ٹی آئی نے اس زمانے میں صرف ایک ضمنی الیکشن جیتا اور وہ طاہر خورشید کے داماد احسن سلیم بریار کا الیکشن تھا‘ یہ خاصا متنازع ہوا۔

طاہر خورشید نے اپنی صاحب زادی کی شادی پر ایک ارب 25 کروڑ روپے کی سلامیاں اور گاڑیاں وصول کیں اور بقول چوہدری پرویز الٰہی میں نے زندگی میں اتنی مہنگی شادی اور اتنی سلامیاں نہیں دیکھیں‘طاہر خورشید کے سمدھی بریار خاندان نے اب ایک ٹیلی ویژن چینل بھی شروع کر لیا ہے‘طاہر خورشید اس وقت لندن میں ہیں اور یہ بھی اعظم خان کی طرح وعدہ معاف بننے کے لیے تیار ہیں‘ چوتھی طاقت وزیراعظم خود تھے۔

یہ بھی آئی جی اور چیف سیکریٹری کے ذریعے صوبہ چلانے کی کوشش کر رہے تھے‘ عمران خان نے ساڑھے تین برسوں میں سات آئی جی اور پانچ چیف سیکریٹری تبدیل کیے لیکن اس کے باوجود صوبہ نہ چل سکا‘ کیوں؟ کیوں کہ صوبے کی تمام تنابیں بشریٰ بی بی‘ فرح گوگی اور طاہر خورشید کے ہاتھوں میں تھیں اور جب تک ان کا بندوبست نہ کیا جاتا صوبہ نہیں چل سکتا تھا اور آخر میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار آتے ہیں۔

یہ نام کے ہی سہی لیکن یہ وزیراعلیٰ تھے چناں چہ جہاں ان کا ہاتھ پڑتا تھا‘ یہ بھی نہیں چوکتے تھے‘ پانچ کھلاڑیوں کے اس کھیل میں ملک کا بیڑا غرق ہو گیا‘ یہ ملک اگر آج مہنگائی‘ بے روزگاری‘ سیاسی افراتفری‘ لاقانونیت‘ آئینی بے بسی اور عدم استحکام کا شکار ہے تو ہمیں یہ ماننا ہوگا۔

اس کی وجہ ساڑھے تین سال کا وہ ’’مس ایڈونچر‘‘ تھا‘ اسٹیبلشمنٹ نے جلد بازی میں نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا اور اس کے بعد اس فالٹی پروجیکٹ کی کام یابی کے لیے اداروں کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا گیا چناں چہ آج ملک اس غلطی کی فصل کاٹ رہا ہے اور یہ فصل ہر روز بڑھ رہی ہے۔

آپ تازہ ترین صورت حال دیکھ لیں‘ صدر نے اتوار کی صبح آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے بارے میں ٹویٹ کر دی جس کے بعد نیا بحران پیدا ہو گیا‘ صدر ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ ہوتا ہے اور اس عہدے سے اس قسم کی ٹویٹ کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے صدر بھی جلتی ہوئی آگ پر پٹرول چھڑکنے والوں میں شامل ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان بھی دوبارہ ایکٹو ہو رہی ہے چناں چہ پھر ایک دو ماہ میں ملک کہاں کھڑا ہوگا؟ میرا ذاتی خیال ہے ہم اگر اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں کچھ بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے‘ ان فیصلوں میں پہلا فیصلہ ایکسٹینشن پر پابندی ہونی چاہیے‘ ملک میں کسی بھی عہدے دار کی مدت ملازمت میں اضافہ نہ کیا جائے خواہ ایٹمی جنگ ہی کیوں نہ چھڑ جائے‘ آپ یقین کریں ملک کے 90 فیصد بحرانوں کی جڑ ایکسٹینشن ہے۔

دوسرا فیصلہ مسلح افواج کے سربراہوں کا تعین سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ماڈل پر ہونا چاہیے‘ وزیراعظم کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے‘ میرا چیف اور تیرا چیف نے ملک کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

تیسرا فیصلہ آپ نے آئین میں جتنی ترامیم کرنی ہیں ایک ہی بار کر لیں اور اس کے بعد آئین میں کوئی تبدیلی ہو گی اور نہ کوئی چھیڑ چھاڑ اور چپڑاسی سے لے کر صدر تک پورا ملک اس پر عمل کرے گا اور چوتھا فیصلہ عدلیہ میں ڈائریکٹ انڈکشن ختم کر دی جائے‘ فوج کی طرح عدلیہ میں بھی بھرتیاں ہوں اور جج فلٹر ہو کر سپریم کورٹ تک پہنچیں‘اب ہر سیاسی جماعت اپنی مرضی کے وکلاء کو جج بنا دیتی ہے اور وہ آ کر ملک کی مزید مت مار دیتے ہیں۔

یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے اور آخری فیصلہ خدا کے لیے ملک پر رحم کریں‘ یہ آپ کا اپنا ملک ہے‘ ایسا سلوک تو کرائے کی سائیکل سے بھی نہیں ہوتا جو ہم اس ملک سے کر رہے ہیں چناں چہ کھلے دل سے غلطیاں مانیں اور بڑے فیصلے کریں‘ یہ ملک اس صورت حال میں نہیں چل سکے گا۔