دوسرا محسن نقوی

اورنگ زیب عالمگیر ہندوستان کا آخری مضبوط بادشاہ تھا‘ اس کے دور میں مغل سلطنت بنگال سے کراچی‘ کراچی سے ازبکستان‘ کابل سے ہماچل اور کوہیما سے کولکتہ تک پھیلی ہوئی تھی لیکن 1707 میں اس کے انتقال کے بعد اوپر تلے 9 مغل بادشاہ آئے اور یہ عظیم سلطنت تیزی سے زوال پذیر ہو گئی۔

اورنگ زیب کے دربار میں مکہ‘ ایران‘بلخ‘ بخارا‘ حبشہ‘ کاشغر‘ خیوا‘ بصرہ‘ یمن ‘ حضر موت‘ فرانس‘برطانیہ‘ آسٹریا اور چین کے سفیر ہوتے تھے اور پھر ایک وقت ایسا آیا جب مغل سلطنت صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی اور بادشاہوں کو اپنی شبانہ سرگرمیوں کے لیے بھی مہاجنوں سے قرض لینا پڑتا تھا۔

ایک وقت تھا جب تجارتی قافلے سمر قند اور کاشغر سے گزرنے سے پہلے دہلی سرکار سے اجازت لیتے تھے اور پھر ایک ایسا وقت آ گیا جب نادر شاہ درانی بادشاہ کا تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا لے کر ایران چلا گیا اور بادشاہ کو ہمایوں کے مزار پر جانے کے لیے بھی انگریزسے اجازت نامہ لینا پڑتا تھا‘مغل سلطنت کا یہ زوال آج بھی مورخین اور تجزیہ نگاروں کا مرغوب موضوع ہے‘ دنیا آج بھی اس سلطنت کے زوال کی وجوہات پر بحث کرتی ہے اور عبرت پکڑتی ہے۔

مغل سلطنت کے زوال کی تین وجوہات اہم ترین ہیں اور دنیا نے ان سے بے تحاشا سبق سیکھا‘ مغل سلطنت کی پہلی خامی عمائدین سلطنت تھے‘ اورنگ زیب سپہ سالار تھا‘وہ اپنے والد اور تین بھائیوں کو شکست دے کر بادشاہ بنا تھا‘اس نے اپنے تمام بھتیجے اور بھانجے مروا دیے تھے۔

وہ 88 سال زندہ رہا‘ ان 88 برسوں میں اس نے کسی شہزادے کو عسکری تربیت نہیں لینے دی چناں چہ اورنگ زیب کے بعد مغلوں میں ایک بھی کام کا سپہ سالار اور منتظم نہیں تھا‘ پورا شاہی محل کبوتر باز‘ خطاط اور مناظرے کا شوقین تھا یوں ایڈمنسٹریشن اور سپہ گری کا فن مغلوں کے ہاتھ سے نکل گیا‘ اورنگ زیب نے بھی اپنے نیچے کسی کو پنپنے نہیں دیا۔

لہٰذا ہندوستان میں کوئی کام کا کمانڈر نہیں بچا‘ فوج چار لاکھ تھی مگر اس کا سالار کبھی شاعر ہوتا تھا‘ کبھی مصور اور کبھی کوئی کبوتر باز شہزادہ‘ سلطنت کے باقی منصبوں پر بھی چن چن کر نااہل اور کم زور لوگ تعینات کیے جاتے تھے‘ کیوں؟ کیوں کہ بادشاہ کا خیال تھا اگر کوئی اہل شخص آ گیا تو وہ اپنے گرد مزید اہل لوگ جمع کر لے گا۔

بادشاہ کے خلاف بغاوت ہو جائے گی اور یوں تخت کسی دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے گا چناں چہ 1707 سے 1857 تک ہندوستان کے کسی منصب پر کوئی اہل شخص تعینات نہیں ہوا اور اس کے نتیجے میں ہندوستان پر ہر سال حملہ بھی ہوا‘ تباہی بھی آئی اور سلطنت بھی مختصر ہوتی ہوتی دہلی تک رہ گئی‘ اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل دربار سے یہ معاہدہ کیا کوئی مغل شہزادہ عسکری ٹریننگ نہیں لے گا۔

سلطنت کی حفاظت کی ذمے داری کمپنی کے پاس ہو گی‘ یہ ریاست کو بچائے گی چناں چہ شہزادوں کے پاس صرف تین شغل رہ گئے‘ شاعری‘ کبوتر بازی اور مجرے اور یہ ان تینوں شغلوں کے لیے اپنی زمینیں‘ محل اور باغ رہن رکھتے چلے گئے‘ دوسری وجہ مغل دنیا کی تبدیلیوں سے بے خبر تھے‘ دنیا میں سائنسی اور صنعتی انقلاب آ چکا تھا‘ یورپی لوگ امریکا تک پہنچ گئے تھے اور وہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال تھا‘ امریکا کی دریافت سے قبل ہندوستان خام مال کی سب سے بڑی منڈی تھا مگر 1700 تک یہ منڈی امریکا شفٹ ہو چکی تھی۔

لہٰذا ہندوستان کی تجارتی حیثیت کم ہو گئی تھی‘ جہاز رانی اور بارودی اسلحہ نے بھی باربرداری اور جنگوں کی نفسیات بدل دی تھی‘ دنیا میں تعلیمی اور تجارتی انقلاب بھی آ چکا تھا‘ صنعتی پیداوار نے زرعی پیداوار کی جگہ لے لی تھی اور اسکلز اور سروسز کا سیکٹر بھی متعارف ہو گیا تھا جب کہ ہندوستان کنوئیں کے مینڈک کی طرح ان تبدیلیوں سے بے خبر تھا‘ ہندوستان میں اس وقت سب سے بڑی انڈسٹری گھوڑوں کی کھریاں اور خواتین کے دوپٹے تھی۔

یہ اس زمانے میں بھی ہاتھیوں اور گھوڑوں پر تلواروں سے لڑتے تھے اور گلستان اور بوستان کو ڈگری سمجھتے تھے اور تیسری اور آخری وجہ باہمی لڑائی تھی‘ ہندوستانی ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے‘ ملک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔

یہ ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف جہاد کر رہی تھیں اور انگریز سائیڈ پر کھڑا ہو کر ان کے کم زور ہونے کا انتظار کر رہا تھا‘ ان میں سے جو دوسروں کو شکست دے لیتا تھا انگریز اسے پھینٹا لگا کر فنا کر دیتے تھے چناں چہ 83 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا اور 40 کروڑ کی آبادی کا ہندوستان حلوہ بن کر انگریز کے دستر خوان پر پہنچ گیا۔

ہم اگر آج کے پاکستان کو مغلوں کے ہندوستان کے سامنے رکھ کر دیکھیں تو ہمیں دونوں میں بے شمار کامن چیزیں ملیں گی مثلاً ہم دنیا کی واحد اسلامک نیوکلیئر پاور ہیں‘ ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہیں‘ ہماری فوج دنیا کی چوتھی بڑی اور مضبوط فوج ہے‘ ہمارے پاس 6ٹریلین ڈالر کے کاپر اور سونے کے ذخائر ہیں۔

ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے‘ زراعت کا پوٹینشل 40 بلین ڈالر سالانہ ہے‘ ہمارے پاس دنیا کی 30 بلند چوٹیاں ہیں‘ ہم صرف جڑی بوٹیوں سے دس پندرہ بلین ڈالرز کما سکتے ہیں‘ ہمارے پاس کوئلے کے اتنے ذخائر ہیں جن سے ہم دو سو سال تک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں‘ ہمارے پاس ہزار کلومیٹر کی کوسٹل لائن بھی ہے جس پر ہم کراچی جیسے تین نئے شہر آباد کر سکتے ہیں اور ہم آدھی دنیا کو مزدوروں سے لے کر ڈاکٹرز تک ہنر مند بھی دے سکتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں اور ہم نے 20 برسوں سے اقوام عالم کے چوکوں اور چوراہوں سے بھیک مانگنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

کیوں؟ کیوں کہ ہم مغل بادشاہوں کی طرح ہر اہم منصب پر اپنے سے کمتر صلاحیت کے لوگ تعینات کرتے ہیں‘ ہماری سیاسی جماعتیں حلقے کے نالائق ترین لوگوں کو ٹکٹ دیں گی‘ ان میں سے چھانٹی کر کے مزید نالائقوں کو وزیر بنائیں گی اور یہ وزیرآدھی بیوروکریسی سے چھان کر نااہل‘ نالائقوں اور کرپٹس کو تعینات کریں گے۔

پاکستان میں 75برسوں سے ایک اور کھیل بھی چل رہا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ ایک کم زور اور کمپرومائزڈ شخص کو وزیراعظم بناتی ہے اور وزیراعظم ایک کم زور اور کمپرومائزڈ افسر کو آرمی چیف لگانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کھیل میں ملک کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔

ہماری حالت یہ ہے ہماری سیاسی قیادت کسی قابل‘ اہل اور سمجھ دار شخص کو نگران وزیراعظم بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتی‘یہ تین چار ماہ کے لیے بھی گونگے‘ بہرے اور کمپرومائزڈ شخص کا انتخاب کرتے ہیں‘اس بار بھی یہی ہو رہا تھا‘ پی ڈی ایم کم زور ترین نگران وزیراعظم تلاش کر رہی تھی تاکہ ان کی واپسی کی گنجائش پیداہو سکے۔

یہ محسن نقوی جیسا تجربہ نہیں دہرانا چاہتے تھے‘ آپ کو یقیناً معلوم ہو گا آصف علی زرداری اور نواز شریف نے محسن نقوی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اس لیے بنوایا تھا کہ یہ 12 کروڑ لوگوں کا صوبہ نہیں چلا سکیں گے‘ یہ بارہ بجے اٹھیں گے‘ دفتر جائیں گے۔

دوستوں کے ساتھ گپ لگائیں گے‘ دو چار ارب روپے کمائیں گے اور گھر چلے جائیں گے مگر نتیجہ الٹ نکلا‘محسن نقوی نے دن رات ایک کر دیا‘ یہ ازبکستان سے کپاس کا نیا بیج تک لے آئے ‘ انھوں نے سات ماہ میں شہباز شریف کی اسپیڈ کو مات دے دی لہٰذا انھیں بنانے والے آج پچھتا رہے ہیں۔

میرا خیال ہے انوارالحق کاکڑ کے معاملے میں بھی یہی ہوا ‘یہ آسمان سے نازل ہو چکے ہیں اور یہ بھی محسن نقوی کی طرح تینوں سیاسی جماعتوں کو ٹھیک ٹھاک ٹکر دیں گے اور اگر ایسا ہو گیا تو الیکشن بھی نہیں ہوں گے اور سیاسی جماعتوں کی واپسی بھی مشکل ہو جائے گی۔

یہ حقیقت ہے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو اس وقت ایک ایسی حکومت چاہیے جو شہباز شریف اور عمران خان کی حکومتوں سے بھی بری ہو تا کہ یہ ایک بار پھر اقتدار میں آ سکیں‘ انھیں محسن نقوی جیسے لوگ سوٹ ہی نہیں کرتے چناں چہ اگر انوارالحق کاکڑ بھی محسن نقوی ثابت ہو گئے تو پھر کیا ہوگا؟آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

میں پچھلے سولہ ماہ سے یہ سن رہا ہوں ن لیگ نے اقتدار لے کر غلطی کی‘ یہ بات پارٹی کی حد تک درست ہے‘ واقعی 16 ماہ میں ن لیگ کی سیاست کا جنازہ نکل گیا اور یہ عوام کے پاس جانے اور ووٹ مانگنے کے قابل نہیں رہے‘ یہ اب کس منہ سے ووٹ کو عزت دو اور مہنگائی کی چکی کا ذکر کریں گے مگر جہاں تک میاں شہباز شریف کا معاملہ ہے یہ میچ جیت گئے ہیں۔

یہ مارچ 2022 میں جیل بھی جا رہے تھے اور ڈس کوالی فائی بھی ہو رہے تھے لیکن پھر یہ اقتدار میں آئے اور انھوں نے اپنے کیسوں کا فیصلہ بھی کرا لیا اور سولہ ماہ میں اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین بھی دلا دیا آپ کو مجھ سے بہتر کوئی شخص نہیں مل سکتا۔

آپ اگر کہیں گے تو میں آئین کو بھی پھاڑ کر پھینک دوں گا‘میں میاں نواز شریف کی مخالفت کے باوجود انوارالحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم بھی بنا دوں گا لہٰذا آپ کو مجھ جیسا شخص کہاں سے ملے گا؟ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں یہ 16 ماہ صرف شہباز شریف کے تھے۔