وزیراعظم اور آرمی چیف سے پوچھ دیں

میرا ہمسایہ تامل تھا‘ وہ چنائی میں رہتا تھا اور لیڈی گارمنٹس کا کاروبار کرتا تھا‘ اس کی چار فیکٹریاں تھیں اور وہ یقینا ارب پتی ہو گا‘ انسان جب طاقت‘ دولت اور شہرت کی خاص حد سے آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔

آپ کسی جگہ کسی نامعلوم مشہور‘ دولت مند یا طاقتور شخص کو دیکھیں‘ آپ کو اس کے چہرے پر لکھا ہوا محسوس ہو گا ’’میں عام آدمی نہیں ہوں‘‘ اور اس کا چہرہ بھی بتا رہا تھا وہ خاص شخص ہے‘ فلائیٹ نے سنگا پور سے اڑان بھری اور میں کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا‘ وہ ترچھی نظر سے کتاب دیکھ رہا تھا‘ میں نے مسکرا کر اسے کتاب پکڑا دی۔

وہ شرمندہ ہو کر بولا ’’میرا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا‘ مجھے کتاب کا ٹائٹل دل چسپ لگا‘ میں اس لیے اسے دیکھ رہا تھا‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ آپ یہ کتاب رکھ سکتے ہیں‘ میرے پاس اس کی دوسری کاپی موجود ہے‘‘ اس نے ہنس کر شکریہ ادا کیا اور یوں اس کے ساتھ گفتگو شروع ہو گئی‘ وہ لیڈی گارمنٹس کی تمام ورائٹیز بناتا تھا‘ یورپ اور جاپان اس کا گاہک تھا‘ اس کا کاروبار انڈیا میں تھا لیکن وہ رہتا سنگا پور میں تھا۔

میں نے وجہ پوچھی تو اس کا جواب تھا سنگا پور میں صفائی اور امن ہے‘ میں اس لیے فیملی سمیت یہاں رہتا ہوں‘ میں نے ہنس کر کہا ’’لیکن یہ دونوں چیزیں تو دنیا کے بے شمار ملکوں میں ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’ہاں لیکن سنگا پور میں ساؤتھ انڈین کھانا‘ مندر اور موسم بھی ہیں‘ یہاں گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی‘ انفرااسٹرکچر شان دار اور سوسائٹی کرائم فری ہے۔

چنائی سے فاصلہ بھی زیادہ نہیں لہٰذا میں مہینے میں دس دن سنگا پور اور 20 دن انڈیا میں رہتا ہوں‘‘ میں نے اس سے اتفاق کیا‘ لی کو آن یو نے واقعی مشرق میں یورپ سے زیادہ بہتر ملک تخلیق کیااور لوگ اب اس میں رہنا چاہتے ہیں۔

میں 23اگست کو پانچویں مرتبہ دو دن کے لیے سنگا پور گیا‘ اس وزٹ کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی‘ میرے پاس ویزہ تھا لہٰذا میں سنگا پور پہنچ گیا‘ میری اس بار دو سنگاپورین پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی‘ لطیف صدیقی شپنگ کمپنی چلا رہے ہیں۔

ان کے جہاز پوری دنیا میں چلتے ہیں اور یہ سالانہ اربوں روپے کا کام کرتے ہیں‘ دوسرے صاحب ڈاکٹر شہزاد نسیم ہیں‘ ڈاکٹر صاحب خانیوال کے رہنے والے ہیں‘ یہ 1973 میں سنگاپور پہنچے‘ بائی پروفیشن اسٹرکچرل انجینئر ہیں‘ انھوں نے 1974میں آسٹریلین کنسٹرکشن کمپنی مائین ہارٹ (Meinhardt) میں جاب کر لی اور ترقی کرتے کرتے کمپنی کے سی ای او بن گئے۔

کمپنی کے مالک بل مائین ہارٹ نے انھیں اپنا بیٹا بنا لیا‘ 2003 میں بل کا انتقال ہوا تو کمپنی اس کی بیٹی کو منتقل ہو گئی‘ اس نے کاروبار چلانے کی کوشش کی مگر وہ کام یاب نہ ہوسکی اور اس نے کمپنی ڈاکٹر شہزاد نسیم کو بیچ دی‘ مائین ہارٹ دنیا کی بڑی ڈیزائننگ اور کنسٹرکشن کمپنیوں میں شامل ہے‘ اس نے دنیا کی 30 بلند عمارتیں‘ درجنوں ایئرپورٹس اور میٹروز بنائی ہیں‘ یہ لوگ سالانہ 25 ارب ڈالر کے پروجیکٹس مکمل کرتے ہیں۔

یہ اس وقت ازبکستان کا نیا دارالحکومت بھی ڈیزائن کر رہے ہیں‘ بھارت میں بھی ان کے درجن کے قریب منصوبے چل رہے ہیں‘ 55 ملکوں میں ان کے دفاتر ہیں اور پانچ ہزار ملازمین ہیں‘ مجھے شہزاد نسیم کے دفتر اور گھر جانے کا اتفاق بھی ہوا اور ان کے ساتھ کھانا کھانے اور چلنے پھرنے کا موقع بھی ملا‘ ڈاکٹر شہزاد اور ان کے صاحبزادے عمر شہزاد دونوں بھلے مانس اور سمجھ دار ہیں۔

یہ سنگاپور کے انویسٹمنٹ بورڈ میں بھی شامل ہیں اور ان کا وزیراعظم ہاؤس میں بھی عمل دخل ہے‘ یہ درجن بھر سربراہان مملکت کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور اس وقت بھی کر رہے ہیں‘ وزیراعظم لی کو آن یو کے ساتھ بھی ان کا براہ راست رابطہ تھا‘ شہزاد نسیم جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان آئے اور کراچی میں کریک مرینہ کے نام سے سمندر کے کنارے چھ ستارہ فلیٹس بنانا شروع کر دیے۔

یہ آٹھ 35 منزلہ ٹاور تھے اور یہ کراچی کی بلند ترین عمارتیں تھیں‘ یہ منصوبہ 2005 میں شروع ہوا مگر 2023 یعنی 18برسوں میں مکمل نہ ہو سکا جب کہ اس دوران ان کی کمپنی مائین ہارٹ نے ملائیشیا میں دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت بھی بنا دی اور بھارت کے آٹھ ایئرپورٹس بھی۔

میں نے ڈاکٹر شہزاد نسیم سے پوچھا ’’آپ پاکستان میں کیوں فیل ہو گئے؟‘‘ انھوں نے ہنس کر جواب دیا ’’پاکستان میں کوئی بھی منصوبہ مکمل کرنے کے لیے چار زندگیاں اور آپ کے آٹھ کلون(ہم زاد) چاہییں‘ آپ کا ایک ہم زاد روزانہ عدالتوں میں پیش ہو‘ دوسرا ایف آئی اے کے دفتر حاضری دے‘ تیسرا نیب میں ماتھا ٹیکے‘ چوتھا ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں جوتے گھسائے‘ پانچواں وزیراعلیٰ ہاؤس میں بیٹھا رہے‘ چھٹا بیوروکریسی اور فوج کے ساتھ رابطے میں رہے۔

ساتواں کلائنٹس سے لڑتا رہے اور آٹھواں ہم زاد سائیٹ پر کام کرائے‘ یہ اکیلے بندے کے بس کی بات نہیں‘‘ مجھے ان کی کہانی دکھی محسوس ہوئی‘ میں نے ان سے تفصیل پوچھی تو انھوں نے بتایا’’شوکت عزیز سنگا پور میں سٹی بینک میں تھے۔

میرے ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے‘ یہ ہمارے کام سے بھی واقف تھے لہٰذا یہ مجھے پاکستان لے گئے‘ ہم نے کراچی میں کام شروع کر دیا‘ پاکستان میں اس زمانے میں کوئی بڑی کنسٹرکشن کمپنی نہیں تھی لہٰذا ہم نے چینی فرم کے ساتھ معاہدہ کر لیا‘ سائیٹ پر کام شروع ہو گیا‘ 2008 میں پاکستان میں دہشت گردی شروع ہو گئی اور چینیوں پر حملے ہونے لگے لہٰذا ہماری چینی کمپنی واپس چلی گئی۔

اس کی ایک ارب روپے کی بینک گارنٹی تھی‘ عدالت نے اس کے خلاف اسٹے آرڈر دے دیا‘ چینی کمپنی نے ہمارے خلاف کارروائی شروع کر دی یوں کام رک گیا‘ اس دوران کسی نے نیب میں ہمارے خلاف درخواست دے دی‘ نیب نے انکوائری شروع کر دی‘ یہ انکوائری 2021تک چلتی رہی‘ ہم کبھی ایک دفتر اور کبھی دوسرے دفتر ذلیل ہوتے رہے۔

ہم نے اس دوران ایک لوکل کمپنی کو اپنے ساتھ شامل کر لیا‘ اس نے کام کیا اور نہ اپنا شیئر دیا اور الٹا ہم پر کیس بھی کر دیا‘ ہم ابھی ان کے ساتھ نبٹ رہے تھے کہ اتھارٹی نے ہماری لیز کینسل کر دی‘ ہم اب چار جنگیں لڑ رہے تھے‘ اتھارٹی کے ساتھ محاذ کھلا ہوا تھا‘ لوکل پارٹنر کے کیس بھگت رہے تھے‘ نیب کی انکوائری چل رہی تھی‘ کلائنٹس کا دباؤ بھی بڑھ رہا تھا‘ ہم نے کل ساڑھے تیرہ سو فلیٹس بنانے تھے۔

ان میں سے صرف اڑھائی سو کی بکنگ ہوئی تھی‘ ہمارے پاس ساڑھے تین ارب روپے تھے‘ ہم نے ان سے تین ٹاورز کا گرے اسٹرکچر مکمل کر لیا جب کہ باقی پانچ کی بنیادیں مکمل تھیں لیکن ہمیں سانس کی مہلت بھی نہیں دی جا رہی تھی‘ ہم پاکستان جا جا کر تھک گئے‘ اس دوران کووڈ بھی آ گیا‘ ہمارے تین سال اس میں بھی ضایع ہو گئے۔

ہم اب بھی اپنا پروجیکٹ مکمل کرنا چاہتے ہیں مگر ہمارے نام اسٹاپ لسٹ میں ہیں‘پانچ سال سے ایف آئی اے کی انکوائری چل رہی ہے‘ ہمیں عدالتیں بھی بلا رہی ہیں اور ہمارے اکاؤنٹس بھی سیز ہیں لہٰذا آپ خود بتائیں ہم کام کیسے کریںگے؟ کام مکمل کرنے کے لیے ہمارا پاکستان جانا ضروری ہے مگر ہم اسٹاپ لسٹ میں ہیں۔

ہمارا لوکل پارٹنر ہمیں ایف آئی اے کے ذریعے سانس نہیں لینے دے رہا‘ اتھارٹی ہمیں کام نہیں کرنے دے رہی اور ان اٹھارہ برسوں میں ایک ہزار کی چیز پچاس ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے‘ ہم نے کام شروع کیا تھا تو ڈالر 60 روپے تھا‘ آج یہ 315 روپے میں بھی نہیں مل رہا‘ ہم اگر کوئی انٹرنیشنل کمپنی لے جاتے ہیں تو حکومت کل اسے ڈالر باہر لے جانے کی اجازت نہیں دے گی چناں چہ یہ پھر وہاں کیوں جائے گی اور ہم اگر کوئی پاکستانی کمپنی ہائر کرتے ہیں تو اسے ہمارا وہ لوکل پارٹنر کام نہیں کرنے دے گا جس نے ہمیں گلے سے پکڑا ہوا ہے لہٰذا پھر ان حالات میں پروجیکٹ کیسے مکمل ہو گا اور اس کی بھی کیا گارنٹی ہے ہم پاکستان جائیں اور ہمارے نام ای سی ایل میں نہ ڈال دیے جائیں اور اگر یہ ہو گیا تو ہمارے 55 ملکوں میں دفاتر بند ہو جائیں گے‘ ہمارے انٹرنیشنل پروجیکٹس لٹک جائیں گے لہٰذا پھر ہم نے اس خواری میںکیا کمایا‘‘ ۔

میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کے ذہن میں اس کا کیا حل آتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر شہزاد نسیم کا جواب تھا ’’آرمی چیف اور وزیراعظم ہماری بات بھی سن لیں‘ یہ ہمارے راستے کی رکاوٹیں ختم کردیں‘ ہماری ایف آئی اے اور عدالتوں سے جان چھڑائیں ‘ ہمیں پروجیکٹ مکمل کرنے دیں‘ ہم اپنے کلائنٹس کو فلیٹس ہینڈ اوور کریں اور معاملہ ختم ہو‘ آپ لوگ پاکستان میں خوش اور ہم سنگا پور میں‘‘ یہ رکے اور پھر ہنس کر بولے ’’آپ پوری دنیا میں سرمایہ کار تلاش کر رہے ہیں لیکن اپنے لوگوں کی مت مار دیتے ہیں۔

کیا اس طرح کام ہو سکتا ہے؟ دوسراکیا میرا حشر دیکھ کر سنگا پور کے سرمایہ کار پاکستان جائیں گے؟ آپ یہ یاد رکھیں پاکستان کا سب سے بڑا پوٹینشل اس کے اوورسیز ہیں‘ یہ آئیں گے اور یہ کام کریں گے تو ان کے پیچھے دوسرے سرمایہ کار آئیں گے لیکن اگر یہ عدالتوں کے برآمدوں میں ذلیل ہو جائیں گے تو پھر کوئی نہیں آئے گا‘‘۔

یہ رکے اور بولے‘آپ وزیراعظم اور آرمی چیف سے مجھے اس سوال کا جواب لے دیں ’’آپ اگر مجھے سنگا پور سے پاکستان نہیں آنے دے رہے۔ آپ اگر میری گردن نہیں چھوڑ رہے تو پھر پروجیکٹ کیسے مکمل ہو گا؟ کیا میں سیٹلائٹ کے ذریعے کام کروں گا اور دوسرا اگر مجھے میرا لوکل پارٹنر تنگ کر رہا ہے‘ یہ پروجیکٹ نہیں چلنے دے رہا تو پھر مجھے کون سا دروازہ کھٹکھٹاناچاہیے‘ میں کس سے رابطہ کروں؟۔‘‘