پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
بدلا ہوا لندن
مجھے اَن گنت بار ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جنہیں اپنے پسندیدہ لیڈر کی نالائقی اور نااہلی کے باعث ہونے والے نقصان‘ پریشانی یا مشکل کے بارے میں اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی مخالف لیڈر کی طرف سے زیادہ بڑی نالائقی کے طفیل ہونے والے بڑے نقصان پر خوشی ہوتی ہے۔ وہ اس بات پر ہی خوش رہتا ہے کہ میرے لیڈر نے ملک و قوم کا اتنا نقصان نہیں کیا جتنا کہ مخالف لیڈر نے کیا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یورپ امریکہ وغیرہ سے ہو کر آئیں اور انہیں کہیں کہ اس ملک میں بہت مہنگائی ہو گئی ہے تو وہ آگے سے جواب دیتے ہیں کہ آپ شکر کریں کہ ابھی ہمارے ہاں وہ مہنگائی نہیں ہے‘ فلاں ملک میں تو ہم سے بھی زیادہ مہنگائی ہے۔ ایسے لوگوں کی خوشی میں مزید اضافے کیلئے عرض کر رہا ہوں کہ برطانیہ میں بھی بہت مہنگائی ہو گئی ہے۔
گو کہ میرا مہنگائی کے بارے میں بڑا واضح موقف ہے کہ مہنگائی کا حقیقی تعلق کسی چیز کی قیمت خرید کے بڑھنے سے نہیں بلکہ آپ کی قوت ِخرید سے باہر ہو جانے سے ہے؛ تاہم برطانیہ میں ہونے والی مہنگائی کے اثرات بڑے نمایاں طورپر دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمارے لیے تو خیر برطانیہ میں دہری مہنگائی ہوئی ہے۔ ایک تو یہ کہ روپیہ تحت الثریٰ میں گرنے کے باعث وہ پاؤنڈ جو اسی کی دہائی کے آغاز میں آٹھ روپے کے لگ بھگ ہوتا تھا‘ آج دو سو پچاس روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ میں خود ایک سو روپے کے عوض ایک پاؤنڈ کے شرح تبادلہ والے حساب سے جو چیز سو روپے میں لیتا تھا اب وہ دو سو پچاس؍ ساٹھ روپے کی ہو گئی ہے لیکن دہرا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب دو پاؤنڈ والی چیز بھی تین‘ چار پاؤنڈ کی ہو گئی ہے۔ خیر ہمارے جتنا برا حال تو بہرحال نہیں ہے لیکن اس مہنگائی نے برطانوی عام آدمی کی قوتِ خرید کو بہت متاثر کیا ہے اور ادھر بھی ہر طرف مہنگائی کا رونا مچا ہوا ہے۔
میں ادھر چار سال بعد آیا ہوں مگر اس دوران ہر چیز کی قیمت ڈبل بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ غربت کے اثرات اب باقاعدہ دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔ پہلے سڑک کنارے گٹار بجا کر سامنے پڑے ہوئے ہیٹ میں ”ڈونیشن‘‘ لینے والے فنکار‘ میوزک کے ساتھ گانا گانے والے گلوکار اور اسی قبیل کے لوگ بڑے مہذب انداز میں اپنے فن کے عوضانے کے طور پر آپ سے انعام ضرور طلب کرتے تھے لیکن باقاعدہ بھکاری اور گداگر نہ ہونے کے برابر تھے اور وہ بھی کسی کونے یا سڑکوں کے نیچے سے گزرنے والی سب ویز وغیرہ میں اپنے سامنے ہیٹ رکھ کر بیٹھ جاتے تھے لیکن اب صورتحال بالکل ہی بدل چکی ہے۔ جگہ جگہ ”ہوم لیس‘‘ یعنی فٹ پاتھیے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض نے اوورہیڈز کے نیچے باقاعدہ ڈیرے لگا رکھے ہیں۔ انڈرگراؤنڈ ریلوے سٹیشنز کے باہر‘ کسی دکان کے شیڈ کے نیچے رضائی لپیٹے ہوئے بے گھروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ درجنوں جگہ پر ”میں بہت بھوکا ہوں مجھے کھانے کیلئے پیسے دیں‘‘ جیسے گتے کے بورڈ اپنے سامنے رکھے بے گھر افراد گداگری میں مصروف ہیں۔
ہمارے جتنے دوست بھی ادھر ہیں سارے ملازمت پیشہ ہیں یا اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ادھر پاکستان سے پیسہ لوٹ کر آیا ہو اور ادھر ”مالِ مفت دل بے رحم‘‘ کی مانند اس لوٹ مار یا کرپشن سے کمائی گئی رقم کو لٹاتا پھر رہا ہو۔ سب محنت کرنے والے عام سے لوگ ہیں اور اس مہنگائی میں بھی عزت کی زندگی ضرور گزار رہے ہیں لیکن اس مہنگائی اور اس کے نتیجے میں اپنی قوتِ خرید میں کمی کا رونا ضرور روتے دیکھا ہے۔ اس مہنگائی کا سب سے بڑا اثر یہ پڑا ہے کہ ادھر سٹریٹ کرائم بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک دوست جس کا تعلق کراچی سے ہے کہنے لگا: کراچی کے حالات سے گھبرا کر ادھر آئے تھے اور اب یہ عالم ہے کہ لندن بھی کراچی بنتا جا رہا ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگا: کراچی کا پیر ادھر لندن میں بیٹھا ہے آخر اس کے اثراتِ بد کا بھی کوئی اثر ہونا ہی تھا۔
ایک دوست بتانے لگا کہ وہ ٹاور برج کے ساتھ نیچے ٹاور کاسل کے پاس کھڑا تھا کہ دو ادھیڑ عمر کے میاں بیوی نے اپنی اکٹھی فوٹو بنوانے کی غرض ساتھ سے گزرتے ہوئے نوجوان سے فوٹو کھینچنے کی درخواست کی جو اس نے نہایت خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے ان کا موبائل فون پکڑا تصویر کیلئے منظر کو پوری طرح کیمرہ بند کرنے کی غرض سے وہ کھسکتا ہوا تھوڑا پیچھے کی طرف ہٹا اور پھر اس نے موبائل سمیت دوڑ لگا دی۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ چند ہی لمحوں میں وہ نظر سے اوجھل ہو گیا۔ ایک اور دوست بتانے لگا کہ اس کے گھر کے باہر کھڑی اس کی گاڑی کو کمپیوٹر کے ذریعے کھول کر کوئی اس کا لیپ ٹاپ اڑا کر لے گیا اور اس کے ساتھ والے گھر سے گزشتہ ہفتے کوئی چور دو گاڑیاں چوری کر کے لے گیا ہے۔
میں نے اپنے اس دوست کو بتایا کہ لندن کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ میں یہ سب کچھ آج سے بائیس سال قبل بھی دیکھ چکا ہوں جب ہمارے دوست کی گاڑی کے نیچے اینٹیں رکھ کر کوئی اس کے چاروں ٹائر اتار کر لے گیا تھا۔ وہ دوست کہنے لگا کہ آپ کی بات درست ہے لیکن اب ان وارداتوں میں جتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ پہلے لوگ گاڑی کا شیشہ توڑ کر ٹیپ ریکارڈر وغیرہ نکالا کرتے تھے اب یہ عالم ہے کہ نئے نئے سائنسی طریقوں سے گاڑی اور گھروں کے تالے کھول کر آرام سے چوریاں کی جا رہی ہیں۔ ہاتھ سے فون یا پرس وغیرہ چھین کر لے جانے کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے اور اوپر سے زیادہ خرابی یہ ہوئی ہے کہ بعض علاقوں میں جہاں سیاہ فاموں کی تعداد زیادہ ہے پولیس ایسی وارداتوں کو اب سنجیدہ ہی نہیں لیتی اور کاغذی کارروائی سے آگے عملی طور پر کچھ نہیں کرتی۔
مانچسٹر کے آرن ڈیل سنٹرمیں چھتی ہوئی جگہ کے نیچے ایک ہوم لیس رضائی لپیٹے سو رہا تھا جبکہ اس کا کتا بھی اس کے ساتھ سو رہا تھا۔ ساتھ سے گزرنے والی ایک خاتون نے بیٹھ کر بڑے اطمینان سے کتے کی رضائی ٹھیک کی‘ اسے تھپتھپایا اور پھر دس پاؤنڈ کا نوٹ ہوم لیس کے تکیے کے نیچے گھسا دیا۔ میں کھڑا ہوا ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔ اٹھ کر وہ خاتون میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور کہنے لگی: اب اس نکمے اور ہڈ حرام کی خاطر اس بے زبان کو تو بھوکا نہیں مرنا چاہئے۔ میں نے یہ رقم اس کتے کی خوراک کیلئے اسے دی ہے۔ میں تین دن ادھر مارکیٹ سٹریٹ سے متصل ایک ہوٹل میں رہا اور دن میں بارہا پیدل چلنے کے لیے مختص سڑک پر آتا جاتا تھا جہاں ایک طرف جگہ جگہ فنکار گا بجا کر پیسے اکٹھے کر رہے تھے وہیں پیشہ ور گداگر بھی پوری سڑک پر جابجا دندنا رہے تھے۔
برسوں تک ایسا ہوتا رہا کہ برطانیہ میں جو چیز دو پاؤنڈ کی خریدی‘ اگلی بار بھلے پاؤنڈ کی قیمت میں اضافے کے باعث زیادہ رقم لگی مگر پاؤنڈز میں اس کی قیمت وہی پرانی تھی۔ ہماری کرنسی اگر دوسری بار آمد پر مزید بے وقعت ہو گئی تو یہ بات علیحدہ تھی لیکن اس بار تو ہر چیز ہی دسترس سے باہر جاتی دکھائی دی کہ پاؤنڈ کی قیمت بھی تقریباً دوگنا ہو چکی تھی اور ہر چیز کی قیمت پاؤنڈز میں بھی دوگنا سے زیادہ ہو چکی تھی یعنی چار گنا سے بھی زیادہ۔ لیکن آپ یقین کریں مجھے اس بار اصل پریشانی اور ملال اس بات کا ہوا کہ ٹرین میں کتاب پڑھنے والوں کی شرح بہت گر چکی تھی۔ کبھی ٹرین کے مسافروں کی غالب اکثریت دورانِ سفر کتاب پڑھتی ہوئی دکھائی دیتی تھی‘ اس بار اس شرح میں کم از کم بھی اسّی‘ پچاسی فیصد کمی ہو چکی تھی۔ تیسری دنیا سے جتنے حکمران اپنے ملکوں کی دولت لوٹ کر لندن لا رہے ہیں ممکن ہے ان کی معیشت دوبارہ پہلی والی حالت پر پہنچ جائے مگر کتاب بینی میں ہونے والی یہ کمی شاید دوبارہ پرانی حالت میں نہ آ سکے گی۔