پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
موسیقاروں اور فنکاروں کا شہر
ویانا دیکھنے کا اشتیاق پہلی بار شفیق الرحمان کا افسانہ ڈینیوب پڑھنے کے بعد ہوا۔ یہ دنیا کا واحد دریا ہے جو دس ممالک کے درمیان سے گزرتا ہے اور ویانا اس کے کنارے پر ہے۔ شفیق الرحمان کی کتاب ”دجلہ‘‘ میں ان کے چار طویل افسانے نیل‘ دھند‘ ڈینیوب اور دجلہ ہیں۔ پہلے پہل ان کا طویل افسانہ ”دجلہ‘‘ ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں شائع ہوا ‘ بعد ازاں ان کے چار طویل افسانوں کو اکٹھا کر کے ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا۔ ڈینیوب کا اس سے شاندار تعارف اور ویانا کی تب کی نقشہ کشی ایسی ہے کہ صرف شفیق الرحمان کا قلم ہی اسے تحریر کر سکتا ہے۔ مزاح کی چاشنی‘ تحریر کی روانی‘ تاریخ کی فسوں کاری اور کردار نگاری کا حسن ایسا ہے کہ بندہ لگ بھگ چالیس صفحات پر مشتمل اس افسانے کو ایک نشست میں ختم کر کے اٹھتا ہے تو اس ملال کے ساتھ کہ ابھی تو لطف آنا شروع ہوا تھا۔ بھلا ایسے افسانے کے بعد ویانا اور ڈینیوب پر مسافر کیا کیا لکھ سکتا ہے؟ بس خامہ فرسائی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
ویانا آسٹریا کا دارالحکومت ہے اور آج کے یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک ایسے عروج و زوال دیکھ چکا ہے کہ بندہ اس کی تاریخ پر نظر دوڑائے تو حیرانی ہوتی ہے۔ ہابسبرگ حکمرانوں کے دور میں‘ جو اس ملک پر 1278ء سے 1918ء تک حکمران رہے‘ اس دوران 1440ء سے 1765 ء تک آسٹریا مقدس رومن بادشاہت (Holy Roman Empire)کا پایۂ تخت رہا تا وقتیکہ ہابسبرگ خاندان کے بادشاہ فرانسس اول کی موت کے بعد تاج و تخت سنبھالنے کیلئے کسی مرد کی عدم موجودگی کے باعث اس کے مقدس رومن بادشاہت کے حامل رتبے کے بارے میں تنازع پیدا ہو گیا؛ تاہم 1765ء میں اس کی موت کے بعد اس کی بیوہ ملکہ میریا تھریسا نے جو بادشاہ چارلس ششم کی بیٹی اور اس کے وارث کے طور پر آرچ ڈچز آف آسٹریا‘ ملکۂ ہنگری اور کروشیا تھی ‘نے ہولی رومن ایمپریس کے طور پر 1780ء تک حکمرانی کی۔ مقدس رومن بادشاہت کے طور پر آسٹریا‘ ہنگری‘ بلجیم‘ کروشیا‘ چیک ریپبلک‘ جرمنی‘ لکسمبرگ‘ نیدر لینڈز‘ پولینڈ‘ سلواکیہ‘ سوئٹزر لینڈ‘ بلغاریہ‘ سربیا‘ سلوانیہ اور لیکٹنسٹائن (Liechtenstein) کے علاوہ فرانس اور اٹلی کا کچھ حصہ شامل تھا۔
میں لڑکپن میں سکے جمع کرتا تھا تو میرے پاس ایک چاندی کا خاصے بڑے سائز کا سکہ تھا۔ یہ مشہور اور مقبول سکہ تھا جو میریا تھریسا تھالر (ڈالر) کہلاتا ہے۔ یہ تقریباً دو تولہ وزن پر مشتمل خالص چاندی کا سکہ تھا۔ اس پر ایک خاصی صحت مند خاتون کی تصویر تھی جس کے چہرے کا رخ دائیں طرف تھا اور سامنے ایم تھریسا ڈی جی لکھا ہوا تھا۔ یہ آسٹریا‘ ہنگری‘ بوہمیا اور دیگر لاتعداد چھوٹے بڑے ممالک اور علاقوں کی ملکہ میریا تھریسا کا مشہور سکہ تھا۔ بعد میں یہ سکہ مجھ سے اسد نے لے لیا اور ابھی تک اسی کے پاس ہے۔ یہ میرا میریا تھریسا سے پہلا تعارف تھا۔ ویانا میں آ کر معلوم ہوا کہ اس شہر پر ایمپرس میریا تھریسا اور ملکہ الزبتھ عرف سیسی کا بہت زیادہ اثر ہے اور شہر بھر میں ہر دو خواتین کی بہت سی نشانیاں ہیں۔
میریا تھریسا بڑی دبنگ اور جرأت مند خاتون تھی جس کو اپنے شوہر کی وفات کے بعد سلطنت کے مختلف زیرنگیں ملکوں اور علاقوں کے مرد حکمرانوں کی جانب سے عورت کو روایتی طور پر کمزور اور کمتر سمجھتے ہوئے اس کی اطاعت سے انکار اور نتیجتاً بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ میریا تھریسا نے اس نازک موقع پر کمزوری دکھانے یا درگزر کرنے کے بجائے ”زنانہ وار‘‘ اس مردانہ بغاوت کا سامنا کیا اور بہت سے علاقوں میں اس بغاوت کو نہ صرف کچل دیا بلکہ اپنا اقتدار مستحکم کر لیا۔ اس نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد بڑی جانفشانی اور بہادری کے ساتھ مزید پندرہ سال حکمرانی کی۔
میریا تھریسا ویسے تو آسٹریا پر 1740ء سے 1780ء تک چالیس سال حکمران رہی مگر ایمانداری کی بات ہے مختلف ممالک اور علاقوں پر مشتمل مقدس رومن بادشاہت کی ترتیب سمجھنا اور سمجھانا از حد مشکل کام ہے مثلاً یہی کہ ملکہ میریا تھریسا کا خاوند ہابسبرگ نہ تھا بلکہ لورائن خاندان سے تھا اور میریا تھریسا سے شادی سے قبل اور بعد میں بھی ڈیوک آف لورانی اور بار تھا جبکہ میریا تھریسا اپنے باپ کی وفات کے بعد 1740ء میں آسٹریا‘ ہنگری اور کروشیا کی ملکہ بنی جبکہ وہ بوہمیا کی پہلی بار 1740ء سے 1741ء تک اور دوسری بار 1743ء سے 1780ء تک ملکہ رہی جبکہ وہ 1745ء سے 1765ء تک مقدس رومن ایمپرس اور گرینڈ ڈچز آف ٹسکنی رہی۔ قارئین! یہ سارا کیا معاملہ ہے؟ جس روز مجھے خود سمجھ آ گیا میں آپ کو بھی سمجھا دوں گا ابھی تو میں خود کنفیوز ہوں بھلا آپ کو کیا بتا سکتا ہوں۔
تاہم شہر میں ایک میریا تھریسا سکوائر ہے جس کی دو اطراف میں بڑی شاندار اور دبدبے والی ایک جیسی دو عمارتیں ہیں۔ درمیان میں پارک ہے اور اس کے وسط میں ایک بلند چبوترے کے اوپر تھریسا کا مجسمہ نصب ہے۔ آمنے سامنے ان ایک جیسی عمارتوں میں ایک نیچرل ہسٹری میوزیم اور دوسری آرٹ ہسٹری میوزیم کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ ان عمارتوں کے درمیان میں سے باہر سڑک پر آئیں تو آپ کے بائیں طرف تھوڑی دور پارلیمنٹ ہاؤس ہے‘ بائیں طرف عالمی شہرت کا حامل ویانا اوپرا ہاؤس ہے اور سامنے سفید پتھروں سے بنے ہوئے پانچ عدد محرابی دروازے ہیں جن کے اندر ہیلڈن پلاٹز ہے۔ یہ ہلالی شکل کی انتہائی خوبصورت عمارت ہے جو کبھی شاہی ہوفبرگ محل کا داخلی دروازہ تھا مگر ا ب ہوفبرگ محل جو کبھی ہابسبرگ حکمرانوں کا سرمائی محل ہوتا تھا‘ آسٹریا کے صدر کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ یہ مسافر اس کے دروازے کے عین سامنے جا کر تصویریں بناتا رہا۔ نہ کسی دربان نے منع کیا نہ کسی سکیورٹی والے نے ڈانٹ کر وہاں سے دور جانے کا کہا۔ نہ کوئی ہاہاکار تھی اور نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں۔ خوبصورتی اپنی جگہ لیکن صدر کی کوئی دہشت ہوتی ہے خواہ وہ ہمارے جیسے صدر کی طرح بالکل بے کار اور بے اختیار ہی کیوں نہ ہو اور ایوانِ صدر کی کوئی عزت و آبرو ہوتی ہے جو باہر کھڑے ہوئے پہریداروں اور محافظوں کے طفیل عام آدمی کو دکھائی دیتی ہے جبکہ ادھر ایسی کوئی بات نہ تھی۔میں ا دھر سے نکل کر ساتھ ایک پارک میں چلا گیا۔ پارک کے بائیں طرف موزارٹ کا مجسمہ لگا ہوا تھا۔ ویانا موسیقاروں اور فنکاروں کا شہر ہے اور موسیقاروں کا سرخیل موزارٹ ہے۔ موزارٹ گو کہ پیدا تو آسٹریا کے شہر سالسبرگ میں ہوا تھا مگر اس کو ویانا کی پہچان ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہر سووینیئر شاپ میں ڈیڑھ انچ سے لیکر تقریباً ایک فٹ کی اونچائی پر مشتمل وائلن پکڑے‘ سرخ کوٹ اور سفید چست پتلون پہنے ہوئے موزارٹ کے مجسمے اتنی تعداد میں فروخت ہو رہے تھے کہ حیرت ہوئی۔ موزارٹ صرف پینتیس سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ اس سے متاثر بیتھون نے بھی بحیثیتِ موسیقار بہت شہرت پائی اور ویانا میں ہی وفات پائی۔ بیتھوون سے اس کی سمفنیاں یاد آئیں۔
نیشنل آرٹ میوزیم اور بیلواڈئر پیلس میں لگی ہوئی گستاف کلمٹ کی تصویریں‘ جن میں سنہری رنگ غالب ہے‘ بہت شہرت رکھتی ہیں۔ پارک سے آگے گیا تو اوپرا ہاؤس کے باہر باوردی سیلز مین رات کو ہونے والے کسی کنسرٹ کی ٹکٹیں فروخت کر رہے تھے۔ ٹکٹ کی قیمت دیکھ کر مجھے دو گھنٹے قبل پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے والے ڈیڑھ سو سال پرانے کافی ہاؤسLandtmann میں ٹھنڈی کافی کے عوض ادا کیے جانے والے اپنے نو یورو یاد آ گئے۔ میں نے اسے پنجابی میں کہا کہ بھائی! ا پنی ٹکٹ اپنے کول رکھ۔ حیرانی کی بات ہے کہ اس نے میری بات سمجھ لی اور ہنس کر ٹکٹ واپس رکھ لی۔