معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
دلیل‘ تحمل اور برداشت سے عاری ہوتا معاشرہ
سیاسی مخالفت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب وہ مخاصمت کے کہیں اگلے درجے پرپہنچ کر ذاتی دشمنی میں بدل چکی ہے۔ اس ذاتی دشمنی نے سب سے پہلے سچائی کو قتل کیا ہے اور اب ہر فریق از خود حاجی ثنا اللہ ہے اور فریق مخالف راندہ ٔدرگاہ۔ مخالف کو مخاطب کرنے کیلئے نام بے معنی ہو چکے ہیں اور اپنے دیئے ہوئے ناموں کا چلن ہے۔ سلیکٹڈ‘ امپورٹڈ ‘ یوتھیا‘ پٹواری‘ فتنہ‘ چور‘ ڈاکواور اسی قبیل کے نام زبان زدِعام ہیں۔ تحمل‘ بردباری‘ اخلاقیات‘ برداشت اور مروت گویا بالکل ہی رخصت ہو گئی ہے۔
اللہ بخشے ابا جی کو‘ الیکشن کے موقع پر بارہا ایسا ہوا کہ میں اور وہ ایک ہی سواری پر چڑھ کر پولنگ سٹیشن جاتے اور علیحدہ علیحدہ امیدواروں کو ووٹ ڈالتے۔ پولنگ والے دن سے قبل گھر میں درجنوں بار سیاسی بحث ہوتی‘ سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کے بارے گفتگو ہوتی اور اختلاف رائے تو معمول کی بات تھی مگر مجال ہے کبھی آواز حدِ ادب سے اونچی گئی ہو اور کبھی کوئی سیاسی بحث بدمزگی پر ختم ہوئی ہو۔ دلیل‘ تحمل‘ ادب اور تمیز کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹا اور اس بحث سے ہر بار نہ سہی‘ مگر کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم باپ بیٹے نے اپنے سیاسی مؤقف سے رجوع کیا۔ دلیل‘ شواہد اور سچائی کو تسلیم کیا اور دوسرے کے مؤقف سے اتفاق کیا۔ اس صحت مند سیاسی رویے کا سارا کریڈٹ ابا جی مرحوم کو جاتا ہے کہ وہ اس نسل اور جنریشن سے تعلق رکھتے تھے جو بات کو دلیل سے زیادہ ڈانٹ کے ذریعے منوانے پر یقین رکھتی تھی اور بحث سے قائل کرنے کے بجائے اپنے پدرانہ اختیارات کو بروئے کار لاتی تھی۔ ابا جی مرحوم اسی جنریشن کے خالص نمائندے تھے جو بعض اوقات بلاوجہ ڈانٹ پھٹکار کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن سیاست ‘ مذہب اور تاریخ ایسے موضوعات تھے جن پر وہ بالکل ہی مختلف دکھائی دیتے تھے۔
ابا جی جب موڈ میں ہوتے اور انہیں صرف اندیشہ یا شائبہ بھی ہوتا کہ ان کی بات یا حکم سے اختلاف کا (سرتابی کا توخیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا) کوئی پہلو نکل آیا ہے تو وہ اپنا حکم نافذ کرنے سے پہلے اپنے مخصوص جملہ بولتے کہ ”کھوتے دا کیہہ کم اے کہ بیڑی نہ چڑھے‘‘ یعنی گدھے کی کیا مجال کہ وہ کشتی پر سوار ہونے سے انکار کرے۔ یہ آخری نوٹس ہوتا تھا اور اس جملے کو سنتے ہی ہم دونوں بھائیوں کی ساری دلیلیں‘ مؤقف کی مضبوطی اور حق گوئی کا جذبہ ہوا ہو جاتا اور ہم مکمل سرنڈر کرنے میں ہی عافیت سمجھتے۔
کالج اور یونیورسٹی وغیرہ میں ہم کرتے تووہی رہے جو دل کرتا تھا مگر گھر آ کر ہم ان کی ڈانٹ سنتے ہوئے ایسی فرمانبرداری اور تابعداری سے سر ہلاتے کہ انہیں ہماری بے گناہی اور معصومیت کا یقین بھلے نہ بھی آتا ہو مگر وہ ہمیں بخش دیتے۔ بڑے بھائی مرحوم طارق محمود خان کو اباجی نے آخری تھپڑ تب مارا جب ان کی بیٹی ان کی گود میں تھی اور وہ اباجی کے غصے سے فوری طور پر اس لیے بچ گئے کہ ان کی بیٹی نے اس افتاد پر گھبرا کر زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ مجھے بھی آخری بار انہوں نے دور سے جوتا تب مارا جب وہ میری بڑی بیٹی کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھا کر چوری کھلا رہے تھے۔ یہ سب باتیں بتانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ وہ کس طرح کے زور دار اباجی تھے لیکن علمی اور سیاسی گفتگو میں اپنا سارا جاہ و جلال ایک طرف رکھ دیتے تھے اور بارہا ایسا ہوتا کہ میں اپنی دلیل کے جواب میں ان کے جواب کو شافی نہ پاتا اور انہیں اپنے مؤقف کے حق میں کسی کتاب کا حوالہ دیتا تو وہ بحث موقوف کر دیتے اور کہتے کہ میں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد دوبارہ تم سے بات کروں گا۔ یہی حال ہمارا بھی تھا‘ علمی اور سیاسی بحث میں کبھی گرما گرمی نہ ہوئی اور بات دلیل‘ ثبوت‘ شواہد اور حوالوں سے ہوتی ہوئی کسی منطقی نتیجے پر پہنچتی۔
بے تکلفی یا مذاق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن دو تین واقعات ایسے ہوئے کہ انہوں نے اباجی اور میرے درمیان ایک خاص حد تک کھلا ڈلا پن پیدا کر دیا۔ مجھے یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت تھا جب میں پہلی بار دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتا ہوا جلوس میں پکڑا گیا۔ تھانہ صدر والوں نے تھوڑی خاطر مدارت حوالات میں بند کرنے سے پہلے کی اور پھر رات دس بجے حوالات سے نکال کر طبیعت کو کچھ مزید صاف کرنے کے بعد کہا کہ اب اپنے گھر چلے جائیں۔ حوالات میں بند کرنے سے قبل لی گئی تلاشی کے باوجود شلوار کی جیب میں دو روپے بچے رہ گئے۔ اب باہر نکل کر اس شش و پنج میں پڑ گئے کہ گھر کس طرح پہنچنا ہے دو روپے میں رکشہ نہیں مل سکتا تھا اور چوک کچہری سے اس وقت سواریوں والے تانگے کا وقت نہیں تھا۔ ان دو روپوں سے اپنا پسندیدہ ”ڈرائی فروٹ‘‘ ریوڑیاں لیں اور کھاتے ہوئے گھر کو پیدل چل پڑے۔رات گیارہ ‘ ساڑھے گیارہ بجے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ اندر سے بڑی بہن نے پوچھا کون ہے؟ میں نے اپنا بتایا تو دروازہ جھٹ کھل گیا۔ میں نہایت بے فکری سے ریوڑیاں چباتا ہوا اندر داخل ہوا تو گیلری میں دونوں بہنیں‘ ماں جی اور بھائی طارق امدادی پارٹی کی صورت کھڑے تھے کہ اگر جوتے وغیرہ پڑیں تو وہ مجھے ریسکیو کر سکیں۔ ابا جی اپنے کمرے سے باہر آئے اور کہنے لگے: تم اس خاندان کے پہلے شخص ہو جو تھانے سے ہو کر آ رہے ہو۔ اللہ جانے مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی‘ میں نے جیب سے ایک ریوڑی نکال کر منہ میں رکھی اور منمناتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں سیاسی شعور کا حامل کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ اباجی نے غصے میں کہا :تمہیں اپنی ڈھٹائی پر شرم آنی چاہیے‘ میں نے کہا: میں چرس رکھنے کے جرم میں نہیں پکڑا گیا‘ حکومت کے خلاف جلوس نکالتے ہوئے پکڑا گیا ہوں۔ حیران کن طور پر اباجی ایک دم نرم پڑ گئے اور کہنے لگے: پولیس نے مارا تو نہیں؟ یہ بات سنتے ہی کمر پر پڑنے والے بیدوں سے ٹیسیں اٹھنی شروع ہو گئیں۔ میری عمر ہی کتنی تھی‘ سولہ سال‘ اماں جی بالخصوص بہنوں اوربھائی کو دیکھ کر ساری بہادری اوراکڑ نکل گئی۔ ایک دم سے آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں نے کہا: جی! کافی مارا ہے۔ باقی تو کسی میں مجھ سے کھل کر ہمدردی کی ہمت نہ ہوئی تاہم ساتھ والے کمرے سے میری بیوہ پھوپھی جو ہمارے ساتھ رہتی تھیں‘ آ گئیں اور اباجی سے ڈانٹ کر کہنے لگیں: چل مجید! توں اندر جا‘ بچے دا تراہ نہ کڈ (چل مجید! اندر جا ایسے بچے کو خوفزدہ نہ کر) اباجی اندر چلے گئے ‘انہوں نے صبح میرا حال چال پوچھا جو بالکل خلافِ توقع اور حیران کن تھا۔
باقی دو واقعات پھر کبھی سہی لیکن اس ساری تفصیل اورتمہید کا مطلب یہ تھا کہ گھروں میں سیاسی اور نظریاتی اختلافات نئی بات نہیں لیکن ان دو چار سالوں میں سیاسی اختلافات نے ایک ہی گھر میں رہنے والوں کے درمیان باہمی احترام اور بڑے چھوٹے کی تخصیص کے بغیر جس طرح رشتوں میں دراڑیں ڈالی ہیں‘ ماں جائے جس طرح منقسم ہوئے ہیں اور باپ بیٹے‘ چچا بھتیجے‘ ماموں بھانجے اور اسی طرح کے دیگر قابلِ احترام رشتوں کے درمیان جس طرح حدِ ادب رخصت ہوئی ہے وہ بڑی ہوش ربا ہے ۔اس رویے نے رشتے ‘ دوستی‘ قرابت داری‘ تعلق اور باہمی محبت کو جس طرح برباد کیا ہے اس کا حل اگرہم نے ابھی نہیں نکالا تو گھر‘ خاندان اور معاشرے کے تاروپود بکھر کر رہ جائیں گے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ہم ان لوگوں سے لڑ رہے ہیں جو ہماری خوشی غمی کے شریک ہیں اور ہمارے جنازے کو کندھا دینے والے ہیں جبکہ جن کی خاطر ہم ایک دوسرے سے دست و گریبان وہ ہمیں سرے سے جانتے ہی نہیں۔