معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
قلعوں کا شوقین مسافر … (2)
یورپ بھر میں قلعے اس طرح بکھرے پڑے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔ ان قلعوں میں عموماً دو باتیں بہت مشترک ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قلعے بلند و بالا پتھر کی دیواروں پر مشتمل ہیں اور دوسری یہ کہ یہ قلعے عموماً کسی پہاڑی کی چوٹی پر یا کسی پتھر کی بڑی چٹان کے آخری سرے پر ہوتے ہیں۔ بعض قلعے تو ایسی دشوار گزار چڑھائی کے اختتام پر ہیں کہ بنانے والے پر حیرت بھی ہوتی ہے اور داد بھی دینے کو دل کرتا ہے۔ یقین کریں کہ ان قلعوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایسے قلعے صرف دیومالائی کہانیوں میں ہی ہوتے ہیں۔ کسی مصور کی بنائی ہوئی تصویر کی مانند کہ دیکھ کر یقین نہ آئے کہ یہ قلعے حقیقت میں بھی موجود ہیں۔ یہی حال برطانیہ کا ہے جہاں جگہ جگہ پر قلعے موجود ہیں؛ تاہم سکاٹ لینڈ میں تو خاص طور پر اتنے قلعے ہیں کہ ہر شہر کے اردگرد دو چار قلعے تو مل ہی جاتے ہیں۔ گلاسگو سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت کے اندر اندر تقریباً دس عدد قلعے موجود ہیں اور ان میں سب سے شاندار قلعہ سٹرلنگ کا قلعہ ہے۔گلاسگو سے بیس میل کے فاصلے پر سٹرلنگ قصبے کے آخری سرے پر پہاڑی کی چوٹی پر سکاٹ لینڈ کی جنگِ آزادی کے حوالے سے بہت ہی اہمیت کا حامل یہ قلعہ صرف ایک طرف سے قابلِ رسائی ہے اور اس کی تین اطراف اتنی زیادہ ڈھلوان دار ہیں کہ ادھر سے قلعے میں داخلے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہاڑی اپنے آخری سرے پر اس طرح سیدھی ہے کہ لگتا ہے کہ یہ پہاڑی نہیں بلکہ پتھر کی دیوار ہے جو بالکل سیدھی اوپر جا رہی ہے۔ ہزار سال سے زائد پرانا یہ قلعہ کئی بار فتح ہوا اور کئی بار برباد ہوا لیکن ہر بار پہلے سے زیادہ مضبوط اور شاندار طرز پر تعمیر ہوا۔ تاریخی طور پر اس قلعے کا پہلا حوالہ 1110ء میں ملتا ہے جب اس چٹان کے اوپر الیگزینڈر اوّل نے چیپل تعمیر کروایا؛ تاہم سکاٹ لینڈ کو شمال کی جانب سے ناروے اور جنوب کی جانب سے انگلینڈ کے محلوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر الیگزینڈر سوم نے 1280ء میں اس قلعے کی فصیل بنوائی اور اس میں بہت سی عمارتیں تعمیر کیں۔
اس قلعے کی تسخیر اور اس پر قبضے اور اسے چھڑوانے کی تاریخ بڑی عجیب ہے۔ 1110ء میں تعمیر ہونے والا یہ قلعہ پہلی بار اپنی تعمیر کے 186 سال بعد فتح ہوا۔ اسے انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے فتح کیا؛ تاہم صرف ایک سال بعد 1297ء میں ہونے والے سڑلنگ برج کے معرکے میں فتح حاصل کرنے کے بعد رابرٹ دی بروس نے قلعے کو دوبارہ آزاد کروا لیا۔ اگلے ہی سال انگلینڈ کی فوج نے معرکہ فال کرک میں سکاٹ لینڈ کی فوج کو شکست دینے کے بعد قلعے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ صرف ایک سال بعد 1299ء میں سکاٹ لینڈ والوں نے یہ قلعہ دوبارہ فتح کر لیا مگر پانچ سال بعد ایڈورڈ اوّل نے اس پر تیسری بار قبضہ کر لیا جو دس سال تک قائم رہا۔ 1314ء میں Bannockburn کی جنگ میں فقیدالمثال کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس قلعے پر ایک بار پھر قبضہ کر لیا۔ 1336ء میں انگریزوں نے اس قلعے پر چوتھی بار قبضہ کر لیا؛ تاہم یہ قلعہ اس کے بعد بالآخر 1342ء میں سکاٹ لینڈ والوں کے مکمل قبضے میں آ گیا۔ اس قلعے کی تاریخ اتنی دلچسپ ہے کہ اس پر ایک پوری کتاب بھی لکھی جائے تو کم ہے لیکن سکاٹ لینڈ والوں کی مسلسل جدوجہد ایک ایسی انسپیریشن تخلیق دیتی ہے کہ جہدِ مسلسل کا مکمل مفہوم سمجھ میں آ جاتا ہے۔ محاصروں اور حملوں میں بار بار کی ناکامی کے باوجود اسی جذبے سے دوبارہ سہ بارہ حملوں اور محاصروں کے اپنے تسلسل کے بارے میں خود رابرٹ دی بروس نے Try, Try and Try again کا مشہور جملہ بولا جو بعدازاں ایک محاورے کی شکل اختیار کر گیا۔
2015ء میں مَیں انور مسعود صاحب کے ہمراہ اس قلعے کو دیکھنے کے لیے گیا لیکن بدقسمتی سے اس روز اس کے سارے ٹکٹ فروخت ہو چکے تھے اور ہم اس قلعے کے دروازے کو دیکھ کر پلٹ آئے۔ اس بار گلاسگو گیا تو پختہ ارادہ تھا کہ اس قلعے کو ہرحال میں دیکھنا ہے۔ گلاسگو میں عموماً میرا قیام ہمدم دیرینہ اور ملتان سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد اشرف کے ہاں ہی ہوتا ہے۔ اس بار اسد اور چھوٹی بیٹی بھی ہمراہ تھی۔ اشرف گلاسگو اور سٹرلنگ کے درمیان میں واقع کمبرنالڈ نامی شہر میں رہتا ہے۔ صبح سویرے ہم لوگ سڑلنگ کی طرف روانہ ہو گئے اور آدھے گھنٹے کے بعد ہم سٹرلنگ کے قلعے کے دروازے کے باہر رابرٹ دی بروس کے مجسمے کے پاس کھڑے تھے۔ سامنے دریائے فورتھ بہہ رہا تھا جس کے پل پر 1297ء میں ولیم ویلس نے معرکہ سٹرلنگ برج میں فتح حاصل کی تھی۔
قلعوں کو سنبھالنا اور انہیں سیاحوں کے لیے دلچسپی کا مقام بنانا یورپ پر ختم ہے؛ تاہم سٹرلنگ کا قلعہ واقعتاً ایسا ہے کہ اسے دیکھنا معنی رکھتا ہے۔ وہی پرانے پتھروں سے بنا ہوا فرش اور وہی قدیم توپیں‘ ایک کمرے میں گزشتہ ہزار سال کے دوران قلعے کے حکمران بادشاہوں کے لکڑی کی گول پلیٹ کو کھود کر بنائے گئے چہرے اور پرانے ہتھیار۔ غرض ہر چیز نہایت نفاست سے سنبھال کر رکھی گئی ہے اور ایک خاص حسنِ ترتیب سے ان کو سجایا ہے۔ آدھا دن اس قلعے میں ایسا گزرا کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا اور دن ڈھلنے کے قریب آ گیا۔ میں اشرف کے ہمراہ قلعے سے نکل رہا تھا کہ ڈاکٹر راشد مسعود کا فون آ گیا۔ پوچھنے لگا کہ آپ کہاں ہیں؟ اسے بتایا کہ ہم سٹرلنگ کے قلعے سے نکل رہے ہیں۔ کہنے لگا کہ آپ میرا سٹرلنگ میں انتظار کریں‘ میں آ رہا ہوں۔ آتے ہی پوچھنے لگا کہ کیا آپ نے ولیم ویلس والے مشہور ‘معرکہ سٹرلنگ برج‘ والا پل دیکھا ہے۔ پھر جواب سنے بغیر کہنے لگے: میرے پیچھے آئیں‘ ہم وہیں چلتے ہیں۔ پانچ منٹ بعد ہم دریائے فورتھ کے کنارے اس پل کے پاس تھے۔ 1297ء میں ہونے والے معرکے کے وقت یہ تنگ سا پل لکڑی کا تھا؛ تاہم اب یہ پل پتھر کا ہے لیکن اس پل کی یاد میں اس کی چوڑائی اب بھی اتنی ہی رکھی گئی ہے جتنی کہ اصل پل کی تھی۔
2018ء میں اپنے ملتان کے دوست حاجی فضل کے بیٹے گلاب خان کے ساتھ برمنگھم سے تھوڑے فاصلے پر واروک کاسل گیا تو حیران رہ گیا کہ کس طرح اپنے تاریخی ورثے کو سنبھالا گیا ہے اور اسے کس خوبصورتی سے کمرشل ازم میں ڈھال کر سیاحوں کو بیچا جا رہا ہے۔ ادھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ روہتاس کے قلعے کے اندر سینکڑوں گھر تعمیر ہو چکے ہیں۔ لوگوں نے قلعے کے پتھر اور اینٹیں اپنے گھروں کی تعمیر میں استعمال کر لی ہیں۔ صرف ایک سہیل گیٹ ہے جو آج بھی اپنی آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے۔ عشروں پہلے جب میں وہاں گیا تو تب لنگرخانی گیٹ بھی بری بھلی حالت میں موجود تھا۔ تیس سے پچاس فٹ تک بلند دیوار ایسی موٹی کہ اوپر سے نسبتاً تنگ ہو جانے کے باوجود اتنی چوڑی کہ اس کے اوپر برجیوں کے ساتھ والے راستے پر گھوڑا چل سکے۔ ساٹھ سے زائد حفاظتی برجیاں اور بارہ اندرونی دروازے۔ کئی دروازے دہری تعمیر والے کہ ایک دروازہ ٹوٹ جائے تو آگے دوسرا حفاظتی دروازہ آن موجود ہو۔ شاہ چاند ولی دروازہ‘ قابلی دروازہ‘ شیشی دروازہ‘ طلاقی دروازہ‘ کشمیری دروازہ‘ گٹالی دروازہ‘ پپلی دروازہ‘ خواص خانی دروازہ اور لنگرخانی دروازہ۔ تباہ شدہ حویلی مان سنگھ‘ رانی محل اور تین باولیاں۔ تقریباً ایک سو پچھتر ایکڑ پر مشتمل یہ ناقابلِ تسخیر قلعہ برصغیر پاک و ہند کے چند وسیع ترین قلعوں میں سے ایک تھا لیکن عدم توجہی اور لاپروائی کے طفیل آہستہ آہستہ کھنڈر میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ (جاری)