معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
قلعوں کا شوقین مسافر … (3)
وقت گزرنے کا تو پتا ہی نہیں چلتا۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ میں اپنی بیٹی اور گلاب خان کے ساتھ پانچ سال پہلے وارک (Warwick) کاسل دیکھ رہا تھا اور آج پانچ سال بعد پھر گلاب خان کے پاس ہوں۔ گلاب خان ہمارے دیرینہ دوست اور ملتان کے ہر دلعزیز حاجی فضل خان چانڈیہ کا بیٹا ہے۔ وہ اس مسافر کا دوست بھی ہے اور بھتیجا بھی۔ لگ بھگ ایک ہزار سال پرانا یہ قلعہ اپنی عمر میں طرح طرح کے مالک دیکھ چکا ہے اور اس عرصے کے دوران جہاں وہ بادشاہ کی جانب سے تین خاندانوں کو عطا کیا گیا اور ان کی رہائش گاہ بھی رہا‘ اب تک کل چھتیس مختلف مالکان کے ہاتھوں میں جا چکا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ ان میں سے اکثریت نے اس قلعے کی مرمت‘ دیکھ بھال‘ تزئینِ نو اور مختلف تاریخی اشیا کا ایسا شاندار مجموعہ یہاں اکٹھا کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
2005ء میں قلعے کے مالک ایک گروپ نے یہاں دنیا کی سب سے بڑی چالو حالت میں موجود منجنیق لا کر کھڑی کر دی۔ مرکزی ہال میں پرانا اسلحہ‘ زرہ بکتر‘ مجسمے اور بے شمار چیزیں۔ گیارہویں صدی میں ولیم فاتح کا لکڑی سے بنا ہوا قلعہ آج پتھر سے بنے ہوئے ایک شاندار اور مضبوط قلعے کی شکل میں موجود ہے۔ اپنے ہاں دو چار سو سال پرانی عمارت بھی اس طرح سلامت نہیں ملتی جس طرح یورپ میں ہزار بارہ سو سال پرانی عمارات مل جاتی ہیں۔ چار پانچ سو سال کی قدامت کو وہاں شاید قدامت کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے۔ سکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی میں موجود براؤٹی (Broughty) کاسل دریائے ٹے (Tay) کے کنارے پر ہے۔ اس قلعے کی فصیل‘ چند عمارتیں اور ایک بلند و بالا برج شاندار حالت میں ہے۔ اس برج کی درمیانی دو تین منزلوں کو اب عجائب گھر میں بدل دیا گیا ہے۔ سات سو سال پرانے قلعے کا یہ برج خاصا بلند ہے اور اس پر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے طبیعت خاصی صاف ہوئی مگر اوپر چڑھ کر دریا اور اس کے پار شہر کا نظارہ کیا تو ساری تھکاوٹ دور ہو گئی۔ ایک برج کی درمیانی دو تین منزلوں میں چھوٹے سے عجائب گھر کا اہتمام کرنے کے لیے کسی لمبے چوڑے کھڑاک کی ضرورت نہیں‘ بس تھوڑی سی حسِ جمالیات اور عجائب گھر بنانے کے فن سے آگاہی ضروری ہے جو ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ہم اہلِ ملتان ایک عرصے سے ملتان میں عجائب گھر کی خوشخبری سن رہے ہیں مگر عملی طور پر اس معاملے میں کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔ اس سلسلے میں ملتان کے قدیمی گھنٹہ گھر کو‘ جو پہلے میونسپل کارپوریشن کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتا تھا‘ خالی کروایا گیا۔ یہ ایک سو اڑتیس سالہ قدیم عمارت ہے جو ایک عمارت اور کلاک ٹاور پر مشتمل ہے۔ 1884ء میں بننے والی اس عمارت کے ہال کو انڈیا کے وائسرائے کے نام پر ”رین ہال‘‘ کا نام دیا گیا اور گھڑیال لگانے کے لیے بنائے گئے بلند و بالا ٹاور کو سابق وائسرائے کے نام پر ”نارتھ بروک ٹاور‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس عمارت کی دو بار تزئین و مرمت بھی کی گئی مگر بعد ازاں اس عمارت کو عجائب گھر کے لیے ناموزوں قرار دے دیا گیا۔ اس عمارت کے اردگرد تمام عمارتیں غیر قانونی تعمیر کا شاہکار ہیں۔ ان تجاوزات کو گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے ختم کروانے کی کوششیں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکیں۔ برسوں سے خالی عمارت کھڑے کھڑے پھر خستگی اور بربادی کی طرف گامزن ہے۔
کئی بار میں سوچتا ہوں کہ اگر ملتان میں واقعی کبھی کوئی عجائب گھر بن گیا تو ہم اس میں آخر کیا رکھیں گے؟ اونٹ کی کھال کے چند ٹیبل لیمپ‘ بلیوپاٹری کی درجن بھر چیزیں اور اونٹ کی ہڈی سے بنے ہوئے آزار بند کے علاوہ بھلا ہمارے پاس بچا ہی کیا ہے جسے اس عجائب گھر میں رکھیں گے؟ ہمارا سارا تاریخی ورثہ اور قدیمی نوادرات آہستہ آہستہ اُڑن چھو ہو کر برطانوی عجائب گھروں اور ہمارے حکمرانوں کے اندرون و بیرونِ ملک محلوں کی زینت بن گئے۔ ادھر برطانیہ کے جس قلعے یا عجائب گھر میں چلے جائیں‘ ہزاروں سال پرانے ان کے اپنے نوادرات اور نشانیوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے لوٹ کر لائے جانے والے عجائبات اور نوادرات بھرے پڑے ہیں۔
ایڈنبرا کا قلعہ میں نے قریب دو عشرے قبل بھی دیکھا تھا۔ تب اس میں ٹیپو سلطان کی پانچ تلواریں موجود تھیں پھر معلوم ہوا کہ یہ تلواریں کسی نے نیلامی میں خرید لی ہیں یا پھر یہ کسی اور قلعے میں چلی گئی ہیں؛ تاہم وہ ایڈنبرا میں نہیں تھیں۔ اس دوران چار پانچ بار ایڈنبرا جانا ہوا مگر قلعے میں جانے کو دل ہی نہ کیا۔ اس بار ایڈنبرا گیا تو برادرم طاہر بشیر نے بتایا کہ خدا جانے یہ پہلے والی تلواروں میں سے ہیں یا یہ کوئی اور والی ہیں لیکن اب قلعے میں ٹیپو سلطان کی دو عدد تلواریں دوبارہ سجا دی گئی ہیں۔ میں دونوں بچوں کے ہمراہ دوبارہ قلعہ دیکھنے چل پڑا۔ ہزار سالہ قدیم قلعہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود تھا۔ اسے اندر سے خراب یا تبدیل کیے بغیر ایسے اعلیٰ طریقے سے سجاوٹی کمروں اور گیلریوں میں تبدیل کیا گیا ہے کہ ڈیزائن کرنے والے پر حیرت ہوتی ہے۔ عام طور پر تعمیر کردہ سکاٹش قلعوں کی مانند یہ قلعہ بھی ایک بلند چٹان کے اوپر بنا ہوا ہے اور میلوں دور سے دکھائی دیتا ہے۔ اس میں ہزار سال پرانی ساری تاریخی اشیا اور دیگر چیزیں بشمول تصاویر‘ مجسمے‘ ہتھیار‘ شکاٹش بینڈ‘ فوجی سازو سامان‘ رائل سکاٹ یونٹ کے بہادروں کے تمغے جس میں وکٹوریہ کراس لینے والوں کے نام‘ تعارف اور ان کے اصل میڈل‘ غرض وہ سب کچھ ہے جو پوری سکاٹش تاریخ اور تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ صدیوں سے اس قلعے سے دوپہر ایک بجے توپ چلائی جاتی ہے۔ کسی زمانے میں توپ کا داغا جانے والا یہ گولہ بندرگاہ پر موجود جہازیوں کے لیے وقت کا اعلان ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ توپیں بدلتی گئیں۔ اب یہاں جدید توپ اس کام کو سرانجام دے رہی ہے جو اب بھی ”ون او کلاک گن‘‘ کہلاتی ہے۔ ایک چاق و چوبند باوردی سپاہی مارچ کرتا ہوا آیا۔ پھر اس نے توپ میں گولہ لوڈ کیا اور واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد وہ دوبارہ توپ کے پاس آیا اور قلعے کی نکر میں لگی ہوئی گھڑی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ کبھی اس توپ کو توپچی چلاتے ہوں گے لیکن اب یہ ایک بجے خود کار نظام کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ ایک بجے سے کافی پہلے لوگ اس توپ کے پاس اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ جن کو وہاں مناسب جگہ نہ ملی وہ سامنے والی طرف قلعے کی دوسری منزل پر چڑھ گئے۔ قلعے کا ٹکٹ پاکستانی کرنسی میں چار ہزار روپے سے زیادہ کا تھا مگر کاروباری ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ گوروں نے اس توپ کو چلانے اور جاری رکھنے کے لیے قلعے میں ایک جگہ ایک ”ڈونیشن باکس‘‘ رکھا ہوا ہے۔
برسوں پہلے میں کارڈف گیا تو اس کے قلعے میں پہنچ گیا۔ یہ قلعہ بھی پرائیویٹ ملکیت ہے اور اس کی ٹکٹ بھی خاصی مہنگی ہے۔ قلعے سے باہر نکل کر ایسے ہی عادتاً بے سمت آوارہ گردی میں مصروف تھا کہ ایک قدیم قبرستان پر نظر پڑی۔ پرانا قبرستان دیکھ کر مسافر اندر چلا گیا۔ پرانی پتھروں کی قبریں‘ ان پر لگے ہوئے سنگِ لوحِ مزار اور کتبے ماہ و سال کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ ایک قبر پر لگے پتھر پر نظر پڑی‘ یہ ساڑھے پانچ سو سال پرانی قبر تھی۔ کوئی قبر بھی دو سو سال سے کم پرانی نہیں تھی یعنی یہاں آخری مردہ دو صدیاں قبل دفن ہوا تھا مگر دو سو سال سے عملی طور پر غیر استعمال شدہ قبرستان میں نہ تجاوزات تھیں اور نہ تعمیرات۔ نہ کوئی چرسی سگریٹ میں چرس بھر رہا تھا اور نہ کسی ملنگ نے ڈیرہ لگایا ہوا تھا۔ ادھر ملتان کے قدیمی پاک مائی قبرستان میں میری آنکھوں کے سامنے لوگوں نے قبرستان کے سڑک والے حصے پر دکانیں بنا لیں اور گھر تعمیر کر لیے۔ یہی حال جلال باقری اور ملتان کے دیگر قبرستانوں کا ہے۔ بندہ کس کس بات کا رونا روئے؟ (ختم)