پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
ویانا میں آئینی تاریخ کی بے وقت اور نامعقول یاد
ویانا کی دوچیزوں نے اس مسافر کو بہت متاثر کیا۔ ایک اس کے ماس ٹرانسپورٹ سسٹم نے اور دوسری سرکاری سطح پر گرم پانی کی فراہمی نے۔ شہر میں ایک اونچے ٹاور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خواجہ نے مجھ سے کہا کہ کیا آپ اس ٹاور کو دیکھ رہے ہیں؟ میں نے اس ٹاور کو غور سے دیکھا‘ اس نیلے رنگ کے بلند ٹاور کے آخری سرے سے تھوڑا پہلے اس پتلے سے ٹاور کے بیچ میں غبارہ نما سنہری ٹینکی سی تھی۔ خواجہ کہنے لگا سمجھیں یہ ویانا شہر کا گیزر ہے جو پورے شہر کو گرم پانی مہیا کرتا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ پورے شہر کو؟ وہ کہنے لگا: جی ہاں! پورے شہر کو۔ میں نے کہا: لیکن جس اپارٹمنٹ میں ٹھہرا ہوا ہوں اس میں تو گرم پانی کی فراہمی کا اپنا نظام ہے۔ خواجہ ہنس کر کہنے لگا: جی نہیں! آپ کے اپارٹمنٹ میں بھی اسی ٹاور سے گرم پانی آ رہا ہے۔ میں نے کہا: اتنی جلدی تو میرے گھر کے باتھ روم میں پیچھے راہداری میں لگے ہوئے گیزر سے گرم پانی نہیں آتا جتنا اس اپارٹمنٹ کے باتھ روم یا کچن میں آ جاتا ہے۔ وہ کہنے لگا: یہی اس نظام کی خوبی ہے۔ جگہ جگہ Circulator pump لگے ہوئے ہیں جو اس گرم پانی کو مسلسل حرکت میں رکھتے ہیں اور جونہی آپ ٹونٹی کھولتے ہیں گرم پانی فوراً آ جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سارا نظام شہر کے کوڑا کرکٹ کو جلا کر حاصل ہونے والی بجلی سے چلایا جاتا ہے۔ یعنی شہر بھر کا کوڑا جلا کر اس کی ڈسپوزل کا مسئلہ بھی حل کر دیا اور پانی بھی گرم کر لیا۔
ایک روز ایسے ہی بیٹھے بیٹھے حساب کیا تو حیرانی ہوئی کہ اس مسافر نے دنیا کے تیس سے زائد ملکوں کو دیکھ رکھا ہے۔ اس دوران جہاں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ میسر تھی وہاں اس سے استفادہ کیا۔ ویانا دیکھنے سے قبل خیال تھا کہ لندن ٹرانسپورٹ سسٹم شاید سب سے بہتر ہے لیکن ویانا دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس شہر کا ٹرانسپورٹ سسٹم لندن سے کہیں بہتر ہے۔ سارا شہر غالباً تیئس ڈسٹرکٹس میں تقسیم ہے اور اس ٹرانسپورٹ سسٹم کے ذریعے سارا شہر اور اس کی ہر جگہ آپ کی دسترس میں ہے۔ زیر زمین ریل یعنی انڈر گراؤنڈ سسٹم کے علاوہ زمیں کے اوپر ٹرام اور بسیں ہر جگہ ملتی ہیں۔ ایک ہی ٹکٹ لیں اور سارے نظام کو استعمال کریں۔ اس مسافر نے آٹھ یورو کا ”ڈے ٹکٹ‘‘ لیا جو چوبیس گھنٹوں کیلئے ہر قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے قابلِ استعمال تھا۔ اس ٹکٹ کے طفیل جہاں دل کیا اُتر گیا اور جہاں دل کیا ٹرام سے بس پر چڑھ گیا اور بس سے انڈر گراؤنڈ کی طرف رُخ کر لیا۔ راستے میں کوئی چیز نظر کو بھائی تو اگلے سٹاپ پر اتر گیا‘ اسے دیکھا اور پھر دوبارہ بس پکڑ لی۔
میری رہائش ڈسٹرکٹ ٹو میں تھی۔ ڈسٹرکٹ ون سارا ڈاؤن ٹاؤن ہے اور سارے کا سارا دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘ ڈسٹرکٹ ون اور ٹو کے درمیان ڈینیوب کینال ہے۔ یہ ایک زمانے میں دریائے ڈینیوب کی ہی قدرتی شاخ تھی لیکن اہلِ ویانا نے سوڈیڑھ سو سال پہلے اسے پختہ کرکے اور اس کے آغاز میں گیٹ لگا کر اس کے بہاؤکو اور دریا میں آنے والے سیلاب کو کنٹرول کر لیا ہے۔ یہ بڑی سی نہر‘ جس میں بڑے بڑے بجرے بھی چلتے ہیں اور فیری سسٹم بھی رواں ہے‘ دریائے ڈینیوب سے نکلتی ہے اور شہر کے درمیان میں گزرتے ہوئے سترہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد دوبارہ دریائے ڈینیوب میں مدغم ہو جاتی ہے۔
میری رہائش ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل اپارٹمنٹ میں تھی جس کے اندر سے ایک سیڑھی اوپر جاتی تھی۔ اوپر ایک پڑچھتی ٹائپ جگہ تھی جہاں پلنگ تھا۔ یعنی سونے کا اہتمام اس پڑچھتی پر تھا جبکہ کچن اور باتھ روم نیچے تھا۔ ڈسٹرکٹ ون میرے اپارٹمنٹ سے محض دو سو میٹر دور تھا مگر اس نہر کی وجہ سے دوسری طرف ڈسٹرکٹ ون میں جانے کیلئے پُل پار کر کے تقریباً دو کلو میٹر کا فاصلہ بنتا تھا۔ انڈر گراؤنڈ سٹیشن جو اس نہر کے کنارے پر تھا اپارٹمنٹ سے صرف سوگز کی دوری پر تھا۔ جب ٹرین لینے کیلئے لفٹ پر بیٹھ کر نیچے پلیٹ فارم پر جانے لگا تو لفٹ بلا مبالغہ چھ سات منزلیں نیچے چلی گئی۔ لفٹ سے نکلا تو سامنے دو مختلف لائنوں کے سائن لگے ہوئے تھے۔ ایک سائن دوسرے پلیٹ فارم کا بتا رہا تھا۔ ادھر گیا تو آگے ایک خاصا لمبا سرنگ نما راستہ تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ یقینا نہر کے نیچے سے گزرتا ہو گا‘ اور میرا اندازہ درست نکلا۔ دوسری طرف پہنچ کر لفٹ سے اوپر گیا تو یہ اس انڈر گراؤنڈ سٹیشن کا دوسرا حصہ تھا جو نہر کے پار ڈسٹرکٹ ون میں تھا۔ میرے تو مزے ہو گئے۔ اگلے تین روزاسی راستے کو استعمال کرکے خاصا لمبا چکر بچاتا رہا۔
سٹیشن سے باہر نکلا تو سامنے سارا ڈاؤن ٹاؤن اپنی بانہیں کھولے مسافر کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ بوڈا پسٹ سے ویانا پہنچ کر رات شہر کے مرکزی حصے کا ایک پیدل چکر لگایا تھا مگر یہ بات طے ہے کہ پرانے شہروں کو رات اور دن میں دیکھنے کا مزا جدا جدا ہے۔ یہ فرق صرف دیکھ کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لفظوں میں اس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ رات پیلی روشنیوں میں شہر کے وسطی چوک میں موجود سینٹ سٹیفنز کیتھڈرل کا بلند مینار اور رنگین ڈھلوان دار چھت کا منظر نامہ کچھ اور تھا اور جب دن کی روشنی میں دیکھا تو سارا منظر رات کی نسبت بالکل ہی مختلف لگ رہا تھا۔ رات مینار اپنی بلندی کی چھب دکھا رہا تھا تو دن میں اس کی موزائک نما رنگین چھت اپنے جلوے بکھیر رہی تھی۔ افسوس تو اس بات کا تھا کہ جگہ تنگ تھی اور کیتھڈرل کا مینار اور چھت اتنے اونچے تھے کہ اتنی سی جگہ میں ان کو کیمرے کی آنکھ سے مقید کرنا نہ صرف مشکل تھا بلکہ جو فوٹو آ رہی تھی وہ اس خوبصورتی اور Grandeur کا عشرِ عشیر بھی نہیں دکھا پا رہی تھی جو مری آنکھ محسوس کر رہی تھی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنکھ کی صورت میں جو کیمرہ عطا کر رکھا ہے اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی کیمرہ نہیں کر سکتا۔ میں نے بے شمار جگہوں پر اچھے سے اچھے کیمرے کو اس ساری خوبصورتی کو من و عن اپنے اندر سمیٹنے اور پھر دکھانے کے سلسلے میں مکمل لاچار پایا جسے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور دل و دماغ میں اس کا نقش اتارا۔
ایک تو ان جرمن ناموں کا مسئلہ یہ ہے کہ بندہ انہیں اپنے والی انگریزی کے حروفِ تہجی والی صوتی آواز میں ادا کرے تو ادھر کوئی سمجھتا نہیں اور ان کو جرمن تلفظ میں ادا کرنا اس مسافرکے بس سے باہر تھا اس لیے معاملہ بس بین بین ہی چلتا رہا۔ وہاں لکھا ہوا تھا Votivkirche اور اس کا انگریزوں نے آسان ترجمہ Votive چرچ کر رکھا تھا۔ سفید دو میناروں والا یہ چرچ ویانا یونیورسٹی کے پہلو میں ایک سر سبز لان کے اختتام پر سر اٹھائے کھڑا تھا۔ ویانا یونیورسٹی کا بورڈ دیکھا تو اس کے اندر چلا گیا۔ ایسی خاموشی اور سکون کہ لگتا تھا ادھر بھی شاید گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔ دبے پاؤں چلتے ہوئے چند طالب علم‘ اس قدیم چار منزلہ عمارت کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے ایسا لطف آیا کہ دل کیا ادھر داخلہ لے لوں۔ پھر سامنے دروازے میں لگے شیشے میں اپنا عکس دیکھا تو اپنے خیال اور خواہش پر ہنسی آئی۔
گرمیوں کی چھتوں سے یاد آیا کہ ہم بھی کیا شاندار قسم کے لکیر کے فقیر ہیں کہ یکم جون کو تمام تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیاں کر دی ہیں جبکہ اس روز تک کہیں گرمی کا نام و نشان نہیں تھا۔ الیکشن کی تاریخ آئین میں طے ہے لیکن ہمیں اس آئین میں دی گئی تاریخ کی رَتی برابر فکر نہیں‘ تاہم گرمی پڑے بغیر گرمیوں کی چھٹیاں کرنے کی کہیں زیادہ جلدی پڑی ہوئی ہے۔ اُدھر حکمرانوں کو آئینی تاریخوں سے کہیں زیادہ غیرآئینی تاریخوں کی پابندی کی پڑی ہوئی ہے اِدھر مسافر کو ویانا میں آئینی تاریخ کی بے وقت اور نامعقول یاد آرہی ہے۔