بہاولپور یونیورسٹی ڈرگ سیکس اسکینڈل، تحقیقات پر سوالات اٹھ گئے

جنوبی پنجاب میں ہلچل مچا دینے والے بہاولپور یونیورسٹی کے مبینہ منشیات اور سیکس اسکینڈل کی وجہ سے تقریباً 27؍ ہزار طالبات کے والدین اس مخمصے سے دوچار ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو دوبارہ یونیورسٹی بھیجیں یا نہیں۔

دی نیوز کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کے غیر پیشہ ورانہ انداز سے اس کیس کو ہینڈل کرنے، میڈیا کی جانب سے پھیلائی جانے والی سنسنی، نجی سیاسی مفادات اور کچھ فیکلٹی ممبران کی جانب سے طلباء کے استحصال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس اسکینڈل کے حوالے سے ابتدائی طور پر جو باتیں سامنے آئی ہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔

پس منظر کی بریفنگ، ضلعی انتظامیہ، پولیس اور یونیورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ کے اہلکاروں کے انٹرویوز اور سرکاری دستاویزات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹی کے اہلکاروں سے لڑکیوں کی ساڑھے پانچ ہزار برہنہ ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہونے کے دعووں کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔

اس اسکینڈل کی جڑیں دو سال پرانی ہیں جب ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں سیاست دانوں، پولیس حکام، منشیات فروشوں اور جنسی کارکنوں کے وسیع نیٹ ورک پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

جون 2021 میں انٹیلی جنس بیورو (IB) کی اس خفیہ رپورٹ کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خبردار کیا گیا تھا۔ تاہم مقامی پولیس نے انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ کو نظر انداز کر دیا تھا۔

دو زیر حراست افراد کی متعدد خواتین کے ساتھ ہونے والی واٹس ایپ گفتگو کے اسکرین شاٹس پولیس کی خصوصی رپورٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم پولیس ایف آئی آر اور عدالت میں جمع کرائے گئے چالان میں تضاد ہے۔

ایف آئی آر میں واضح مواد کا ذکر کیا گیا تھا، جس میں طالبات اور فیکلٹی کی عریاں تصاویر اور ویڈیوز کا ذکر ہے۔ لیکن بعد میں اس پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا۔

مجسٹریٹ نے ملزم کے موبائل فونز میں پائے جانے والے واضح مواد کے حوالے سے تحقیقات کی کمی، ممکنہ مبالغہ آرائی یا اسکینڈل کے جنسی پہلو سے متعلق حوالہ جات کو دفن کرنے کی کوشش پر سوال اٹھایا۔

پولیس جنسی ہراسانی کے الزامات سے کیوں پیچھے ہٹ گئی ایک سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید برآں، وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان پیدا ہوگیا ہے کہ ان کے بیٹے کے منشیات فروشوں اور پارٹی کی لڑکیوں سے مبینہ تعلق کے حوالے سے انکشافات کیے گئے۔

طارق بشیر چیمہ کے مفادات کے ٹکراؤ پر بھی سوالات پیدا ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے اور ان کے ساتھی سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر افضل نے مبینہ طور پر اپنی نجی یونیورسٹی کے چارٹر کی منظوری حاصل کی۔

جنسی اور منشیات کے اسکینڈل کے ساتھ، خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ اس اسکینڈل کے بعد ان کی نجی یونیورسٹی طلباء کو اپنی جانب راغب کرکے غیر منصفانہ فائدہ حاصل کرسکتی ہے۔

بہاولپور پولیس نے اس اسکینڈل میں منشیات فروشی اور جنسی تعلقات سے منسلک پراسرار کرداروں سے پوچھ گچھ کرنے میں غفلت برتی۔

یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر میجر (ر) اعجاز اور ڈائریکٹر فنانس ڈاکٹر ابوبکر مبینہ طور پر ان افراد کے ساتھ رابطے میں تھے لیکن ان کرداروں سے پوچھ گچھ کرنے کے بجائے انہیں پولیس مخبر کے طور پر تحفظ دیا گیا۔

ذیل میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے جنسی اور منشیات اسکینڈل کے حقائق اور تحقیق کے نتائج پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس اسکینڈل میں چار ایسے پراسرار افراد کا ذکر ہے جو پولیس رپورٹس اور میڈیا کی بحث سے غائب ہیں۔

دی نیوز کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چار پراسرار افراد احسان جٹ، طلعت الیاس، زینب غفار اور آسیہ باجوہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ خواتین مبینہ طور پر مختلف فارم ہاؤسز میں منشیات فروشی اور پارٹیاں کرتی تھیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ خواتین پرائیویٹ گرلز ہاسٹل چلاتی تھیں جہاں مبینہ طور پر طالبات کو ناقابل ذکر حالت میں لا کر انہیں بلیک میل کیا جاتا اور پھر انہیں ان غیر قانونی پارٹیز میں لایا جاتا تھا۔

ان میں سے کچھ اب پولیس کے مخبر بن چکی ہیں۔ احسان جٹ منشیات رکھنے کے جرم میں زیر حراست ہے اور وہ طلعت الیاس کے ساتھ جرائم میں ساتھی تھا، وہ اپنے امیر گاہکوں کو منشیات اور سیکس ورکر فراہم کرتا تھا۔

احسان جٹ کی سیاسی وابستگی وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اور ان کے بیٹے کے ساتھ ان کی تصاویر میں واضح ہے، جس سے اس اسکینڈل میں جس طرح کے افراد شامل ہیں اس سے کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ تحقیقات کے دوران یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر میجر (ر) اعجاز شاہ اور ڈائریکٹر فنانس ڈاکٹر ابوبکر سے ان خواتین کا تعلق جوڑا جا رہا ہے جبکہ یونیورسٹی حکام کا دعویٰ ہے کہ اعجاز شاہ یونیورسٹی کے طلباء میں منشیات کی ممکنہ فروخت کی تحقیقات کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تعلقات کی وسعت بہت زیادہ ہے۔

یونیورسٹی حکام کا خیال ہے کہ میجر (ر) اعجاز شاہ کو لبھا کر ان سے معلومات حاصل کرنے کیلئے زینب غفار کو استعمال کیا گیا تھا، تاکہ یونیورسٹی کیمپس میں منشیات کے کاروبار میں ملوث لڑکیوں کی نشاندہی ہو۔ گرفتاری کے دن اعجاز شاہ کو زینب غفار سے ملاقات کرنا تھی۔ اگرچہ یونیورسٹی حکام اعجاز شاہ کے ملوث ہونے کو کم بتاتے ہٰں لیکن پولیس کی بجائے ایک آزاد ایجنسی اگر جامع تحقیقات کرے تو معاملہ مکمل طور پر حل ہو سکتا ہے۔

بہاولپور پولیس نے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس ابوبکر کو 28 جون 2023 جبکہ چیف سیکیورٹی آفیسر میجر (ر) اعجاز شاہ کو 20 جولائی 2023 کو گرفتار کیا۔ پولیس کی خصوصی رپورٹ کے مطابق ان پر منشیات کی فروخت اور جنسی ہراسگی اور طلباء کو بلیک میل کرنے کے سنگین الزامات تھے۔

یہ رپورٹ عدالتی چالان میں شامل نہیں تھی، لیکن اس پولیس رپورٹ میں واٹس ایپ گفتگو کے اسکرین شاٹس کو منسلک کیا گیا جس میں دونوں افراد کو متعدد خواتین کے ساتھ ملوث بتایا گیا تھا۔

ان میں کچھ تصاویر بھی شامل تھیں۔ پولیس کی خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے پروفیسرز کا ایک گروپ مبینہ طور پر منشیات کی فروخت، منشیات کے استعمال اور یونیورسٹی کے اندر اور باہر مختلف فارم ہاؤسز میں ڈانس اور سیکس پارٹیوں کے انعقاد میں ملوث ہے۔

رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ گینگ کے سرغنہ یعنی ڈائریکٹر فنانس ابوبکر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی پارٹیاں منعقد کرتا تھا جن میں منشیات، شراب، اور طلباء اور اساتذہ کا استحصال شامل تھا۔ معصوم لڑکیوں کو مبینہ طور پر بلیک میل کیا جاتا تھا اور انہیں منشیات استعمال کرائی جاتی تھی جن میں آئس، شراب اور چرس شامل ہیں۔

اسی طرح، خصوصی رپورٹ میں اعجاز شاہ کو ملوث کیا گیا، جس نے تفتیش کے دوران منشیات کی خرید، فروخت، شیئرنگ اور استعمال میں ملوث پروفیسرز کے ناموں کا انکشاف کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق، پروفیسر محمد حسین طاہر، آصف رانجھا، سرور باجوہ، اور ڈاکٹر عمران اور ڈاکٹر عمیر اشرف ان حرکتوں میں شامل ہیں جو یونیورسٹی کے احاطے اور فارم ہاؤسز کے باہر دونوں جگہوں پر ہوئیں۔

ان ڈانس اور سیکس ایونٹس میں طالبات اور خواتین عملے نے مبینہ طور پر مشترکہ طور پر حصہ لیا تھا۔ ایف آئی آر اور اسپیشل رپورٹ میں یونیورسٹی طالبات کے استحصال اور بلیک میلنگ کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اعجاز شاہ کے خلاف ایف آئی آر میں منشیات، جنسی دواؤں اور یونیورسٹی کے طلباء اور فیکلٹی کی عریاں تصاویر اور ویڈیوز سمیت واضح مواد کی برآمدگی کی تفصیل دی گئی ہے۔

ان شواہد کی بنیاد پر تفتیشی افسر نے اعجاز شاہ سے مزید پوچھ گچھ اور ان کے موبائل فون کا فرانزک معائنہ کرنے کیلئے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ حتیٰ کہ مجسٹریٹ بہاولپور نے واضح مواد کی تفتیش نہ ہونے پر حیرانی کا اظہار کیا، جس سے پولیس کی جانب سے اس کیس کی ہینڈلنگ پر سوالات اٹھتے ہیں۔

مجسٹریٹ کے مطابق ایف آئی آر اور ابتدائی رپورٹ میں برہنہ ویڈیوز اور تصاویر کا ذکر کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا اور پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کا جسمانی ریمانڈ مکمل کر لیا ہے اور اب ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں۔

یہ تضاد پولیس کے نقطہ نظر کے حوالے سے تشویش کو جنم دیتا ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے جنسی پہلو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا یا اسے دفن کرنے کی کوشش کی۔ جیسا کہ درج بالا سطور میں بتایا گیا ہے کہ مبینہ منشیات فروش احسان جٹ کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اور ان کے بیٹے ولی داد کے ستاھ سے گہرے تعلقات تھے۔

پارٹی کیلئے جانے والی لڑکیوں بالخصوص طلعت الیاس کے ساتھ احسان جٹ کے تعلقات نے کئی لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ احسان کے اعجاز شاہ سے بھی رابطے تھے۔

طارق بشیر چیمہ نے خود کو احسان سے دور کر لیا بعد ازاں احسان کو گرفتار کر کے پولیس نے اس کے قبضے سے 1660 گرام چرس اور 25 گرام آئس برآمد کر لی۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر افضل نے اپنی نجی یونیورسٹی کو پنجاب اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر بل کے ذریعے منظور کرایا۔ سابق رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر افضل نے پرویز الہیٰ حکومت کے آخری دنوں میں بہاولپور میٹروپولیٹن یونیورسٹی کی منظوری حاصل کی۔

سیاسی اثر و رسوخ اور ذاتی مفادات کی وجہ سے یہ اسکینڈل پیچیدہ ہوگیا ہے۔ فیکلٹی ممبران کی جانب سے طلباء کو جنسی ہراساں کرنے کی وجہ سے یونیورسٹی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

مبینہ طور پر یہ فیکلٹی ممبرز طلباء کو اُن تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کرتے ہیں جو یونیورسٹی کے سیکورٹی اور انٹیلی جنس افسران نے بنائی تھیں۔ یونیورسٹی میں خفیہ افسران اور سیکیورٹی انٹیلی جنس کی موجودگی کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اعجاز شاہ کے موبائل سے خواتین کی 100 کے قریب تصاویر اور ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 5500 لڑکیوں کی تصاویر / ویڈیوز کے الزامات انتہائی مبالغہ آمیز تھے۔ تاہم، سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں بنیادی طور پر امتحانی نظام اور الحاق شدہ کالجوں کی نگرانی کیلئے بھرتی کیا گیا تھا۔ سیکریسی افسران براہ راست کنٹرولر امتحان کو رپورٹ کرتے ہیں، جبکہ سیکورٹی انٹیلی جنس براہ راست شعبہ طلباء کے امور کو رپورٹ کرتی ہے۔ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کے حوالے سے سرکاری ریکارڈ ملی جلی تصویر پیش کرتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران طلباء اور فیکلٹی ممبران دونوں کے 11 کیسز رپورٹ ہوئے۔

یونیورسٹی نے ان کیسز کو حل کرنے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دیں، بعض معاملات میں ملزمان کو قصوروار پایا گیا اور انہیں مناسب سزا دی گئی۔ سرکاری ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران پیش آنے والے جنسی ہراسگی کے متعدد کیسز کو مناسب انداز سے حل کیا گیا ہے۔

تعلیمی سال 2017-18 اور 2018-19 میں، ایک ایک کیس رپورٹ کیا گیا جسے مناسب انداز سے حل کیا گیا۔ 20-2019 میں، طلباء اور فیکلٹی کے ذریعہ دو کیس رپورٹ ہوئے، جنہیں حل کر دیا گیا۔ اسی طرح، 2020-21 میں، طلباء کے دو اور فیکلٹی کے دو کیس رپورٹ ہوئے جن کا حل نکالا گیا۔ اگلے سال، 2021-22، طالب علموں کی طرف سے رپورٹ کیے گئے پانچ کیسز رپورٹ ہوئے، جس کے نتیجے میں مناسب سزائیں دی گئیں۔

2023 میں، دو طالب علموں کی ہراسگی کے کیسز اور ایک فیکلٹی کیس کو مناسب انداز سے حل کیا گیا۔ تاہم، ان کوششوں کے باوجود، بہتر امتحانی گریڈز کیلئے فیکلٹی کی جانب سے جنسی ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کے الزامات کے حوالے سے یونیورسٹی کی ساکھ کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق، یونیورسٹی میں 26؍ ہزار 970؍ طالبات نے ایڈمشن لے رکھا ہے۔ جن میں سے چار ہزار 945؍ لڑکیاں ہاسٹلز میں مقیم ہیں۔

ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’خدیجہ ہال‘‘ ہاسٹل میں 873، ’’آمنہ ہال‘‘ ہاسٹل میں 763، ’’حلیمہ ہال‘‘ ہاسٹل میں 491، ’’زینب ہال‘‘ میں 486، ’’مریم ہال‘‘ میں 250، ’’رابعہ ہال‘‘ میں 298، ’’عائشہ ہال‘‘ میں 730 اور ’’فاطمہ ہال‘‘ میں 745 طالبات رہائش پذیر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر چھ میں سے ایک طالبہ کو کیمپس میں جگہ دی جاتی ہے، جبکہ طالبات کی اکثریت روزانہ سفر کرکے یونیورسٹی پہنچتی ہیں یا پھر نجی ہاسٹلز میں مقیم ہیں۔ طالبات کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے یونیورسٹی ہاسلٹز میں رہائش کے تناسب کو بڑھانا چاہئے۔

یونیورسٹی ریکارڈ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ 2021 میں لڑکیوں کے سات پرائیویٹ ہاسٹلز کی منظوری دی گئی تھی جبکہ 2022 میں طالبات کی رہائش کیلئے پانچ پرائیویٹ گرلز ہاسٹلز کی منظوری دی گئی تھی۔ دی نیوز نے دو روز تک وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اور ان کے صاحبزادے ولی داد چیمہ سے رابطے کی کوشش کی اور ان کا موقف معلوم کرنا چاہا لیکن انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔