بلاول بھٹو نے نواز شریف کو مباحثے کا چیلنج دیکر انتخابی مہم کو نیا اور دلچسپ رخ دیدیا

پیپلز پار ٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زر داری نے گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو 8فروری کو ہونیوالے عام انتخابات سے قبل مباحثے کا چیلنج دیکر انتخابی مہم کو نیا اور دلچسپ رخ دیدیا ہے،

دیکھنا ہے نوازشریف چیلنج قبول کرتے ہیں یا نظر انداز،بلا ول نےپہلے منشور پر فوکس کیا اب مخالفین پر تنقید کرتے ہیں.

پی ٹی آئی ووٹرز کو متوجہ کرنے کیلئے تنقید کا ہدف عمران کم ، نواز زیادہ، نواز شریف براہ راست تنقید سے گریز کرتے ہیں ، بیان میں انہوں نے کہا میں مسلم لیگ ن کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نواز شریف کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ 8فروری سے پہلے کسی بھی وقت اور کہیں بھی مجھ سے مباحثہ کرلیں

عالمی سطح پر صدارتی اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار ٹیلی ویژن پر ہونیوالے مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں جس میں وہ ووٹرز کو اپنے منصو بوں بارے اہم نکات بیان کرتے ہیں.

ووٹنگ کے عمل سے پہلے شفافیت کیلئے ووٹرز کو یہ آ گاہی بہت ضروری ہے،بلاول بھٹوکے چیلنج سے پاکستان میں الیکشن کی ایک نئی روایت جنم لے گی البتہ ابھی اس پر نواز شریف کا ردعمل آ نا باقی ہے کہ وہ اسے قبول کرتے ہیں یا نظر انداز،سیا سی حلقوں میں بلاول کےبیان سے بحث چل پڑی ہے کہ آخر بلاول نے نواز شریف کو مباحثے کا چیلنج کیوں دیا.

اگر بلاول کی انتخابی مہم کا جا ئزہ لیا جا ئے تو اندازہ ہو گاکہ شروع میں بلا ول نے اپنے منشور یا دس نکات پر فوکس کیا،30لاکھ مکان دینے ‘ 300یونٹ بجلی مفت کرنے.

کسان اور یوتھ کارڈ کی بات کی اب بھی اپنی تقاریر میں عوامی فلاح و بہود کی بات کرتے ہیں مگر اب مسلسل انکی تقاریر میں سیا سی مخالفین پر تنقید کا عنصر نمایاں ہوگیا ہےبالخصوص انکا ہدف نواز شریف ہیں بلاول اپنی تقریر میں عمران خان پر تنقید نہیں کرتے، پی ٹی آئی پر انکی تنقید نہ ہونے کے برابر ہےبلکہ انکا فوکس اب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کیا جا ئےوہ اب کھل کر اپنے آپکو وزارت عظمیٰ کا امیدوار قرار دیتے ہیں آ زاد امیدواروں سے ملکر حکومت بنانے کی بات کرتے ہیں اور نواز شریف کو اپنا حریف سمجھتے ہیں، بلاول بھٹو کی لفظی جنگ کا رخ نواز شریف کی جانب ہے جنہیں وہ منتقم مزاج سیا ستدان قرار دیتے ہوئے خبردار کرتے ہیں کہ اگر نواز شریف حکومت میں آئے تو مخالفین سے انتقام لیں گےوہ سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کی ناکامی بالخصوص مہنگا ئی کا سارا ملبہ شہباز شر یف یا ن لیگ پر ڈالتے ہیں اور خود یہ کہ کر بچ نکلتے ہیں کہ میں تو وزیر خارجہ تھاکہتے ہیں کہ تیر شیر کا شکار کریگا، دوسری جانب نواز شریف نے اب تک بلا ول پر براہ راست تنقید سے گریز کیا ہے شہباز شریف اور مریم نوا ز نے نام لئے بغیر پیپلز پارٹی پر تنقید شروع کردی ہے.

مریم نواز نے کہا ہے ایک صوبے میں پندرہ سال حکومت کرنیوالی پارٹی کے پاس بتانے کیلئے پندرہ منصوبے نہیں تاہم نواز شریف کی تقاریر میں تمام تر فوکس منشور پر ہے وہ اپنی ماضی کی کا کردگی بتا تے ہیں اور مستقبل میں پا کستان کو دو بارہ ایک مستحکم اور خوشحال پا کستان بنا نے کی بات کرتے ہیں ہمارے پاس اتنے پروگرام ہیں بتانے کیلئے کہ تنقید کا وقت نہیں ہے بہر حال اب الیکشن میں گیارہ دن رہ گئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ مناظرے کے چیلنج اور نواز شریف پر تنقید پر مسلم لیگ ن کیا جوابی وار کرتی ہے،بلاول چاہتے ہیں انہیں نواز شریف کے قد کا سیا ستدان مان لیا جا ئے اسی لئے انہوں نے مناظرے کا کارڈ کھیلا ہے۔