جان خطرے میں ڈال کر سکول جانے والے بچے جنھیں ’پلاسٹک کی کشتی ڈوبنے، جنگل میں سانپوں کا ڈر‘

’ہمارے گھر سے سکول بہت دور ہیں۔ ہمیں جنگل سے گزرنا پڑتا ہے، پھر پلاسٹک کے رافٹ پر جھیل کو پار کرنا پڑتا ہے اور ہمارے اس سفر کا انحصار ہواؤں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔۔۔ ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں پانی میں نہ گر جائیں اور اس بات کا بھی خوف ہوتا ہے کہ کہیں جنگل سے گزرتے ہوئے سانپ نہ آجائے۔‘

جب سونالی چمڈا بی بی سی مراٹھی سے بات کرتے ہوئے اپنی روزمرہ کی جدوجہد بیان کر رہی تھیں تو ان کے چہرے پر خوف صاف دیکھا جاسکتا تھا۔

سونالی انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے ضلع پریشد کے ایک سکول میں پڑھتی ہیں۔

وہ اکیلی نہیں جو اتنے خطرات مول لے کر سکول جاتی ہیں بلکہ ان کے خاندان میں دو اور بچے بھی ہیں: ان کا بھائی کیلاش اور بہن کریتکا۔

تینوں بھائی بہن کو ہر روز ایسے جان لیوا خطرات سے کھیلتے ہوئے سکول جانا پڑتا ہے۔

سونالی ساور دیو سکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ جبکہ ان کے بھائی کیلاش اور بہن کریتکا چوتھی جماعت میں پڑھتے ہیں۔ یہ علاقہ تانسا ڈیم کے آبی گزر والے علاقے میں ہے اور گھنے جنگل سے گھرا ہوا ہے۔

اس علاقے میں ایک جانب سات سے آٹھ قبائلی بستیاں ہیں۔ ان میں سے سونالی، کریتکا اور کیلاش اپنے خاندانوں کے ساتھ بورالی پاڑا کی قبائلی بستی میں رہتے ہیں۔

لیکن سکول گھر سے میلوں دور ہے اور اس لیے بچوں کو سکول جانے کے لیے تانسا ڈیم کے پانی سے گزرنا پڑتا ہے۔

اگر کشتی ڈوب جائے تو؟
طلبہ اور ان کے والدین کے پاس پانچ گھنٹے کے اس سفر کے لیے کوئی حفاظتی سامان جیسے کشتیاں یا لائف جیکٹس نہیں ہیں۔ یہ تینوں طلبہ روزانہ اپنے بڑوں کے ساتھ مقامی طور پر تیار پلاسٹک کے رافٹس میں سفر کرتے ہیں۔

لیکن اگر یہ ڈوب جائے تو کیا ہوگا؟ یہ خدشہ ہر روز ان طلبہ اور والدین کو گھیرے رکھتا ہے۔

ان بچوں کے والد ماروتی چمڈا نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا، ’خطرہ ہے، لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ کوئی سرکاری گاڑی ہمارے گھر کے قریب نہیں آسکتی ہے۔ کوئی پکی سڑک نہیں ہے۔ میرے پانچ بچے ہیں۔ ان میں سے دو گاؤں میں رہ گئے ہیں۔ وہ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ اب میرے خیال میں ان بچوں کو پڑھنا لکھنا سیکھنا چاہیے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ خطرے کے باوجود آپ اپنے بچوں کو اس سکول میں کیوں بھیجتے ہیں، تو ماروتی کہتے ہیں، ’دوسرا سکول اس سکول سے بھی بہت دور ہے، وہاں ایک اور ندی ہے اور خطرہ زیادہ ہے۔ اسی لیے ہم بچوں کو اس سکول میں نہیں بھیجتے۔

’ڈیم میں پانی گہرا ہے، ہم نے پلاسٹک کے پائپوں سے اپنی کشتی بنائی ہے، اصل کشتی کہاں سے لائیں گے۔‘

ماروتی چمڈا اس کالونی میں گذشتہ 31 برسوں سے رہ رہے ہیں۔ ان کا خاندان دھان اور کیلے کے کھیتوں میں کام کرتا ہے۔ لیکن اس سے گزارہ نہیں ہوتا۔ خاندان کی مالی حالت قابل رحم ہے۔ پڑھائی کے لیے اتنا پرخطر سفر کیوں؟

اس سوال پر ماروتی کا کہنا ہے کہ ’مجھے بھی ڈر لگتا ہے آخر میرے ساتھ بچے ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ اگر کشتی ڈوب جائے تو کیا ایک کو پکڑوں یا دوسرے کو؟ میں کس بچے کو بچاؤں؟ اگر میں دو کو پکڑوں تو تیسرے کا کیا ہوگا؟ لیکن یہ خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔‘

تین کلومیٹر پر جنگل ہی جنگل
طلبہ کا سکول جانے کا جان لیوا سفر ڈیم سے گزرنے تک نہیں رکتا بلکہ ساحل پر پہنچنے سے پہلے اور رافٹ کے ذریعے دوسری طرف پہنچنے کے بعد بھی طلبہ کو جنگل سے گزرنا پڑتا ہے۔

ڈیم کے کنارے تک پہنچنے کے لیے طلبہ کو گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر دور جنگل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ساحل پر پہنچنے کے بعد وہ گہرے پانی میں رافٹ کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔

ڈیم کے دوسری طرف اترنے کے بعد انھیں ایک بار پھر جنگل میں چلنا پڑتا ہے۔ یہ جنگل میں سے دو کلومیٹر کا سفر ہے۔ کریتیکا اور سونالی دونوں کے پاس چپل نہیں ہے۔ اس لیے وہ ننگے پاؤں چلتے ہیں۔ چونکہ جنگل میں کوئی سڑک نہیں ہے، وہ بجری، پتھر، گائے کے گوبر اور جانوروں کے گوبر کے درمیان چلتے ہیں۔

ایک دن میں سکول کے لیے ان طلبہ کو دن میں دو بار یہ پورا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ سونالی کہتی ہیں، ’ہمیں سکول میں پڑھنا پسند ہے۔ میں بارہویں تک پڑھنا چاہتی ہوں۔ گھر کے قریب کوئی اور سکول نہیں ہے۔‘

دس اور گیارہ سال کے یہ بچے پرائمری تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے چہروں پر مایوسی صاف دکھائی دے رہی ہے۔

‘حکومت ہماری مدد کرے’
تقریباً 200 خاندان اس علاقے کی بستیوں میں رہتے ہیں۔

چونکہ نقل و حرکت کے لیے کوئی دوسرا آسان راستہ نہیں ہے، اس لیے نہ صرف طالب علموں بلکہ حاملہ خواتین اور دیگر مریضوں کے پاس جنگلوں اور کشتیوں کے ذریعے سفر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس لیے یہاں رہنے والے بہت سے لوگوں نے یہ رافٹ گھر پر تیار کیے ہیں۔

تقریباً 17 فٹ لمبے پلاسٹک کے پانچ پائپ اور وقفے وقفے سے تین سے چار لکڑی کے ٹکڑوں کو رسیوں سے باندھ دیا گیا ہے۔ پائپ کے دونوں کناروں کو ڈھکا گیا ہے۔ بیڑے پر بیٹھنے کے لیے لکڑی کے چھوٹے تختے لگائے گئے ہیں۔

بیڑے پر صرف دو سے تین مسافر ہی بیٹھ سکتے ہیں۔

چونکہ رافٹ پلاسٹک کا بنا ہوا ہے، اس لیے تیز ہوا چلنے پر یہ بہت زور سے ہلتا ہے اور پانی میں ڈوبنے کا امکان ہوتا ہے۔ چھوٹے بچے اتنے گہرے پانی میں تیر بھی نہیں سکتے۔

ماروتی چمڈا بتاتے ہیں، ’بچوں کو چھوڑنے کے لیے ہمیں ہی آنا پڑتا ہے، کیونکہ گھر کی خواتین کو نہیں بھیجا جا سکتا۔ وہ تیرنا نہیں جانتیں۔ اگر کچھ ہو گیا تو وہ یا تو خود کو بچائیں گی یا بچوں کو۔ تو ہم اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں اور صبح دو گھنٹے اور شام کو دو گھنٹے بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔‘

ماروتی چمڈا کا مزید کہنا ہے کہ ’ہمیں کیلے اگائے تین سال ہو گئے ہیں۔ لیکن ہمارا گھر اسی سے چلتا ہے جو ہمیں مزدوری میں ملتا ہے۔ ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ حکومت ہمیں کوئی منصوبہ دے، آمدورفت کے انتظامات کیے جائیں۔‘

بی بی سی مراٹھی کی ٹیم نے اس بارے میں سکول کے اساتذہ سے بھی بات کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے جان لیوا اور خطرناک سفر سے نہ صرف ان تینوں بچوں کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی تعلیم پر بھی اثر پڑتا ہے۔

ایسے ہی ایک استاد شیولنگ جینار ہیں، جو گذشتہ تین برسوں سے ضلع پریشد سکول ساور دیو میں پڑھا رہے ہیں۔

جینار بتاتے ہیں کہ ’سکول میں کچھ مسائل ہیں۔ ہم بھی سمجھتے ہیں اور مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہم ان کو درپیش مسائل سے انکار نہیں کر سکتے۔ سکول پہنچنے کے بعد بھی انھیں دوسرے بچوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔ اس کے لیے وقت کی ضرورت ہے اگر انھیں حفاظتی کٹ بھی مل جائے تو بہت اچھا ہے۔‘

کروڑوں روپے کا فنڈ کہاں جاتا ہے؟
ہم نے اس معاملے میں تھانہ کلیکٹر اشوک شنگارے سے رابطہ کیا۔

اشوک شنگارے نے کہا کہ ’ہم اس معاملے کا نوٹس لے رہے ہیں۔ ہم نے ان گاؤں یا قبائلی بستیوں کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے۔ جہاں سڑکیں نہیں ہیں، ان بستیوں کو سڑک کے ذریعے جوڑنے کے لیے قبائلی ترقی محکمہ، ضلع پریشد، محکمہ دیہی ترقی اور محکمہ تعمیرات عامہ کے ذریعے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

مقامی سماجی کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ یہ محکمہ جنگلات کی زمین ہے، اس لیے ترقیاتی کاموں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اس علاقے میں کام کرنے والی پرہار جن شکتی پارٹی کے شاہ پور صدر وسنت کمار پنسارے نے کہا، ’جھیل کیچمنٹ ایریا میں جنگل کی زمین لیز پر دیے جانے کی وجہ سے بہت سے قبائلی خاندان اس علاقے میں رہ رہے ہیں۔ لیکن وہاں کوئی نہیں ہے۔ بجلی کا کنکشن، سڑک یا یہاں تک کہ جنگل کی زمین ہونے کی وجہ سے یہاں عام بورویل بنانے میں بھی مسائل ہیں۔ حکومتی سطح پر سکیموں کی منظوری کے بعد بھی جنگل کی وجہ سے منصوبے صرف کاغذوں پر ہی رہ گئے ہیں۔‘

قبائلیوں کی ترقی کے لیے مرکز اور ریاست میں حکومت کی کئی سکیمیں ہیں۔ اس کے لیے کروڑوں روپے کی منظوری دی گئی ہے۔

ریاستی حکومت کے 2022 اور 23 کے بجٹ میں قبائلی سماجی بہبود کے لیے 11 ہزار 199 کروڑ روپے منظور کیے گئے ہیں۔ محکمہ دیہی ترقی کو 7,718 کروڑ روپے اور سکولی تعلیم کے محکمے کو 2,354 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ہر حکومت یقین دلاتی ہے کہ قبائلی برادری کو تعلیم، سماجی اور معاشی سہولیات فراہم کرکے قومی دھارے میں لانا ان کی پالیسی ہے۔ تو یہ کروڑوں روپے کا فنڈ کہاں جاتا ہے۔

اس کے علاوہ تعلیم کے حق کا قانون کہتا ہے کہ پہلی سے آٹھویں جماعت تک تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسے بہت سے قبائلی طلبہ ابھی تک تعلیم اور ترقی سے محروم ہیں۔