پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
ڈینیوب!اے ڈینیوب
چلتے ہوئے پانی کے ساتھ ساتھ چلنا تو خیر ایک انتہائی خوش کن عمل ہے‘چلتے پانی کو تو بیٹھ کر صرف دیکھتے رہنا بھی دل اور نظر کو لطف عطا کرتا ہے۔ کئی سال قبل مظفر آباد میں دریائے نیلم کے کنارے بنے ہوئے واکنگ ٹریک پر چلتے ہوئے جو لطف آیا تھا وہ آج بھی کانوں میں جلترنگ اور دل میں فرحت کے پھول بکھیرتا ہے۔ نیلگوں شفاف پانی اور اس کے بہنے کا پُرلطف شور۔ ایسا شور جو کبھی بھی کانوں کیلئے باعثِ زحمت محسوس نہیں ہوتا۔ پتھروں سے ٹکرا کر اچھلتا ہوا شیشے جیسا پانی اور چاندی جیسی جھاگ۔
پہاڑ‘ جنگل‘ صحرا اور دریا۔ یہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو دیکھ کر اس مسافر کا تو دل ہی شاد ہو جاتا ہے۔ قدرت کے یہ سارے مظہر ایسے ہیں کہ بندہ پہروں بیٹھا انہیں دیکھتا رہے اور دل نہ بھرے۔ لیکن ان چاروں چیزوں میں اگر رینکنگ کروں تو پہلا نمبر دریا کودوں گا۔ اس بات کی قید نہیں کہ دریا کیسا ہو۔ وہ اچھلتا کودتا‘ شور مچاتا اور غراتا ہوا دریائے سوات ہو یا دریائے کنہار‘ وہ دریائے نیلم ہو یا دریائے بمبوریت۔ پہروں بیٹھے رہیں اور لہروں کو باہم مدغم ہوتے دیکھتے رہیں۔ لیکن دوسری طرف کالا باغ میں پرسکون اور سست رو دریائے سندھ کے وسیع نیلے پاٹ کے کنارے درختوں کے نیچے بیٹھ کر گڑ والے مکھڈی حلوے سے پوریاں کھاتے ہوئے بائیں طرف 1931 ء کے بنے ہوئے لوہے کے گارڈروں پر مشتمل سرخ رنگ کے محراب دار پرانے ریلوے پل اور دائیں طرف حدِ نظر پر دکھائی دینے والے جناح بیراج کے درمیان آہستہ خرامی کرتے ہوئے پانی کو گھنٹوں دیکھتے رہیں تو بھی جی نہ اکتائے۔
دریا کو کنارے پر بیٹھ کر دیکھنا تو خیر سے لطف آمیز ہے ہی اس کے ساتھ چلنا دل کو ایسا لطف اور حیرانی دیتا ہے کہ بندہ تھک جائے تو بھی چلنے سے خود کو نہ روک پائے۔ یہ مسافر بارہا دریائے تھیمز کے کنارے پر پارلیمنٹ بلڈنگ اور بگ بین سے لے کر ٹاور برج تک جسے ہمارے ہاں عرف ِعام میں لندن برج کہا جاتا ہے (حالانکہ لندن برج نامی پل بھی دریائے تھیمز پر موجود ہے اور بڑا عام سا پل ہے) چلنے سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے اور اسے دیکھنے کے ساتھ ساتھ محسوس کرتا رہا ہے۔ راستے میں کھیل تماشوں سے لطف اندوز ہوتا ہوا جب دریا کے بہاو ٔ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا یہ مسافر دو گھنٹے میں ٹاور برج پہنچتا ہے تو تھکاوٹ کے باوجود انہی قدموں واپس پلٹتا ہے اور پیلے رنگ کے ٹاور پر لگے بگ بین اور اس سے ملحقہ برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت کے پاس اپنے سفر کا اختتام کرتا ہے۔ لندن شہر کی ناپسندیدگی کے باوجود جب بھی لندن میں چار چھ دن گزارنے پڑیں تو ایسا ممکن نہیں کہ تھیمز کے کنارے پر لمبی واک نہ کی جائے۔
بوڈاپسٹ میں دریائے ڈینیوب کے کنارے ایک سفید رنگ کی سرخ گنبد والی خوبصورت عمارت ہے۔ یہ عمارت ہنگیرین پارلیمنٹ بلڈنگ ہے۔ 1904ء میں مکمل ہونے والا یہ شاندار اور وسیع و عریض کمپلیکس نہ صرف یہ کہ بوڈاپسٹ کی سب سے بڑی عمارت ہے بلکہ یہ یورپ کی سب سے بڑی پارلیمنٹ بلڈنگ ہے۔ یہ نہ صرف خوبصورتی‘ دبدبے اور حسنِ تناسب کا مرقع ہے بلکہ ہنگری کی شاید سب سے زیادہ دیکھی جانے والی عمارت بھی ہے۔ یہ دریائے ڈینیوب کے مشرقی کنارے پر مشہور چین برج سے محض ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ پارلیمنٹ بلڈنگ کے پہلو میں بہتے ہوئے ڈینیوب کے کنارے واک وے ہے۔ بوڈاپسٹ میں چلنے کیلئے یہ ایک کلو میٹر شاید سب سے شاندار راستہ ہے۔ دریا کی دوسری طرف بوڈا کاسل بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کے پہلو میں بنے ہوئے رنگدار چھت والے سفید ماتھیاس چرچ کا اوپری حصہ بھی دکھائی پڑتا ہے۔ اس پیدل چلنے والے راستے پر درمیان میں ”شوز آن ڈینیوب بینک‘‘ ہے اور جگہ جگہ پر بیٹھنے کیلئے بنچ موجود ہیں۔ مسافر نے اس ایک کلو میٹر کے راستے پر پارلیمنٹ بلڈنگ کی طرف سے چلنا شروع کیا تو ساتھ چلتے ہوئے دریا کے نظارے نے ایسا اسیر کیا کہ میں چین برج سے واپس پلٹا اور اسی راستے سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ بلڈنگ سے بھی آگے نکل گیا اور پھر دوبارہ چین برج کی طرف واپس چل پڑا۔ اس سارے راستے پر نہ تو دریائے تھیمز جیسی گہما گہمی اور نہ ہی رونق لیکن پھر بھی چلنے میں ایسا لطف آ رہا تھا کہ اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ دوسری بار چین برج پر جانے کے بجائے میں بائیں طرف مڑ گیا۔ ایک چھوٹے سے سر سبز لان کے ایک طرف ایک چھوٹے سائز کا درخت نیم دراز تھا۔ اس درخت کو مکمل طور پر لیٹنے سے بچانے کیلئے اس کے نیچے لکڑی کی بلیاں نصب کی گئی تھیں۔ یہ اڑھائی سو سال پرانا میلبری کا درخت ہے جیسے بوڈاپسٹ کے سب سے بزرگ درخت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہمارے ہاں ہوتا تو اب تک یہ کمر خمیدہ درخت کسی تنور کو گرم کرنے کا فریضہ سرانجام دے کر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہوتا مگر یہ قدیم درخت گو کہ صحت کے اعتبار سے آخری دنوں پر آئے ہوئے بزرگ کی مانند دنیائے فانی سے کوچ کرنے کے قریب ہے مگر اہلِ بوڈاپسٹ اسے بوجھ سمجھ کر سر سے اتارنے کے بجائے اس بزرگ کی خاطر خدمت میں مصروف ہیں اور لکڑی کے شہتیروں اور بلیوں کی مدد سے اسے مکمل طور پر زمین بوس ہونے سے بچانے میں مصروف ہیں۔
تاریخ کی بدترین جنگوں کا مرکز رہنے والا ڈینیوب کہیں پہاڑی دریاؤں کی طرح شور مچاتا اور جھاگ اڑاتا گزرتا ہے تو کہیں دریائے سندھ کے میدانی علاقوں میں سے گزرنے کا منظر پیش کرتا ہے۔ کہیں یہ تنگ راستوں کا راہی ہے تو کہیں یہ کئی حصوں میں بٹ کر گزرتا ہے۔ بوڈاپسٹ کے عین درمیان سے گزرتا ہے تو اس کی چوڑائی آدھے کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ دوسرے کنارے پر موجود عمارتیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ مسافر نے اس کے دوسرے کنارے پر نظر دوڑائی مگر اس طرف شاید اس قسم کا پیدل چلنے کا راستہ نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو اس قدر پُررونق نہیں تھا کہ اس منظر نامے میں اپنی جگہ بنا پاتا۔ ممکن ہے مسافر کو اس راستے پر دوبارہ پیدل چلنے کا پھر موقع نہ ملے مگر کیا یہ کم ہے کہ اس نے اس خوبصورت راستے پر چلتے ہوئے‘ بنچوں پر بیٹھ کر‘ اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر پاؤں پسار کر اور ایک جگہ پر دریا میں پاؤں لٹکا کر اس ایک کلو میٹر لمبے راستے کو تین کلو میٹر بناتے ہوئے جو لطف لیا ہے وہ اب اس کی یادوں کا حصہ ہے اور انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ خوبصورت چیز سدا کیلئے باعثِ شادمانی ہوتی ہیں۔ (Thing of beauty is a joy forever)
میلبری کے پرانے نیم درازدرخت سے دریا کی مخالف سمت نظر دوڑائی تو سامنے پتھروں سے بنی ہوئی سڑک کے آخری سرے پر سیاہی مائل سبز رنگ کے گنبد والی آف وائٹ عمارت تھی۔ یہ بوڈاپسٹ کا مشہور سینیٹ سٹیفنز بیسلیکا تھا۔ دریا سے اس گرجے تک جانے والی سڑک صرف پیدل چلنے والوں کیلئے مخصوص ہے۔ اس کا نام پڑھا تو یہ Zrinyi U تھا۔ اللہ جانے اس کی صوتی ادائیگی کس طرح ہے؟ جب یہ مسافر اس سڑک کے کنارے لگے بنچ پر بیٹھ کر اپنے گھٹنے سہلا رہا تھا تو اسے تھوڑی ہی دیر پہلے خوبصورت یادوں کے حوالے سے اپنے دل کو دی گئی تسلی پر اعتبار اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ بھلا خوبصورت یادیں کسی خوبصورت چیز کا نعم البدل کیسے ہو سکتی ہیں؟ مسافر نے چھوڑ کر جانے والے کچھ لوگوں کو یاد کرتے ہوئے ان کی کمی کویادوں سے بہلانے کی کوشش کی تو ڈینیوب کا کچھ پانی آنکھوں میں نمی بن کر آ گیا۔ پاس سے گزرتی ہوئی خاتون سفید بالوں والے مسافر کو آنکھیں صاف کرتے دیکھ کر پریشانی سے لمحہ بھر کیلئے رُکی اور پھر آگے بڑھ گئی۔