جنرل فیض حمید آرمی چیف بننا چاہتے تھے:زلفی بخاری

پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل فیض حمید آرمی چیف بننا چاہتے تھے، ہماری اسٹبلشمنٹ یا فوج سے کبھی لڑائی نہیں ہوئی، ہماری لڑائی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نہیں تھی بلکہ لڑائی دو بڑے اہم عہدوں میں تھی، ایک آرمی چیف اور ایک وزیر اعظم۔ ان دو عہدوں میں لڑائی کی وجہ بد اعتمادی تھی۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کا اس وقت ایک دوسرے کے سا تھ چلنا ممکن نہیں تھا، دونوں کے درمیان معاملات میں اختلافات ہوچکے تھے۔

وہ جیو نیوز کے پروگرام ’’نیاپاکستان‘‘ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کررہے تھے۔

جنرل فیض سے متعلق سوال کے جواب میں رہنما پی ٹی آئی زلفی بخاری نے کہا کہ ہمیں یا کسی بھی پارٹی کو کبھی بھی کسی فرد کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئے۔

یعنی وزیراعظم آفس کی آرمی چیف کے آفس کے ساتھ یا ڈی جی آئی کے آفس کے ساتھ تعلق ہونا چاہئے۔

تعلق عہدے سے رکھنا چاہئے نہ کہ شخصیت سے پاکستان کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجئے جب بھی کسی شخصیت پر انحصار کیا جائے نقصان ہوتا ہے چاہے وہ ہم ہوں ماضی میں کوئی اور ہو بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں انفرادی شخصیات پر انحصار کرنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ہم کسی بھی شخصیت پر انحصار کریں یہ سیاسی پارٹی کی غلطی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنرل فیض آرمی چیف بننا چاہتے تھے اس لئے وہ اطلاعات یا انٹیلی جنس کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ اس کے سوال کے جواب میںکہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومت ریفرنس لائی اور نومبر میں آرمی چیف کی تقرری روکنے کیلئے بھی جلسے وغیرہ کئے گئے۔

کیا یہ جنرل فیض کے انفلوئنس کی وجہ سے ہورہا تھا زلفی بخاری نے کہا کہ نومبر میں کوئی ایسی ڈیل والی بات نہیں تھی نہ ہی کوئی توسیع کی بات تھی۔ میں نے ایک عمومی بات کی ہے مجموعی طور پر جب جنرل فیض ڈی جی آئی تھے تو یقینا تمام انٹیلی جنس ان کے پاس ہے تو جو بھی چیزیں ہو رہی ہیں ان کو وہ استعمال کر رہے تھے عمران خان کے اپنے موقف کے لئے ہوتے ہیں یا عمران خان ہوں یا کوئی اور ہو کیوں کہ بات ظاہر ہے کہ اس جنرل کی بھی خواہش ہے کہ وہ سب سے ہائیئیسٹ پوزیشن پر پہنچے اس لئے یہ مینوپولیشن ہوتی ہیں۔ اس لئے میں نے آپ کوblankit statment دیا ہے کہ کبھی بھی انحصار شخصیت کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے، عہدے کے ساتھ ہونا چاہئے۔

رہنما پی ٹی آئی زلفی بخاری نے کہا کہ الیکشن میں جس طرح سے ہمیں محدود کیا جارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کالعدم پارٹیوں کو بھی اجازت ہے جلسے جلوسوں کی لیکن ہمیں نہیں ہے۔

البتہ ہماری پارٹی کی مقبولیت بہت ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کم سے کم ہمارے ورکرز گرفتار ہوں۔ اتنی پکڑ دھکڑ کے باوجود ہمارا ووٹ بینک وہیں موجود ہے اور ہم یقینا الیکشن کے قریب الیکشن مہم چلائیں گے۔

زلفی بخاری نے مزید کہا کہ الیکشن کی تاخیر کے لئے بہانے شروع کر دیئے گئے ہیں بالخصوص خیبرپختونخوا میں موسم کا بہانا بنایا جارہا ہے، میں سمجھتا ہوں اگر ووٹ بینک تحریک انصاف سے جڑا رہا تو الیکشن کرانے مشکل ہوجائیں گے۔

الیکشن اور ٹکٹ سے متعلق تمام فیصلے عمران خان خود کریں گے، ہمیں اندازہ تھا کہ حالات ہمارے لئے سخت سے سخت ہوں گے جس کی تیاری ہم نے پہلے ہی کر رکھی تھی۔ عمران خان کا جیل میں ہونا ہماری الیکشن مہم کو آسان کر رہا ہے۔

تحریک انصاف کی مین لیڈر شپ پارٹی چھوڑ رہی ہے اس کے متعلق زلفی بخاری نے کہا کہ اپنی مرضی سے پارٹی کوئی نہیں چھوڑ کر جارہا ہے۔ علی اعوان کے بھائی دو مہینے سے جیل میں تھے علی اعوان خود دس دنوں سے اغوا تھے تو یہی متوقع تھا کہ وہ بھی آکر پریس کانفرنس کریں اور علیحدگی کا اعلان کریں لیکن چونکہ وہ گرفتاری سے پہلے ہی ویڈیو بنا چکے تھے کہ اگر میں دباؤ میں آکر کوئی پریس کانفرنس کروں تو سمجھ لیجئے گا کہ میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے تحت پریس کانفرنس میں بولوں گا۔ عثمان بزدار ہوں، صداقت عباسی ہوں، فرخ حبیب ہوں ان سب کے اغوا کے بعد کے بیان سامنے ہیں۔

علی اعوان کی مونچھ بھی کاٹ دی گئی اور پھر انہیں آئی پی پی جوائن کرادی گئی لیکن اس سے آئی پی پی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ووٹ بینک عمران خان کا ہے۔ جو لوگ اس طرح سے اغوا ہوئے یا جیل میں گئے ان لوگوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ وہ لوگ بہتر جانتے ہیں اُن کو کیا مشکلات تھیں جس کی وجہ سے انہیں تحریک انصاف چھوڑنا پڑی۔

ان لوگوں میں سوائے عامر کیانی کے کوئی ایسا نہیں ہے جو خوشی سے گیا ہو، عامر کیانی کا نظر آتا ہے وہ خوشی سے آئی پی پی گئے ہیں۔ جبکہ علی زیدی، عمران اسماعیل، فواد چوہدری آپ کو دوبارہ نظر نہیں آئے۔ اور جو لوگ عمران خان کو برا بھلا نہیں کہہ رہے وہ واپس جیل جارہے ہیں۔ جو ظلم تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ ہوا کسی کے ساتھ نہیں ہوا، شاہد خاقان ہوں، نوازشریف ہوں یا جو کوئی بھی نہیں جیل سسٹم کے تحت اندر رکھا گیا تھا اغوا نہیں کیا گیا تھا۔

اس سوال کے جواب میں کہ نو مئی سے پہلے آپ کو الیکشن کی تاریخ مل سکتی تھی زلفی بخاری نے کہا یہ بہت بڑا ”اگر“ ہے۔ ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جارہا تھا کہ اگر یہ کرلیں تو الیکشن ہوجائے گا وہ کرلیں تو الیکشن ہوجائے گا۔ جب تک تحریک انصاف کا ووٹ بینک قائم ہے الیکشن نہیں ہوگا۔

ایک ٹرسٹ ڈیفیسٹ تھا اہم لوگوں کے درمیان، سابق وزیراعظم سٹنگ پرائم منسٹر اور آرمی چیف کے بیچ میں ایک ٹرسٹ ڈیفیسٹ تھا جب ایسا ہوتا ہے تو ہر بات پر یقین نہیں کیا جاتا۔ جبکہ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ نون لیگ وغیرہ کا اس وقت الیکشن کی تاریخ دینا اُن کی سیاسی موت ہوگی۔ سروے کرایا جائے تو تحریک انصاف سب سے مقبول پارٹی ہوگی۔

نو مئی کی مذمت ہم نے بار بار کی ہے لیکن اس کے پیچھے آپ ساری لیڈر شپ کو جیل میں ڈال دیں۔ جو لوگ قصور وار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ناکہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا درست ہوگا۔

ایک سفیر کا کام ہے سارے سیاسی رہنماؤں سے ملیں اس میں کوئی قباحت نہیں کہ وہ نوازشریف سے ملیں جہانگیر ترین سے ملیں شہباز شریف سے ملیں یا ہماری پارٹی کے لیڈران سے ملیں اس میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ان کا کام ہے کہ وہ ہمارے لیڈران کے ساتھ بھی ملیں اور ہماری رائے بھی لیں۔ سب سے بڑی پاکستان کی سیاسی پارٹی کو محدودد کیا جارہا ہے۔

ایک سفیر جب یہ بات کرتا ہے کہ ہم پاکستان میں شفاف الیکشن چاہتے ہیں تو پاکستان میں سب سے بڑی پارٹی کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس مسئلے کو سنجیدہ کیوں نہیں لیا جارہا۔

بنی گالہ کے سیکورٹی انچارج انعام کہتے ہیں کہ بنی گالہ میں سب سے زیادہ ایکسیز زلفی بخاری کا تھا اور بشری بی بی سے بھی وہ کلوز تھے لیکن شاید کسی ناراضی کی وجہ سے تو ان کا نمبر بلاک کردیا گیا۔

اس کے جواب میں زلفی بخاری نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں تھا جب آپ پی ایس ہوتے ہیں کہیں کام کرتے ہیں تو آپ کام چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہیں اور کام کرتے ہیں سیکرٹری کا تو یہی کام ہوتا ہے۔

اگر مان بھی لیا جائے کہ ایسا کچھ تھا بھی تو وہ میری والدہ کی جگہ ہیں وہ مجھ سے ناراض ہوں یا میں ان سے ناراض ہوں یا میری عمران خان سے ناراضی ہو یا کسی بھی لیڈر شپ سے میں کلوز ہوں اگر ہمارے درمیان کوئی اونچ نیچ ہوتی ہے تو وہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ سیاست سے متعلق کوئی بات ہے تو وہ پبلک میٹر ہوسکتا ہے۔ مجھے اس انٹرویو کی بھی تک سمجھ نہیں آئی۔