پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
اگر عمران خان سمجھ دار ہوں
چارلس ڈیگال دنیا کے دس بڑے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں‘ ہم اگر فرانس کو گھنا درخت مان لیں تو ڈیگال کا ذہن‘ جذبہ اور محنت اس کی جڑیں ہیں‘ فرانس اگر گاڑی ہے تو ڈیگال اس کا انجن تھا اور ہم اگر اسے انسانی جسم مان لیں تو ہمیں ڈیگال کو اس جسم کا دل ماننا پڑے گا۔
ڈیگال نے آج کا فرانس بنایا تھا لیکن سوال یہ ہے ڈیگال کو کس نے بنایا؟ ڈیگال کو اس کے صبر‘ برداشت اور ہمت نے دنیا کا عظیم لیڈر بنایا تھا‘ اس شخص نے دوسری جنگ عظیم میں فرانس کے بچے کھچے لوگوں پر مشتمل جلاوطن حکومت اور گوریلا فوج بنائی‘ جرمنوں پر حملے کیے اور برسوں تک جنگلوں‘ پہاڑوں اور ویرانوں میں بے سروسامانی میں لڑ کر فرانس کو جرمنوں سے آزادی دلائی‘ ڈیگال جیت گیا اور عبوری حکومت کا سربراہ بن گیا۔
وہ ملک کا نیا آئین بنا رہا تھا لیکن اس کے ساتھی اس کی سوچ اور وژن کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے‘ سیاسی اتحادیوں اور حکومتی جماعت کے باغی ارکان سے اختلافات ہو ئے اور ڈیگال کے پاس دو آپشن بچے‘ یہ ’’سندھ ہائوس‘‘ پر حملہ کرا دیتا‘ پورے ملک میں ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘ اور ’’آخری گیند تک کھیلوں گا‘‘ جیسے دعوے اور اعلان کرنے لگتا یا پھر چپ چاپ اقتدار سے الگ ہو جاتا اور ملک کو آگے بڑھنے اور چلنے کا موقع دے دیتا۔
تجزیہ نگاروں کا خیال تھا ڈیگال لڑائی کی طرف جائے گا‘ کیوں؟ کیوں کہ اس نے پوری زندگی پیچھے ہٹنا اور ہار ماننا نہیں سیکھا تھا‘ وہ صرف اور صرف آگے بڑھنا جانتا تھا لیکن ڈیگال نے اپنے تمام چاہنے والوں کی سوچ کے برعکس فیصلہ کیا‘ اس نے سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا اور 1946ء میں پیرس چھوڑ کر اپنے گائوں چلا گیا اور وہ 1958ء تک چھوٹے سے گائوں میں رہا‘ وہ سارا دن کتابیں پڑھتا اور سگار پیتا تھا اور صبح و شام دو وقت واک کرتا تھا اور اپنے کتوں کے ساتھ کھیلتا تھا‘ وہ ان 12 برسوں میں کسی سرکاری اور غیر سرکاری اور سیاسی اور غیرسیاسی تقریب میں شریک نہیں ہوا۔
اس نے کوئی انٹرویو دیا اور نہ کسی سے ملاقات کی‘ وہ بس خاموشی سے ریٹائر زندگی کو انجوائے کرتا رہا یہاں تک کہ وقت پلٹا‘ 1958ء آیا‘ الجزائر میں آزادی کی لہر اٹھی اور فرانس میں ہنگامے شروع ہو گئے‘ عوام کو اس نازک وقت میں صرف ایک سہارا نظر آیا اور وہ تھا چارلس ڈیگال۔ لوگ گھروں سے نکلے‘ ڈیگال کے گھر پہنچے اور اسے کندھوں پر اٹھا کر پیرس لے آئے اور اس کے بعد ایک نئی کہانی شروع ہو گئی۔
ہم انسان جیت جائیں یہ کوئی کمال نہیں ہوتا‘ ہم بار بار کوشش کے بعد جیت جائیں یہ بھی کوئی کمال نہیں ہوتا لیکن ہم جیتنے کے بعد ہاریں‘ میدان میں گریں اور ایک بار پھر اٹھ کر جیتیں یہ واقعی کمال ہوتا ہے اور یہ جبلت عام انسانوں کو چارلس ڈیگال جیسا بڑا لیڈر بناتی ہے اور قدرت یہ موقع اور یہ ہمت بہت کم لوگوں کو دیتی ہے‘ زیادہ تر لوگ جیتنے کے بعد ہارنے کے عمل میں فوت ہو جاتے ہیں‘ عمران خان لکی ہیں۔
قدرت انھیں بڑا لیڈر بننے کا موقع دے رہی ہے‘ یہ مسلسل کوشش کے بعد جیتے‘ حکومت بنائی اور پھر اپنی غلطیوں کی وجہ سے یہ موقع ضائع کر دیا‘ قدرت اب بھی ان سے مایوس نہیں ہوئی‘ یہ انھیں باعزت رخصتی کا ایک اور موقع دے رہی ہے‘ یہ اگر سمجھ دار ہوں تو یہ روحانی طاقتوں اور مؤکلات کا سہارا لینے کی بجائے استعفیٰ دیں اور چارلس ڈیگال کی طرح چپ چاپ بنی گالا بیٹھ جائیںاور پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے دست و گریبان ہونے کا انتظار کریں۔
مجھے یقین ہے یہ مصنوعی اتحاد جلد ٹوٹ جائے گا‘ یہ لوگ ایک بار پھر ایک دوسرے کو منحوس‘ کرپٹ اور نیشنل سیکورٹی رسک کہیں گے اور ان کی لڑائیاں عمران خان کے لیے دوبارہ موقع پیدا کر دیں گی‘ یہ اگر سمجھ دار ہوں تو یہ جان لیں اپوزیشن کے موجودہ ’’گیواینڈ ٹیک‘‘ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ق لیگ ونر اور ن لیگ ’’لوزر‘‘ ہے‘ آصف علی زرداری 2019ء سے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانا چاہتے ہیں۔
یہ مولانا فضل الرحمن کے ذریعے متعدد مرتبہ میاں نواز شریف کو پیغام بھجوا چکے ہیں ‘یہ تجویز پی ڈی ایم کی تشکیل کے دوران بھی دی گئی تھی لیکن میاں برادرز تیار نہیں تھے‘ یہ جانتے ہیں چودھری برادران سیاسی جادوگر ہیں‘ یہ اگر ایک بار اقتدار میں آ گئے تو یہ پنجاب سے ن لیگ کا صفایا کردیں گے اور اس خلاء کا فائدہ پیپلز پارٹی کو بھی ہو گا‘ یہ ق لیگ کے ساتھ مل کر پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کر لے گی۔
آج اگر میاں نواز شریف یہ کڑوا گھونٹ بھرنے کے لیے تیار ہیں‘ یہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی‘ صدارت آصف علی زرداری‘ وزارت خارجہ بلاول بھٹو اور سندھ کی گورنر شپ ایم کیو ایم کو دے کر صرف میاں شہباز شریف کے لیے وزارت عظمیٰ لے رہے ہیں تو اس کی واحد وجہ عمران خان ہیں‘ یہ عمران خان کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لہٰذا اپوزیشن کا اتحاد صرف ایک نقطے پر کھڑا ہے اور وہ ہے عمران خان اور اگر عمران خان راستے سے ہٹ جائیں تو یہ لوگ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دیں گے۔
اتحادی حکومت چند ماہ میں ختم ہو جائے گی لیکن اگر عمران خان نے اپنے گھوڑے نہ باندھے تومشترکہ دشمن ان لوگوں کو متحد رکھے گا اور اس کا نقصان صرف عمران خان کو ہو گا‘ عمران خان اگر سمجھ دار ہوں تو انھیں اب تک یہ سمجھ بھی آ جانی چاہیے یہ بری طرح استعمال ہوئے ہیں‘ یہ وہ کوڑا یا ڈنڈا ہیں جس کے ذریعے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو ان کے مینڈیٹ کی اصل حقیقت بتائی گئی ‘ یہ دونوں رگڑا کھا کر اصل حقائق سے واقف ہو چکے ہیں لہٰذا اب عمران خان کی ضرورت نہیں رہی۔
عمران خان انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں بھی بری طرح استعمال ہوئے ہیں‘ ان سے وہ کام لیے گئے ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیاں نہیں کر سکتی تھیں‘ ن لیگ یا پیپلز پارٹی ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی نہیں رکھ سکتی تھیں‘ یہ سعودی عرب‘ یورپ‘ امریکا اور چین کو بھی ناراض نہیں کر سکتی تھیں‘ یہ کشمیر جیسا کڑوا گھونٹ بھی نہیں پی سکتی تھیں‘ یہ ملک کو مہنگائی کے گرداب میں بھی نہیں دھکیل سکتی تھیں اور یہ ملک کو قرضوں کے خوف ناک چنگل میں بھی نہیں پھنسا سکتی تھیں۔
دنیا کو خودکشی کی اس سیریز کے لیے کسی مجبور یا ون ٹائم حکومت کی ضرورت تھی اور عمران خان اسے مل گیا اور دنیا نے اس حکومت کی ناتجربہ کاری اور مجبوری کا کھل کر فائدہ اٹھایا اور عمران خان کو اب تک یہ سمجھ بھی آ جانی چاہیے، یہ ملکی تاریخ کے چند رکے ہوئے منصوبوں اور چند بڑے بزنس گروپوں کے لیے بھی لائے گئے تھے‘ یہ آج اگر صرف بڑے بزنس گروپوں کے اثاثے نکال کر دیکھ لیں تو یہ امیر لوگوں کی امارت میں اضافہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اور یہ جان لیں گے انھیں ان لوگوں کے لیے لایا گیا تھا اوران لوگوں نے جی بھر کر عمران خان کا فائدہ اٹھایا۔
ملک میں اب مزید فائدے کی گنجائش نہیں رہی لہٰذا ان کے جانے کا وقت ہو گیا ہے اگر عمران خان سمجھ دار ہوں تو یہ اب تک یہ بھی سمجھ چکے ہوں گے صرف خواب دیکھنے سے منزلیں نہیں ملتیں‘ انسان کو کچھ کرنا بھی پڑتا ہے اور کرنے کے لیے تجربہ‘ عقل اور عاجزی درکار ہوتی ہے اور وزیراعظم نے بدقسمتی سے چن چن کر انتہائی ناتجربہ کار‘ نالائق اور متکبر لوگ اپنے گرد جمع کر لیے اور ان سب لوگوں نے مل کر تبدیلی اور انقلاب کی کشتی ڈبو دی۔
حکومت اب جا چکی ہے‘ صرف او آئی سی کانفرنس کے خاتمے کی دیر ہے اور عمران خان کے اقتدار کا سورج بجھ جائے گا‘ پارٹی کے کچھ سینئر لوگ عمران خان کو مائنس کر کے پی ٹی آئی کی حکومت برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘ یہ اس فارمولے کے ساتھ پنڈی اور اسلام آباد کے چکر لگا رہے ہیں لیکن سردست یہ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا‘دوسری طرف عمران خان کی کوشش ہے یہ حالات کو مارشل لاء تک لے جائیں‘ اپوزیشن اور حکومت دونوں ریڈزون میں آمنے سامنے آ جائیں‘ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو جائے اور فوج اقتدار میں آنے پر مجبور ہو جائے‘ یہ میاں نواز شریف کو بھی سوٹ کرتا ہے۔
یہ پنجاب چودھری برادران اور صدارت آصف علی زرداری کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تاہم یہ کے پی اور بلوچستان کی آدھی وزارت اعلیٰ مولانا فضل الرحمن کو دینے کے لیے تیار ہیں‘ میاں صاحب کا خیال ہے ملک میں اگر مارشل لاء نہیں لگتا اور اپوزیشن عمران خان کو نکال کر نیشنل گورنمنٹ بنانے میں کام یاب ہو جاتی ہے تو وزیراعظم میاں شہباز شریف تین ماہ میں اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کرا دیں تاکہ ن لیگ اقتدار میں آ سکے لیکن پیپلز پارٹی‘ ق لیگ‘ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے راضی نہیں ہیں‘ یہ اسمبلیوں کی مدت پوری دیکھنا چاہتی ہیں۔
چودھریوں کو پنجاب میں پائوں جمانے اور آصف علی زرداری کو جنوبی پنجاب اور سندھ میں پارٹی کے استحکام کے لیے وقت چاہیے اور یہ ن لیگ کو سوٹ نہیں کرتا کیوں کہ اگر اس سال الیکشن نہیں ہوتے تو ن لیگ سیاسی بحران کا شکار ہو جائے گی‘ میاں شہباز شریف کے ہاتھ بندھے ہوں گے اور یہ ان بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ عمران خان کی بچھائی بارودی سرنگیں اکٹھی نہیں کر سکیں گے اور یہ ناکامی ن لیگ کے کھاتے میں پڑ جائے گی لہٰذا اگر عمران خان سمجھ دار ہوں تو یہ چارلس ڈیگال کی طرح چپ چاپ سائیڈ پر بیٹھ جائیں اور تماشا دیکھیں‘ وقت بہت جلد انھیں ایک اور موقع دے گا لیکن یہ اگر اسی طرح ڈٹے رہے تو یہ عزت اور پارٹی کے ساتھ ساتھ خود کو بھی خطرے میں ڈال لیں گے۔