عمران کا کیس اور فوجداری کیسز پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی پالیسی

اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے 2020ء میں ایک پالیسی فیصلہ جاری کیا تھا جس کے تحت ٹرائل کورٹس سے سزا یابی کیخلاف فوجداری اپیلوں کو تین ماہ میں نمٹانے کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی۔

سزاؤں کیخلاف اس طرح کی اپیلوں کو نمٹانے میں اکثر طویل وقت لگ جاتا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ پالیسی رہنما اصول اسی طرح کی تاخیر سے نمٹنے کیلئے جاری کیے تھے۔

سیشن ججوں سے بھی کہا گیا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فوجداری کیسز تیزی سے اور 90؍ روز میں نمٹایا جائے۔

عدلیہ کے ایک اندرونی ذریعے نے ان پالیسی رہنما اصولوں کی روشنی میں کہا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو چند ہفتوں میں ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے لیکن توشہ خانہ کیس میں ان کی سزا فوراً ختم نہیں ہو پائے گی۔

ذریعے نے کہا کہ اس طرح کی سزاؤں میں ضمانت کی درخواستیں جلد نمٹائی جاتی ہیں اور سزا بھی معطل ہو جاتی ہے لیکن جب تک سزا کیخلاف اپیل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک سزا برقرار رہتی ہے۔ ذریعے نے مزید آگاہ کیا کہ سزاؤں کیخلاف اپیلیں باری آنے پر سماعت کیلئے پیش ہوتی ہیں اور اس بات کا تعین اپیل دائر کرنے کی تاریخ پر ہوتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کی جانب سے جو پالیسی جولائی 2020ء میں جاری کی گئی تھی اس کے مطابق سزا کے خلاف فوجداری اپیلیں دو طریقوں سے موصول ہوتی ہیں: جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے ذریعہ جہاں مجرم کو قید کیا جاتا ہے یا پھر مجرم کی جانب سے اپنے وکیل کے توسط سے۔

پالیسی میں لکھا ہے کہ سزا کیخلاف فوجداری نوعیت کی اپیلیں وصول کیے جانے کی تاریخ کے اگلے ہفتے رکھی جائیں گی۔ جیسے ہی عدالت (اسلام آباد ہائی کورٹ) جوڈیشل سائیڈ سے اپیل کو قبول کرتی ہے تو آفس نوٹس جاری کرتا ہے اور ان کی تعمیل متعلقہ پولیس اسٹیشن کے انچارج کے ذریعے کرائی جاتی ہے۔

اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تعمیل کا عمل دس روز میں مکمل ہو جائے۔ پالیسی اصولوں میں مزید کہا گیا ہے کہ اس عدالت کی کوشش ہوگی کہ تمام فوجداری اپیلیں نوے روز میں نمٹا دی جائیں۔

ضلعی عدالتوں میں اپیلوں کے فیصلے میں تاخیر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سیشن ججز اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تمام فوجداری مقدمات میں ٹرائل ترجیحی طور پر ضابطہ فوجداری 1898ء کی شق 173 کے تحت مکمل رپورٹ پیش کرنے کی تاریخ سے نوے (90) دن کے اندر مکمل ہو۔