معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ملک کے تازہ ترین سیاسی واقعات (تیسری قسط)
جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی سے پہلے ملک میں دو اہم واقعات ہوئے‘ تین اپریل 2016کو پاناما پیپرز آئے اور ان میں نواز شریف فیملی کی غیرملکی کمپنیاں اور جائیدادیں نکل آئیں‘ عمران خان کے ہاتھ ایک اور کارڈ آ گیا اور انھوں نے نواز شریف کو چور ثابت کرنا شروع کر دیا۔
دوسرا واقعہ ڈان لیکس تھا‘ یہ خبر6 اکتوبر 2016 کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے شایع ہوئی تھی اور اسٹیبلشمنٹ نے اسے سیکیورٹی بریچ قرار دے دیا‘ تحقیقاتی کمیٹی بنی اور میاں نواز شریف نے پرویز رشیداور طارق فاطمی کے قلم دان واپس لے لیے تاہم حکومت نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا یہ دونوں ایشوز جان بوجھ کر بنائے گئے ہیں۔
جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد 29 نومبر 2016کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی عنان سنبھال لی‘ انھیں آرمی چیف بنانے کا فیصلہ صرف اور صرف میاں نواز شریف نے کیا تھا تاہم اس میں اسحاق ڈار اور چوہدری نثار کا بھی کردار تھا مگر فیصلہ بہرحال میاں صاحب نے کیا اور اس کی وجہ صرف ایک تھی‘ میاں صاحب جانتے تھے جنرل باجوہ جمہوریت پسند ہیں‘ یہ کسی بھی حال میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے‘ بہرحال جنرل قمرجاوید باجوہ آئے اور انھیں ورثے میں پاناما کیس اور ڈان لیکس مل گئیں۔
ڈان لیکس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بلاوجہ نزع کا باعث بنی ہوئی تھیں‘ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آئے گی‘ حکومت ذمے داروں کو فارغ کر دے گی اور یوں یہ ایشو ختم ہو جائے گا‘ حکومت نے 29 اپریل 2017 کو انکوائری رپورٹ جاری کر دی اور تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے وزیراعظم آفس سے نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا۔
ادھر ’’ نوٹیفکیشن ری جیکٹڈ‘‘ کی ٹویٹ آ گئی‘ حکومت اس ٹویٹ کے بعد کم زور ہو گئی‘ وزیراعظم کا چند دن بعد چین کا دورہ تھا‘ اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی یوں افہام و تفہیم سے ڈان لیکس کا معاملہ نبٹ گیا‘ 10مئی 2017 کو ٹویٹ واپس ہو گئی‘ حکومت مضبوط ہو گئی لیکن ریٹائرڈ آرمی آفیسرز نے آرمی چیف پرتنقید شروع کر دی۔
ن لیگ نے بھی شیر زندہ باد کا بیانیہ شروع کر دیا‘ یہ بیانیہ مریم نواز کے میڈیا سیل کا کارنامہ تھا اور یہ ان لوگوں کی بڑی سیاسی غلطی تھی‘ یہ لوگ اگر خاموش ہو جاتے‘ فتح کے شادیانے نہ بجاتے تو معاملہ آگے نہ بڑھتا لیکن ان کی غیر سنجیدہ حرکت نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان دراڑ میں اضافہ کر دیا اور یہ بڑھتی چلی گئی۔
جنرل باجوہ کھلے دل سے یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف ان کے ساتھ ہمیشہ عزت سے پیش آئے اور ان کے ان سے تعلقات بہت اچھے تھے ‘ پاناما پیپرز میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ یہ انٹرنیشنل لیکس تھیں‘ یہ ہوئیں اور عمران خان نے یہ کیچ پکڑ لیا‘ وزیراعظم ہاؤس کی ایک میٹنگ میں جنرل باجوہ نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا ’’آپ یہ معاملہ عدالت میں نہ لے کر جائیں‘ اسے پارلیمنٹ میں ہی حل کر لیں۔
یہ ایشو اگر عدالت چلا گیا تو کوئی ادارہ اور شخص آپ کی مدد نہیں کر سکے گا‘‘ وزیراعظم کا جواب تھا ’’میرے بچے پُراعتماد ہیں‘ انھیں عدالت جانے دیں‘ اللہ کرم کرے گا‘‘ اور حکومت سپریم کورٹ چلی گئی اور یوں یہ معاملہ بگڑتا چلا گیا‘ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا‘ وزیراعظم کو تحقیقات میں ایجنسیاں شامل نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر وہ نہ مانے اور اس کے بعد معاملہ پھیلتا چلا گیا۔
نواز شریف کے قریبی ساتھی یہ تسلیم کرتے ہیں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی تعیناتی وزیراعظم کی خواہش پر ہوئی تھی‘ جنرل نوید مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے رشتے دار تھے اور مریم صاحبہ کا خیال تھا ان کی وجہ سے ان کی فیملی کو پاناما کیس میں ریلیف ملے گا‘ آرمی چیف نے جنرل نوید مختار کی تعیناتی کے وقت وزیراعظم سے کہا تھا‘ سر فوج چین آف کمانڈ کا نام ہے۔
یہاں کوئی ایک شخص اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا‘ یہ بات زیادہ وضاحت کے ساتھ اکتوبر 2021 میں وزیراعظم عمران خان کو بھی بتائی گئی تھی‘ یہ واقعہ کب اور کیوں ہوا تھا‘ یہ ہم آپ کو آیندہ قسطوں میں بتائیں گے‘ سردست ہم واپس آتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے آرمی چیف سے دوسری پرسنل ریکویسٹ 2017 میں کی تھی‘ میاں نواز شریف کو گلہ تھا‘ مریم نواز سے جے آئی ٹی کے دو افسران کا رویہ ٹھیک نہیں ہے‘ اس کے بعد دونوں آفیسرز کا رویہ بدل گیا اور مریم نواز نے دوبارہ ان کی شکایت نہیں کی‘ اسٹیبلشمنٹ کے ذرایع بھی یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف نے ان دو ایشوز کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی کوئی پرسنل کام نہیں کہا تھا‘ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق قریبی ساتھی یہ تسلیم کرتے ہیں پاناما کیس کے دوران میاں نواز شریف کو یہ مشورہ دیا گیا تھا۔
آپ مستعفی ہو جائیں اور اپنی پارٹی کے کسی ایم این اے کو وزیراعظم بنا دیں‘ یہ معاملہ ایک دو سال میں سیٹل ہو جائے گا اور آپ دوبارہ منتخب ہو کر وزیراعظم بن جائیں گے مگر میاں نواز نہیں مانے تھے تاہم انھیں ڈس کوالی فکیشن کے بعد اگست 2017 میں شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانا پڑ گیا‘ یہ اگر یہ فیصلہ چند ماہ قبل کر لیتے تو شاید جیل تک نوبت نہ آتی۔
دوسری طرف بعض ذرایع یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف اگر ڈس کوالی فکیشن کے بعد ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا کا بیانیہ نہ بناتے‘ یہ اگر خاموش بیٹھ جاتے اور ان کی پارٹی اپنی حکومتی مدت پوری کر کے الیکشن میں چلی جاتی تو شاید عمران خان وزیراعظم نہ بن پاتے‘یہ حقیقت ہے ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا نے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی طرف دھکیل دیا۔
2018 کے الیکشنز میں جہانگیر ترین کے جہاز سے لے کر لوٹا سازی تک تمام ہتھکنڈے استعمال ہوئے‘ عمران خان کو تاریخی سپورٹ دی گئی لیکن یہ اس کے باوجود الیکشن میں اکثریت حاصل نہ کر سکے چناں چہ انھیں وزیراعظم بنانے کے لیے اتحادیوں کا بندوبست کرنا پڑ گیا اور یوں اگست 2018میں عمران وزیراعظم بن گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے آرمی چیف جولائی 2018سے قبل عمران خان سے کبھی نہیں ملے تھے‘ یہ ان کے وزیراعظم بننے سے چند دن قبل ایک افسر کے ساتھ بنی گالا گئے اور عمران خان سے ملاقات کی۔ مستقبل کے وزیراعظم کی گفتگو زیادہ قابل فہم نہیں تھی‘ ان کی زیادہ تر باتیں تخیلاتی تھیں‘ ملاقات ختم ہو گئی اور یہ دونوں بنی گالا سے رخصت ہو گئے۔
(جاری ہے)