معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
برطانوی عجائب گھروں میں لوٹ مار کا مال…(4)
برٹش میوزیم کے کمرہ نمبر 33میں ساؤ تھ ایشیا سے متعلق اشیا ہیں۔ یہ ساؤتھ ایشیا گیلری کہلاتی ہے۔ اس میں چین، تبت، بھارت، بھوٹان، نیپال، سری لنکا اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی بہت سی اشیا موجود ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے علاقوں سے تعلق رکھنے والی بیشتر اشیا کا تعلق اُس دور سے ہے جب یہ ممالک تاج ِبرطانیہ تلے ایک ملک کے طور پر زیر نگیں تھے۔ تقریباً ساری اشیاجن میں تاریخی اہمیت کے حامل مجسمے، دستکاریاں، برتن، پینٹنگز اور دیگر نوادرات ہیں یہاں سجی ہوئی ہیں۔ اس گیلری میں بدھ مت کے جو تاریخی آثار، مجسمے اور دیگر چیزیں پڑی ہیں ان میں سے زیادہ تر گندھارا تہذیب کے مرکز پشاور، سوات، تخت بھائی، شاہ جی کی ڈھیری، جمال گڑھی اور ٹیکسلا سے کھدائی کر کے نکالی گئی ہیں۔ مہاتما بدھ کے درجن بھر سے زائد مجسمے اور موہنجوڈارو سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی اشیا دائیں طرف والی Bay میں ہیں جبکہ اس کے سامنے والی سمت میں ٹیپو سلطان کی تلوار پڑی ہے۔
ٹیپو سلطان کی تلواریں برطانیہ کے کئی عجائب گھروں کی زینت ہیں۔ دو تلواریں ایڈنبرا کے قلعے میں پڑی ہیں (پہلے یہاں پانچ تلواریں پڑی ہوتی تھیں)۔ ایک تلوار برٹش میوزیم میں ہے۔ دو تلواریں وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم لندن میں پڑی ہیں اور کسی نے بتایا کہ ٹیپو سلطان کی کچھ چیزیں اور تلواریں ویلز کے قصبے پووس (Powis) کے قلعے میں بھی پڑی ہیں۔ یہ قلعہ بنگال کے گورنر رابرٹ کلائیو کے خاندان کی ملکیت ہے اور اس میں ہندوستان سے لوٹ مار کر کے لائی جانے والی بہت سی چیزیں پڑی ہیں۔ برطانیہ میں بہت سے قلعے، محل، جاگیریں اور بنگلے تاج ِبرطانیہ کی طرف سے وہاں کے لارڈز، ارل اور اسی قبیل کے دیگر نوابین کو بطورِ انعام یا خدمات کے اعتراف کے طور پردیے گئے ہیں۔ اس قسم کے اکثر پرائیویٹ قلعوں، تاریخی عمارتوں اور نوادرات پر مشتمل عجائب گھروں کو ان کے مالکان نے ٹکٹ لگا کر عوام کے لیے کھول رکھا ہے۔
برٹش میوزیم میں ٹیپو سلطان کی تلوار کے ساتھ اس کی پگڑی پہنے سائڈ پوزوالا بلیک اینڈ وائٹ پورٹریٹ بھی لگا ہوا ہے۔ اس تصویر اور تلوار کے ساتھ ایک تحریر بھی موجود ہے جس کا عنوان ہے Dissent and Rebellionیعنی اختلاف اور بغاوت۔ تلوار کے ساتھ تفصیل لکھی ہوئی ہے کہ یہ تلوار ٹیپو سلطان حاکمِ میسور (دورِ حکومت 99-1782) کے محل سے حاصل کی گئی ہے۔ ٹیپو سلطان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے برطانوی توسیع پسندی کے خلاف مزاحمت کی۔ ٹیپو سلطان 1799ء میں اپنی سلطنت کی حفاظت کرتے ہوئے برطانوی فوجوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا تو یہ تلوار بطورِ ٹرافی ایک برطانوی افسر اور نوادرات جمع کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل اے ڈبلیو ایچ میرک نے اس فتح کے اسی سال بعد اس عجائب گھر کو دی۔ ساتھ ہی موجود سونے کی ایک انگوٹھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انگوٹھی شہید سلطان کی انگلی سے بعد از شہادت اتاری گئی۔ یہ انگوٹھی آرتھر ہنری کول جو تب میسور کا ریذیڈنٹ تھا برطانیہ لے آیا۔ عجائب گھر کو انگوٹھی 1997ء میں اس کے پڑپوتے کے پوتے نے عطیہ کی۔
میں ٹیپو سلطان کے شہرہ آفاق کھلونے کی تلاش میں، جس میں ایک بنگال ٹائیگر نے ہیٹ پہنے ہوئے انگریز کو دبوچ رکھا ہے دو بار ایڈنبرا کے نیشنل میوزیم گیا۔ پہلی بار معلوم ہوا کہ انڈین گیلری مرمت اور تزئین و آرائش کیلئے بند ہے۔ دوسری بار گیا تو معلوم ہوا کہ یہ قد آدم کھلونا تو وہاں ہوتا ہی نہیں۔ پتا چلا کہ یہ کھلونا جس میں چابی بھریں تو آوازیں نکالتا ہے دراصل وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم لندن میں ہے۔ اگلی بار وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ یہ کھلونا نئے سرے سے مرمت ہونے کیلئے لے جایا جا چکا ہے۔ اس بار لندن میں قیام خلاف معمول لمبا تھا تو میں نے ایک بار پھر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس بار معلومات کے ڈیسک پر بیٹھی ہوئی خاتون سے اس شیر کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا کہ آپ اندر جا کر بائیں طرف مڑ جائیں تو دائیں طرف دوسری گیلری میں یہ شیر پڑا ہے۔
ایک شو کیس میں یہ شیر پڑا تھا۔ معلوم نہیں کہ اس کھلونے کا رنگ پرانا اور اصلی تھا یا بعد میں دوبارہ کیا گیا تھا مگر وہ ایسے چمک رہا تھا جیسے چند ماہ پہلے ہی کیا گیا ہو۔ اس کے ساتھ ٹیپو سلطان کے گھوڑے پر ڈالا جانے والا تلے کے کام سے مزین جھول پڑا ہوا تھا۔ ساتھ ٹیپو سلطان کی دو تلواریں، دو عدد طمنچے (پستول)، سونے کے دستے والی ایک عدد چھڑی، ایک عدد جیبی گھڑی، دوربین، سرخ اور سبز موتیوں کے جڑاؤ کام والا سونے سے بنا ہوا چھوٹا سا شیر کا سر جو ریاست کا سرکاری نشان تھا۔ فیروزوں سے جڑا ہوا بروچ اور شیشے کے کیس میں رکھا ہوا کریم نگر کا بنا ہوا چاندی کا ڈبہ تھا۔ اس ڈبے کی تفصیل میں لکھا ہوا ہے کہ یہ ڈبہ سرنگا پٹم کے محاصرے کے دوران لوٹ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے۔
میں برمنگھم گیا تو ایک دوست نے پوچھا کہ کیا آپ نے پووس کاسل دیکھا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں! یہ کہاں ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ برمنگھم سے ایک سو بیس کلو میٹر کے فاصلے پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ میں نے اس قلعے کی خاص بات پوچھی تو علم ہوا کہ یہ قلعہ کلائیو خاندان کی ملکیت تھا اور اس میں کلائیو خاندان کی ہندوستان میں لوٹ مار کر کے جمع کی گئی ساری اشیاموجود ہیں اور اس لوٹ کے مال میں نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے متعلق بہت سی چیزیں بھی دیگر نوادرات کے ساتھ ڈسپلے پر موجود ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا‘ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لارڈ کلائیو نے بنگال سے نواب سراج الدولہ کا مال 1757ء میں لوٹا ہو اور پھر میسور میں ٹیپو سلطان کی چیزیں 1799 میں یعنی بیالیس سال بعد لوٹی ہوں جبکہ لارڈ کلائیو بنگال پریذیڈنسی کے صدر مقام فورٹ ولیم میں دو بار گورنر رہا اور وہ 1766 ء میں واپس برطانیہ چلا گیا تھا۔ اس دوست نے بتایا کہ نواب سراج الدولہ کے محل سے لوٹ مار کرنے والا لارڈ رابرٹ کلائیو تھا جو بنگال کا گورنر تھا جبکہ ٹیپو سلطان کے محل سے اور میدان جنگ سے سامان ہتھیانے والا اس کا بیٹا ایڈورڈ کلائیو تھا جو 1798ء سے 1803ء تک مدراس کا گورنر تھا اور جب 1799ء میں ٹیپو سلطان سرنگاپٹم کی چوتھی جنگ میں شہید ہوا تو یہ صاحب وہاں مال غنیمت سمیٹنے میں مصروف تھے۔ میں نے ہنس کر کہا: یعنی سارے کا سارا خاندان ہی ڈکیتیوں میں مصروف رہا۔ وہ دوست بھی ہنسا اور کہنے لگا حقیقت تو یہی ہے۔
اس دوران باتوں ہی باتوں میں نواب سراج الدولہ کا ذکر چل نکلا۔ میں نے کہا: جب میں نے پہلی بار سراج الدولہ کے بارے میں پڑھا تو میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ خوش باغ میں مدفون نواب سراج الدولہ کو جب جنگِ پلاسی میں شکست کے بعد نمک حرام اور غدار میر جعفر کے بیٹے میرمیراں کے حکم پر مورخہ دو جولائی 1757ء کو محمد علی بیگ نے ”نمک حرام ڈیوڑھی‘‘ میں میر جعفر اور برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت موت کے گھاٹ اتارا تب شہید نواب کی عمر محض تیئس سال تھی۔ نواب شہید ہوا اور میر جعفر غداری کا استعار بن گیا۔ اس کے گھر کو” نمک حرام ڈیوڑھی‘‘ کا لقب ملا۔ اسی طرح ٹیپو سلطان کی شہادت کے وقت عمر بھی سینتالیس سال تھی۔ یہ دونوں چاہتے تو دیگر نوابوں کی طرح اپنی ریاست کو انگریزوں کی باجگزار پر نسلی سٹیٹ بنا کر اپنی زندگی آسان بنا اور اپنا اقتدار بچا سکتے تھے مگر انہوں نے عزت و آبرو کے ساتھ شہادت قبول کی۔ ہندوستان کی 584 پر نسلی سٹیٹس میں سے کتنے حکمران ہیں جو تاریخ میں زندہ ہیں اور ہمیں ان کے نام یاد ہیں؟ (ختم)