برطانوی عجائب گھروں میں لوٹ مار کا مال… (3)

روزیٹا سٹون ہو یا ایلجین ماربلز‘ یہ وہ چیزیں تھیں جو برطانیہ نے مصر اور یونان سے حیلے بہانے سے‘ زور زبردستی سے‘ دھوکے یا فراڈ سے‘ چوری یا چھین جھپٹ کر حاصل کیں لیکن ”بنین برونز‘‘ کا قصہ تو ایسی قتل و غارت گری سے وابستہ ہے جس کے بارے میں تفصیل میں جائیں تو آج مہذب کہلانے والی قوم پر حیرانی ہوتی ہے۔
بنین برونز کانسی اور پیتل کی پلیٹوں اور تختیوں پر بنی ہوئی انسانوں اور جانوروں کی تشبیہوں اور ڈھالے ہوئے مجسموں کا وہ مجموعہ ہے جو برطانویوں نے 1897ء میں ”کنگڈم آف بنین‘‘ پر قبضے کے بعد بادشاہ کے شاہی محل سے لوٹے۔ کانسی اور پیتل سے بنے ہوئے تین سے پانچ ہزار مجسمے‘ سروں کی شبیہیں‘ خود‘ پلیٹیں اور تختیاں بادشاہ کے محل سے لوٹ لی گئیں۔ آرٹ کے یہ نادر نمونے اس محل میں گزشتہ کئی سو سال سے موجود تھے۔ کنگڈم آف بنین تب افریقہ کی شاید سب سے خوشحال سلطنت تھی جو ربڑ‘ پام آئل اور ہاتھی دانت کی تجارت اور افریقہ سے یورپ کی بیشتر تجارت کا راستہ تھی۔ برطانوی اس کی یہ اہمیت کم کرنے کا بہانہ تلاش کر رہے تھے۔ سات برطانویوں کو بنین میں گھات لگاکر قتل کرنے کے الزام میں بنین کے بادشاہ کو سبق سکھانے کیلئے پانچ سو فوجیوں پر مشتمل حملہ آور دستہ اپنے ہتھیار اپنے سامانِ سفر میں چھپا کر بنین کے دارالحکومت ایڈو (Edo) کی طرف چل پڑا اور بادشاہ سے مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر اس کے دارالحکومت پہنچا اور جدید اسلحہ سے لیس اس فوج نے شہر پر حملہ کردیا۔ کسی کو علم نہیں کہ اس حملے میں کتنے لوگ مرے لیکن اس قتل عام کو افریقی نوآبادیاتی تاریخ کا بدترین قتل عام کہا جاتا ہے جس میں مرنے والوں کے سر اور جسم کے دیگر حصے کئی روز تک شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں سڑتے رہے۔
محل لوٹ لیا گیا‘ محل میں موجود قدیم افریقی آرٹ کا بیش قیمت ذخیرہ جو جس کے ہاتھ لگا اٹھا کر لے گیا۔ تقریباً 500 ہاتھی دانت جن کی قیمت تب بیس لاکھ پاو ٔنڈ تھی اٹھا لئے گئے۔ یہ سارا لوٹ کا مال برطانیہ آیا۔ کچھ نادر اشیا ملکہ وکٹوریہ کو پیش کی گئیں۔ آرٹ کے باقی سارے نمونے یورپ بھر کے خریداروں کو بیچ دیے گئے۔ بہت سی چیزیں بنین پر حملہ کرنے والے فوجی مال غنیمت اور جنگ کی یادگار کے طور پر اپنے گھروں کو لے گئے۔ بنین برونز کے نام سے مشہور یہ کانسی اور پیتل کے مجسمے‘ شبیہیں اور تختیاں دنیا بھر کے عجائب گھروں کی زینت بن گئیں۔ اس سلسلے میں برٹش میوزیم ان آرٹ کے نمونوں کا سب سے بڑا ذخیرہ‘ جو آٹھ سو آرٹیکلز پر مشتمل ہے‘ رکھتا ہے۔ بنین کے بادشاہ پر سات برطانویوں کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا لیکن جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود اسے جلا وطن کر دیا گیا اور سارا مال متاع لوٹنے کے بعد ایڈو کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا گیا۔ بنین کی سلطنت بعد میں ختم ہو کر نائیجیریا کا حصہ بن گئی۔ 1930ء سے نائیجیریا ان لوٹے گئے آرٹ کے نادر شہ پاروں کی واپسی کیلئے کوشاں ہے۔ امریکہ‘ جرمنی اور دیگر یورپی و برطانوی عجائب گھروں میں بھی بنین برونز کے ہزاروں نادر نمونے پڑے ہوئے ہیں۔ابھی حال ہی میں لندن کے Horniman میوزیم نے بنین برونز کے 72 آرٹیکلز نائیجریا کو واپس کئے ہیں۔ اسی طرح ایڈو پر حملہ کرنے والے فوجیوں میں سے ایک فوجی میجر ہربرٹ واکر کے پوتے مارک واکر نے اپنے دادا کی ڈائری پڑھنے کے بعد گھر میں پڑے ہوئے بنین برونز کے دو نمونے نائیجریا کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کو ان کے اصل وارثوں تک پہنچا رہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے مرنے کے بعد میری اولاد ان چیزوں کو کرسٹی کے نیلام گھر میں فروخت کر کے پیسے کمائے۔
بنین برونز کو دیگر لوٹ مار کئے گئے آرٹ کے نمونوں اور نوادرات کی واپسی کے امکانات پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ برطانویوں کے پاس اس لوٹ مار کو جائز دکھانے کیلئے نہ کوئی بہانہ ہے اور نہ کوئی دستاویز۔ البتہ وہ تصاویر ضرور تاریخ کا حصہ ہیں جن میں برطانوی فوجیوں کو شاہی محل میں لوٹے گئے ہاتھی دانت کے ذخیرے اور بنین برونز کے ڈھیر کے ساتھ بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔ یورپ‘ امریکہ اور برطانیہ کے عجائب گھروں میں پڑے ہوئے بنین برونز کے ایک ایک نمونے پر بنین کے بے گناہوں کے خون کے داغ ہیں جو کسی طرح بھی دھل نہیں پا رہے۔ اب اس معاملے پر بعض عجائب گھروں نے اپنی پالیسی سے رجوع کرتے ہوئے افریقی آرٹ کے ان نمونوں کو نائیجریا کو واپس کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکی ریاست روڈز آئی لینڈ کے عجائب گھر نے اس قسم کے 31 نمونے واپس بھجوائے ہیں۔ جرمنی کے کئی عجائب گھر واپسی کیلئے بات چیت کر رہے ہیں تاہم برٹش میوزیم خود اپنے ہی بنائے گئے قوانین کے بہانے ان چیزوں کی واپسی کیلئے راضی نہیں ہے۔
ایڈنبرا قلعے میں ٹیپو سلطان کی دو تلواروں کے پاس اسد نے ساتھ والے شو کیس میں پڑی ہوئی سونے کے دستے والی چمکدار اور مرصع تلوار (جو کسی لارڈ اور کمانڈر کو تحفتاً پیش کی گئی تھی) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ٹیپو سلطان کی تلوار اس تلوار کے مقابلے میں خاصی تھکی ہوئی اور فارغ لگ رہی ہے۔ میں نے کہا: ٹیپو کی تلوار عملی طورپر جنگ میں استعمال ہونے والی تلوار ہے جو لڑائی کیلئے بنی تھی نہ کہ کسی جشن کے موقعے پر کسی لارڈ یا نواب کو متاثر کرنے کیلئے تحفے میں دینے کیلئے جو محض اپنی چمک دمک‘ سونے کے دستے اور جڑاو ٔ موتیوں کے باعث بڑی خوبصورت لگ رہی ہے اور ظاہر ہے سجاوٹی تلوار کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔اسد مجھ سے کہنے لگا کہ بابا جان! پاکستان ٹیپو سلطان کی ان تلواروں کی واپسی کیلئے دعویٰ کیوں نہیں کرتا؟ میں ہنسا اور اسے کہا: یہ گورے بڑے شاطر اور چالباز ہیں۔ یہ بنین برونز کی واپسی کے سلسلے میں ایک اڑچن یہ ڈالتے ہیں کہ بنین برونز کا اصل وارث کون ہے؟ بنین کی آزاد سلطنت ختم ہو چکی ہے۔ بادشاہت رخصت ہو چکی ہے اور اب یہ سلطنت نائیجریا کاحصہ ہے۔ بقول ان کے جب یہ نائیجریا سے نہیں لوٹے گئے تو نائیجریا کو واپس کس لئے کئے جائیں؟ یہی صورت ہمارے معاملے میں ہے۔ ہم صرف ٹیپو سلطان کے مسلمان ہونے کی بنیاد پر اس کی تلواروں کے دعویدار نہیں بن سکتے۔ تب کی ریاست میسور آج بھارت کا حصہ ہے اور یہ سامان متحدہ ہندوستان سے لوٹا گیا ہے نہ کہ پاکستان سے۔ اب وہ اسے ہمیں کیوں واپس کریں گے؟ ان کے پاس ان چیزوں کو واپس نہ کرنے کا تو باقاعدہ جواز ہے‘ انہوں نے تو پاکستان کو نواب حیدر آباد دکن میر عثمان علی خان کی جانب سے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے نام پر 1948ء میں بھجوائے گئے دس لاکھ پاؤ نڈ جو برطانیہ کےNatWest Bank میں پڑے پڑے ساڑھے تین کروڑ پاو ٔنڈ ہو چکے تھے واپس کرنے کے بجائے بھارت کو دے دیے ہیں جو اس کیس میں مدعی بھی بعد میں بنا۔
نواب حیدر آباد میر عثمان علی خان 1947ء میں بٹوارے کے وقت اپنی ریاست کو آزاد اور خود مختار رکھنا چاہتا تھا۔ اس کے وزیر خزانہ نواب معین نواز جنگ نے اسلحہ کی خریداری کیلئے لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے نام پر 1,007,940 پاو ٔنڈ سٹرلنگ بھیجے۔ 1948ء میں بھیجی گئی اس رقم کے بارے میں 1954ء میں یعنی چھ سال بعد نواب سے جبکہ اس کی ریاست پر خود بھارت غاصبانہ قبضہ کر چکا تھا‘ اس رقم کی واپسی کا دعویٰ دائر کروا دیا۔ برطانوی سپریم کورٹ نے دو باتوں کو بنیاد بنا کر فیصلہ بھارت میں حق کر دیا‘ پہلا یہ کہ نواب اور بھارت کے صدر کے درمیان معاہدہ ہو گیا تھا اور دوسرا یہ کہ برطانیہ حیدر آباد دکن پر بھارت کے قبضے کو جائز سمجھتا ہے۔ اب اس سے تمہیں برطانوی عدالتوں اور نظام انصاف کی سمجھ آ گئی ہو گی۔ (جاری)